اسلام آباد (نمائندہ خصوصی) آئی ایم ایف کی ڈپٹی منیجنگ ڈائریکٹر اینٹونیٹ مونیسوسیہ نے اس اعتماد کا اظہار کیا ہے کہ پاکستان کے ساتھ جلد سٹاف لیول معاہدہ پر دستخط ہو جائیں گے اور پاکستان کے ساتھ مل کر کام کرنے کے لئے اپنی حمایت کا اظہار بھی کیا۔ وزیر خزانہ سینیٹر محمد اسحاق ڈار نے اسلام آباد سے زوم کے ذریعے آئی ایم ایف/ورلڈ بینک کے موسم بہار کی میٹنگز میں آئی ایم ایف کی ڈپٹی منیجنگ ڈائریکٹر اینٹونیٹ مونیسوسیہ کے ساتھ شرکت کی۔ وزیر مملکت برائے خزانہ اور محصولات ڈاکٹر عائشہ غوث پاشا، ایس اے پی ایم برائے خزانہ طارق باجوہ، ایس اے پی ایم برائے محصولات طارق محمود پاشا نے اسلام آباد سے عملی طور پر اجلاس میں شرکت کی۔ جبکہ امریکہ میں پاکستان کے سفیر مسعود احمد خان، گورنر سٹیٹ بینک جمیل احمد، سیکرٹری خزانہ، سیکرٹری ای اے ڈی نے واشنگٹن سے شرکت کی۔ وزیر خزانہ سینیٹر اسحاق ڈار اور اینٹونیٹ مونیسو سیہ نے حکومت پاکستان کی معاشی اور مالیاتی پالیسیوں اور اصلاحات اور آئی ایم ایف کے جاری پروگرام کے لیے پیشگی اقدامات پر عمل درآمد کے حوالے سے حکومت پاکستان کے اقدامات پر تبادلہ خیال کیا۔ وزیر خزانہ محمد اسحاق ڈار نے انہیں ملک کے معاشی نقطہ نظر سے آگاہ کیا اور معاشی استحکام لانے کے لیے حکومت کے اقدامات سے آگاہ کیا جس سے ترقی کی راہ ہموار ہو رہی ہے۔ وزیر خزانہ نے بتایا کہ توسیعی فنڈ سہولت کے تحت نویں جائزے کے لیے تمام پیشگی کارروائیاں مکمل کر لی گئی ہیں اور حکومت پاکستان آئی ایم ایف کے ساتھ طے شدہ اپنی ذمہ داریوں کو پورا کرنے کے لیے پوری طرح پرعزم ہے۔ وزیر خزانہ نے یہ بھی بتایا کہ تمام بین الاقوامی ذمہ داریوں کو بروقت پورا کیا گیا ہے۔ دریں اثناء ایم ڈی آئی ایم ایف کرسٹلینا جورجیوا نے واشنگٹن میں پریس کانفرنس سے خطاب میں کہا ہے کہ پاکستان سے بین الاقوامی مالی سپورٹ کی یقین دہانی چاہتے ہیں۔ ہم چاہتے ہیں کہ پاکستان پائیدار معاشی ترقی کی جانب گامزن ہو۔ پاکستان کے ڈیفالٹ سے متعلق سوال پر انہوں نے کہا کہ پاکستان ابھی ڈیفالٹ تک نہیں پہنچا اور بہتر ہے کہ وہاں تک نہ پہنچے۔ پاکستان میں زراعت کے مستقبل کی پائیداری پر سوچنا ہوگا۔ ہم پاکستان کی مالی یقین دہانیوں کو یقینی بنانے پر بات کر رہے ہیں تاکہ ہم یہ پروگرام مکمل کر سکیں۔ پاکستان کامیابی سے پروگرام مکمل کر لے گا۔ مجھے امید ہے پاکستانی حکام جو اقدامات کر رہے ہیں اس سے پروگرام مکمل ہونے کی امید ہے۔ سری لنکا جیسی صورتحال کا سامنا نہیں ہوگا۔ بلاشبہ موسمیاتی چینلجز درپیش ہیں۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان نے جن معاملات پر اتفاق رائے کیا ان پر عمل سے پروگرام مکمل کرسکتے ہیں۔ امید ہے کہ یہ ہم سب کی خیرسگالی سے ممکن ہوگا۔ پاکستان موسمیاتی تغیرات کی فرنٹ لائن پر رہے گا۔ پاکستانی حکام کے ساتھ مل کر بڑی محنت سے کام کررہے ہیں۔ پاکستان ایسا پالیسی فریم ورک بنالے جس سے معاشی خطرات ٹل جائیں۔ آئی ایم ایف سربراہ نے کہا کہ ہم چاہتے کہ پاکستان پائیدار معاشی ترقی کی جانب گامزن ہو، ہم پاکستان سے اس وقت بین الاقوامی مالی سپورٹ کی یقین دہانی چاہتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ تمام ممالک کو بڑھتی عالمی تجارتی تقسیم کے نتائج سے بچنے کیلئے دوسری سرد جنگ کو روکنا ہوگا، میں ان لوگوں میں سے ہوں جو جانتے ہیں سرد جنگ کے نتائج کیا ہوتے ہیں، سرد جنگ قابلیت اور دنیا میں شراکت داری کا بڑا نقصان ہے۔ ورلڈ بینک، آئی ایم ایف جیسے اداروں کا دنیا کی مختلف بلاکس میں تقسیم روکنے میں اہم کردار ہے۔ اپنے شہریوں کے مفادات کے تحفظ کیلئے پالیسی سازوں کا اہم کردار رہا ہے۔ اگر ہم نے حقیقت پسندی کا مظاہرہ نہ کیا تو ہر جگہ کے لوگ برے حال میں ہوں گے۔ کرسٹلینا جیورجیوا نے کہا کہ دنیا میں بڑھتی تجارتی تقسیم سے عالمی معیشت میں 7 فیصد کمی ہونے کا امکان ہے۔ بریگزٹ، امریکا، چین تجارتی جنگ اور یوکرین تنازع سے عالمی تجارتی تقسیم میں اضافہ ہوا ہے۔ خیال رہے کہ پاکستان اور آئی ایم ایف کے درمیان مذاکرات جاری ہیں جس کے بعد ایک ارب ڈالر سے زائد کی قسط جاری کی جائے گی۔ پاکستان کا ایک اعلیٰ سطحی وفد جس میں سیکرٹری اقتصادی امور ڈویژن (ڈاکٹر کاظم نیاز)، سیکرٹری فنانس ڈویژن (حامد یعقوب شیخ) اور گورنر سٹیٹ بینک آف پاکستان (جمیل احمد) شامل ہیں، سپرنگ میٹنگز کے دوران، پاکستانی وفد دیگر امور کے ساتھ ساتھ ڈبلیو بی جی اور آئی ایم ایف کی سینئر انتظامیہ کے ساتھ متعدد دوطرفہ ملاقاتیں کرے گا اور دنیا بھر کے وزرائے خزانہ اور اقتصادیات کے ساتھ بات چیت کرے گا تاکہ ان ترقیاتی اقدامات اور دیگر امور پر بات چیت کی جائے جن کا پاکستان کی معیشت پر اثر پڑتا ہے۔ وفاقی وزیر خزانہ اور ریونیو سینیٹر محمد اسحاق ڈار اور وزیر اقتصادی امور سردار ایاز صادق بھی ورچوئل طور پر اہم دو طرفہ ملاقاتوں میں وفد کی قیادت کرتے ہیں۔ پاکستانی وفد نے پہلے تین دنوں کے دوران یعنی اب تک 17 دو طرفہ اجلاسوں میں شرکت کی ہے خاص طور پر آئی ایم ایف اور ڈبلیو بی جی، ریٹنگ ایجنسیز، آئی ایف سی، جائیکا، یو ایس ٹریژری اور اکنامک ٹیموں وغیرہ کے ساتھ اجلاس ہوئے ہیں۔