روزوں کا صدقہ اور زکوٰة نکالو فرمان بنوی

علامہ منیراحمدیوسفی

اِصطلاح شرع میں رمضان المبارک کا صدقہ جو عید کے دن مالدار پر واجب ہوتا ہے اُسے فطرہ کہتے ہیں۔ اَحناف کے نزدیک فطرہ واجب ہے لغوی معنوں میں فطرہ اِفطار سے ہے چونکہ ماہِ رمضان المبارک گذر جانے اور عید کا دِن اِفطار کرنے پر واجب ہوتا ہے‘ اِس لئے اِسے فطرہ کہتے ہیں صدقہ فطر مسلمان فقیر کو دے کرمالک کردینا شرط ہے۔
حضرت عبداللہ بن عمر ؓاِرشاد فرماتے ہیں کہ سرکارِ کائنات کااِرشادِ مبارک ہے: صدقہ فطر ایک صاع چھوہارے یا ایک صاع جَو ہے۔ ہر غلام آزاد،مرد، عورت‘چھوٹے اور بڑے مسلمان پر مقرر ہے اور حکم فرمایا کہ لوگوں کے نمازِ عید کے لئے عید گاہ جانے سے پہلے اَدا کر دیا جائے۔  حضرت ابو سعید خدریؓ سے روایت ہے‘ فرماتے ہیں کہ ہم صدقہ فطر ایک صاع غلہ یا ایک صاع جَویا ایک صاع چھوہارے یا ایک صاع پنیریاایک صاع کشمش یا منقیٰ نکالتے تھے۔ ( بخاری جلد1ص204‘ مسلم جلد۱ ص316‘ مشکوٰة ص160‘ )
حضرت عبداللہ بن عباسؓ سے روایت ہے آپ ہی نے رمضان المبارک کے آخر میں فرمایا کہ اپنے روزوں کا صدقہ نکالو یہ صدقہ رسول اللہ نے لازم فرمایا ہے کہ ایک صاع کھجور یا جَو آدھا صاع گندم یہ ہر آزاد یا غلام مرد یا عورت چھوٹے یا بڑے پر فرض ہے۔
( ابو داود جلد1 ص234‘مشکوٰة ص160۔ )
حضرت عبداللہ بن عباس اِرشاد فرماتے ہیں کہ رسولِ کریم روف ورحیم نے فرمایا: روزوں کی حالت میں بے ہودگی اور فحش (حرکات وکلام) سے پاک کرنے اور مسکینوں کو کھانا دینے کے لئے صدقہ فطر لازم قرار دیا ہے جو کوئی نماز سے قبل اَدا کرے گا اُس کے لئے صدقات میں سے یہ بھی ایک صدقہ ہوگا۔(ابوداود جلد1ص234‘ مشکوٰة ص160‘ السنن الکبریٰ للبیہقی جلد 4ص263‘ دارقطنی جلد2ص138‘ ابن ماجہ ص132۔ )
حضرت عمرو بن شعیب سے روایت ہے وہ اپنے والد سے اور وہ اپنے دادا سے بیا ن کرتے ہیں کہ نبی کریم روف ورحیم نے مکہ پاک کی گلیوں میںمُنادی بھیجا کہ خبردار ہو کہ صدقہ فطر ہر مسلمان مرد،عورت،آزاد،غلام، چھوٹے اور بڑے پر واجب ہے گندم وغیرہ سے دو مُدّیا اِس کے سوا غلہ کا ایک صاع۔
(ترمذی جلد۱ ص146‘ مشکوٰہ ص160۔ )
حضرت عبداللہ بن ثعلبہ بن عبداللہ اپنے والد سے حدیث پاک بیان کرتے ہیں‘ کہ رسول اللہ نے فرمایا ہے کہ ایک صاع گندم دو شخصوں کی طرف سے ہے۔ چھوٹے بڑے آزاد یا غلام مرد یا عورت تم میں سے تمہارے غنی کو اللہ تبارک وتعالیٰ پاک فرمادے گا۔لیکن تمہارا فقیر‘ اللہ ربُّ العزّت اُسے دئےے سے زیادہ دے گا۔ (ابو داود جلد1ص 235‘ مشکوٰة ص160‘)
حضرت ابو سعید خدریؓ سے روایت ہے‘ فرماتے ہیں کہ حضور ہمارے درمیان تشریف رکھتے تھے تو ہم صدقہ فطر چھوٹے بڑے کا ایک صاع اَناج کا یا پنیر کا کھجور کا یا اَنگور کا نکالتے تھے پھر اِس طرح ہم صدقہ فطر نکالتے رہے یہاں تک کہ حضرت امیرمعاویہؓ حج یا عمرہ کرنے کو آئے اُنہوں نے منبر پر چڑھ کر لوگوں سے بیان کیا اور اِس میں یہ بھی تھا کہ میری رائے میں دومُدّ گیہوں شام سے آتے ہیں ایک صاع کھجور کے برابر ہیں پھر لوگوں نے یہی اِختیار کرلیا لیکن حضرت ابوسعیدخدریؓ فرماتے ہیں میں تو ایک ہی صاع دیتا رہا ۔(ابوداود جلد 1 ص235۔ )
