محمد وجیہ السِّیما عرفانی ؒ
سیّدِاوّلین و آخرین، امام الانبیائ، رحمت للعالمین نے ایک موقع پر ارشاد فرمایا ”ان لربکم فی ایام دہرکم نفحات، الا فتعرضوا لہا“ یعنی لوگو! بے شبہ تمہاری زندگیوں کے ایام میں تمہارے لیے رحمتوں اور بخششوںکے کچھ جھونکے تمہارے پروردگار کے ہیں، تم ہوش میں رہو اور اپنے آپ کو ان رحمتوں کے خزینوں کے لیے پیش کر دو اور ان کے لیے تیار رہو۔ یہ تیاری کیا ہے؟ یہ کہ ہر شخص اُس روشِ حیات پر قائم رہے جو اُس کے رحیم و رحمن خالق تعالیٰ نے اسے عطا فرمائی ہے اور جس کا ایک ایک گوشہ اُس ذاتِ عالی کے ذریعے سارے آفاقِ عالم میں واضح کر دیا ہوا ہے جو رحمتِ کائنات ہیں۔ یہ سب کچھ بھی اُسی تعالیٰ کے اندازِ رحمانیت کا ایک کرشمہ ہے۔ قرآن حکیم میں ارشاد فرمایا
وَ لَو لَا فَضلُ اللّٰہِ عَلَیکُم وَ رَحمَتُہ¾ مَا زَکٰی مِنکُم مِّن اَحَدٍ اَبَدًا (النور24:آیت21)
لوگو! یہ سب کچھ اُسی اﷲ تعالیٰ کے فضلِ عام اور رحمتِ بے پایاں کے ذریعے ہوا ہے ورنہ اس کا رحم اور اس کا فضل نہ ہوتا تو تم میں سے کوئی ایک بھی کسی صورت بھی پاک دل اور پاک احوال کبھی نہ ہو سکتا۔ یہ بھی اُس تبارک و تعالیٰ کا کس قدر عظیم فضل اور احسان ہے کہ اُس نے ہمیں اپنی رحمتوں کی وسعت کے احوال اور زمان و مکان سے آگاہیاں عطا فرمائی ہیں۔ کعبةاللہ ہے، حضور اکرم کا حرمِ رحمت ہے، روئے زمین پر ہر جگہ مسجدیں ہیں، اﷲکے عباد اور مقرب بندوں کے مقاماتِ عبادت ہیں۔ ان سبھی مقامات پر درجہ بدرجہ حق تعالیٰ کے انوار و انعامات کا نزول ہوتا ہے۔ پھر زمان یعنی اوقات کا تعین ہے تو سال بھر کے بارہ مہینوں میں سے چار کو خاص حرمت بخشی۔
قرآن حکیم میں ارشاد فرمایا
مِنہَآ اَربَعَةµ حُرُمµ (التوبہ9:آیت36)
ان میں سے بھی سب سے زیادہ جس ایک مہینے کو خاص نوازشوں کا وقت بنایا وہ رمضان کا مہینہ ہے۔ قرآن حکیم میں رمضان کی بابرکت وسعادت اوقات کے بارے میں ایک بنیادی بات یہ واضح فرمائی کہاُنزِلَ فِیہِ القُراٰنُ (البقرة2:آیت185)
اس مہینے کی ساعتوں کے تقدس اور عظمت کا ایک احساس اسی بات سے کرنا چاہیے کہ قرآن کریم جیسی وحی حق کہ اﷲ کے آخری نبی پر اﷲ کی آخری وحی ہے اور ”تِبیَانًا لِّکُلِّ شَیئٍ(النحل16:آیت89)“ ہے یعنی ہر بات کو نکھار کر واضح کرنے والا وہ قرآنِ عظیم اسی مہینے میں نازل ہوا۔ اس تقدیس کی فضا میں اہلِ ایمان پر روزے فرض کر دئیے
کُتِبَ عَلَیکُمُ الصِّیَامُ (البقرة2:آیت183)