 حضرت حسن بصریؓ سے روایت ہے کہ جب حضرت عبداللہ بن عباسؓ بصرہ کے امیر تھے تو اُنہوں نے رمضان المبارک کے مہینہ کے آخر میں فرمایا کہ اپنے روزوں کی زکوٰة نکالو‘ لوگوں نے ایک دوسرے کو دیکھنا شروع کیا اُنہوںنے کہا یہاں مدینہ شریف کے رہنے والوں میں سے کون کون ہیں؟ اُٹھو اور اپنے بھائیوں کو سکھاو کیونکہ وہ نہیں جانتے کہ وہ زکوٰة صدقہ فطر ہے جسے رسولِ کریم روف ورحیم نے ہر مرد اور عورت،آزاداور غلام پر ایک صاع جَو، ایک صاع کھجور آدھا صاع گیہوں سے مقرر فرمایا ہے پھر وہ لوگ اُٹھے۔
حضرت عبداللہ بن عمر سے روایت ہے‘ نبی کریم روف ورحیم نے صدقہ رمضان ہر مرد عورت اور ہر آزاد غلام پر ایک صاع کھجور یا ایک صاع جَو مقرر فرمایا ہے اور لوگوں نے اُس کے مساوی گندم کو آدھا مقرر کیا۔ حضرت عبداللہ بن عمر ؓصدقہ فطر کھجور دیا کرتے تھے۔ مدینہ (منورہ) کے لوگ جب کھجوروں کے محتاج ہوئے تو اُنہوں نے جو فطرہ دیا۔حضرت عبداللہ بن عمرؓ ہر چھوٹے بڑے کی طرف سے یہ صدقہ فطر دیتے تھے حتیٰ کہ میرے یعنی حضرت نافع علیہ الرحمہ جنہوں نے حضرت عبداللہ بن عمرؓسے حدیث بیان کی ہے اُن کے بیٹوں کی طرف سے فطرانہ دیتے تھے۔ (نسائی جلد1 ص347‘ ابو داود جلد1 ص236۔)
حضرت عبداللہ بن عمرؓ کی حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ صدقہ فطر کھجور اور جَو ایک صاع ہے۔ اَحناف کے نزدیک دو مُدّ یعنی نصف صاع ہے (عمدة القاری جلد5جز 9 ص109) حضرت ابو سعید خدریؓ سے مروی حدیث پاک میں صاعاًمن طعام کا ذکر کیا گیا ہے یہاں طعام (غلہ) سے مراد جَو ہیں نہ کہ گندم کیونکہ حضرت ابو سعید خدریؓ سے مروی ہے کہ ہم سرکارِ کائنات علیہ التحیة والثناءکے ظاہری زمانہ (حیات) میں فطر کے دن ایک صاع طعام فطرہ دیتے تھے اور ہمارا طعام جو زبیب ،پنیر اور کھجور تھا۔ (بخاری جلد1 ص204‘عمدة القاری جلد5 جز9 ص118‘فتح الباری شرح بخاری جلد3 ص478۔ )
(۱۱)حضرت ابوداود نے حضرت ابو ثعلبہ ابن ابی صعیر سے جو روایت نقل کی ہے اُس میں رسول کریم روف ورحیم کا اِرشادِ مبارک ہے کہ ایک صاع گندم دو آدمیوں کی طرف سے ہے۔ (بخاری جلد1ص204‘عمدة القاری جلد5 جز9 ص117‘فتح الباری جلد3 ص475۔) جب حضرت امیر معاویہؓ کا دَورِ حکومت آیا اور گندم آنے لگی تو اُنہوں نے فرمایا میرا خیال ہے کہ اِس کا مُدّ اُس کے دو مُدّکے برابر ہے۔لوگوں نے اِس پر عمل شروع کردیا حضرات صحابہ کرامؓ کے جم غفیر نے حضرت امیر معاویہؓ کی موافقت کی۔ اِس کی دلیل یہ ہے کہ ابو داود کی اِس حدیث میں یہ اَلفاظ ہیں فاخذ الناس بذالک یعنی لوگوں نے اِس پر عمل شروع کردیا یہ عموم اِجماع پر دلالت کرتا ہے۔( عمدة القاری جلد5 جز9ص116۔)
صاع عرب شریف کا مشہور پیمانہ ہے جس سے دانے ماپ کر فروخت ہوتے تھے۔ عراق حجازِ مقدس اور یمن وغیرہ کے صاع مختلف تھے۔ فطرانہ میں حجازی صاع جو حضور نبی کریم کے ظاہری زمانہ حیات میں مروج تھا معتبر ہے جو چار سیر ڈیڑھ پاو ایک تولہ کے برابر ہے۔ لہٰذااگر فطرانہ میں جَو دے تو ایک شخص کی طرف سے اِتنے دے اور اگر گیہوں سے دے تو آدھا صاع جیسا کہ حضرت عبداللہ ابن عباس، حضرت عمرو بن شعیب اور حضرت عبداللہ بن ثعلبہؓ کی روایات میں بیان ہے۔
ایک صاع4 مُدّ کے برابرہے اور دو مُدّ آدھا صاع کے برابر ہے اور آدھا صاع 2 سیر تین چھٹانک چھ ماشے کے برابر تقریباً سوا دوسیر۔
صدقہ فطر واجب کرنے کی دو حکمتیں ہیں ایک یہ کہ روزہ دار کے روزوں کی کوتا ہیوں کی معافی ہو جائے کیونکہ اکثر روزوں میں غصہ بڑھ جاتا ہے تو اکثر روزے دار بلا وجہ لڑ پڑتے ہےں کبھی جھوٹ، غیبت وغیرہ بھی ہو جاتی ہے۔ ربّ کریم اِس فطرانہ کی برکت سے وہ کوتاہیاں معاف فرما دے گا کیونکہ نیکیوں سے گناہ معاف ہوتے ہیں دوسرا یہ کہ مسکینوںکی روزی کا اِنتظام ہو جائے ۔بچوں پر اگرچہ روزہ فرض نہیں مگرفطرانہ غریبوں کی مدد کا سبب ہوتا ہے‘ اِس لئے یہ بات قابلِ اِعتراض نہیں۔
مسائل:فطرہ میں اصل گندم وجو اور جوار ہیں اگر اِن کے سوا کسی اور غلہ یا دوسری چیز سے فطرہ دیا گیا تو اِن مذکورہ دانوں کی قیمت کا لحاظ ہوگا۔ لہٰذا چاول باجرہ آدھے صاع گیہوں کی قیمت کے دینے ہوں گے۔چھوٹے بڑے آزاد غلام سب کا فطرہ یکساں ہے یعنی آدھا صاع گندم۔
صدقہ فطر تو نگری سے واجب ہوتا ہے ،غریب پر صدقہ فطر واجب نہیں ،صدقہ فطر کے وجوب پر علما کا اِتفاق اور اِجماع ہے۔ (عمدةالقاری جلد5جز9ص108۔)
اِس کا مرتبہ سنت و فرض کے درمیان ہے:-
حضرت دیلمی وخطیب وابن عساکر حضرت انسؓ سے راوی ہیں کہ بندہ کا روزہ آسمان وزمین کے درمیان معلق رہتا ہے جب تک کہ صدقہ فطر اَدانہ کیا جائے کیونکہ عمر بھراِس کا وقت ہے یعنی اگر اَدا نہ کیا ہو تو اَب اَدا کردے۔نہ اَدا کرنے سے ساقط نہ ہوگا اور نہ اَب اَدا کرنا قضا ہے بلکہ اَب بھی اَدا ہی ہے اگرچہ مسنون قبل نمازِعید اَدا کردینا ہے۔
( درمختار وغیرہ،بہار شریعت حصہ پنجم۔)
عید کے دِن صبح صادق طلوع ہوتے ہی صدقہ فطر واجب ہوتا ہے۔
صدقہ فطر واجب ہونے کے لئے روزہ رکھنا شرط نہیں۔
باپ نہ ہوتو داداباپ کی جگہ ہے یعنی اپنے فقیر ویتیم پوتے پوتی کی طرف سے اُس پر صدقہ واجب ہے۔
جو بچہ اَمیر کے ہاں عید کے دن صبح صادق سے پہلے پیدا ہوا اُس کا بھی صدقہ فطر ہے۔
صدقہ فطرکی مقدار یہ ہے گیہوں یا اُس کا آٹا دیا تو نصف صاع۔ ( درمختار عالمگیری ،بہار شریعت حصہ پنجم۔)
 ایک شخص کا فطرہ ایک مسکین کو دینا بہتر ہے اور اگرچند مساکین کو دے دیا تب بھی جائز ہے۔ یونہی ایک مسکین کو چند شخصوں کا فطرہ بھی بلا خلاف جائز ہے۔
 صدقہ فطر کے مصارف وہی ہیں جو زکوٰة کے ہیں یعنی جن کو زکوٰةدے سکتے ہیں اُنہیں فطرہ بھی دے سکتے ہیں اور جنہیں زکوٰة نہیں دے سکتے اُنہیں فطرہ بھی نہیں دے سکتے۔

ای پیپر دی نیشن