پورا رمضان کا مہینہ شعبان کے ختم ہونے سے لے کر شوال کے آغاز ہونے تک۔ اب یہ پورے مہینے کے روزے بندہ مومن کے اندر جو صفات پیدا کرتے ہیں اُن کا کوئی شمار ہی نہیں۔ اپنے مزاج کی فطری ضروریات سے بھی اﷲ کی خاطر خود قابو پائے رہنا ، کھانے پینے سے رُکے رہنے کے علاوہ کسی کو گالی نہ دینا، کسی کو درپے آزار نہ ہونا، یہ سب کچھ اس صورت سے ممکن ہے کہ خود مزاج و ضمیر سراسر پاکیزگی میں ڈھل جاتے ہیں اور انتیس یا تیس دن کا یہ مسلسل عمل پوری زندگی کو خیر وبرکت کی تاب عطا فرماتا ہے۔ اس کے علاوہ رمضان میں شب بیداری، سحرخیزی ، اوقات کی پابندی، رات کو تراویح کی شکل میں زائد نمازوں کا اہتمام، پھر قرآن مجید کی تلاوت، خود قرآن مجید پڑھتے رہنا اور حفاظ سے نماز میں قرآن مجید کا سننا یہ ساری کس قدر برکتیں اور نعمتیں ہیں جو رمضان ہی میں حاصل ہوتی ہیں اور شریعت نے ہمارے لیے یہ برکتیں قریباً لازم کر رکھی ہیں۔
ایک اور عمل جو رمضان میں ضروری ہے وہ یہ ہے کہ نادار لوگوں کے کھانے پینے اور دوسری ضروریات کا خیال رکھنا اور اُنہیں مہیا کرنا، ہر ایک کے ساتھ کھلی طبیعت اور کشادہ مزاج کا برتاﺅ یہ وہ کیفیت ہے جو رمضان کی ربانی نعمتوں کا الگ دائرہ ہے اور انسانی اقدار میں بلند ترین حیثیت رکھتا ہے۔
ایک اور برکت اسی رمضان میں ہے کہ اس کے آخری عشرے میں صرف چند روز ایسی کیفیت میں گزارنا کہ
اَنتُم عٰکِفُونَ لا فِی المَسٰجِدِ (البقرة2:آیت187)
اﷲ کے گھروں میں ہفتہ ڈیڑھ ہفتہ اس طرح رہنا کہ سارا وقت تسبیح و تہلیل بحضورِسیّدِ کائنات و آلِ پاک درودوسلام اور تلاوتِ کلامِ پاک میں گزرتا رہے اور روزمرہ کی گھریلو مصروفیات سے صرف چند روز کے لیے کنارہ کش رہ کر۔ مزیدبرآں اسی عشرے کی طاق راتوں میں اُن ساعتوں کے لیے اہتمام جو لیلةالقدر میں ہیں۔ان صورتوں سے پورا رمضان جہاںبھرپور نعمتوں کی تجلیات لیے ہوتا ہے وہاں خود ہمارے شب و روز، ہماری مصروفیات اور ہمارے احوال و کیفیات کا ایک ایسا اسلوب ہمیں میسر آتا ہے کہ ایمان منور ہو اُٹھتا ہے، قلب پُرکیف ہوتا اور احوال ایک ایسی سرشاری سے مالامال ہوتے ہیں کہ جب رمضان کے دن ختم ہونے پر آتے ہیں تو اندرونِ طبع میں ایک عجیب سا احساس ہوتا ہے کہ کیا انوار کے ہالے تھے، کیا رحمتوں کی ساعتیں تھیں کہ ہم جن سے گزرے اور اﷲ تعالیٰ بانصیب و بامراد رکھے۔ پھر یہ بابرکت ساعتیں ایک سال کے بعد عطا ہوں گی۔ تاہم چونکہ حق تعالیٰ کی توفیق ہی شاملِ احوال رہی اور اسی کے کرم سے یہ ساعتیں گزریں اس لیے وہ یکم شوال کو روزِعید عطا فرماتا ہے۔
ایک شکرسپاس اس کی بارگاہ میں اور ایک عظیم آسائشِ روح کہ آئندہ رمضان تک مزاج اس شکرِتوفیق میں سرشار رہے۔ نظمِ فطرت میں دن تو سارے ہی آتے ہیں اور گزرتے رہتے ہیں۔ یہ راتیں، یہ سحریں، یہ صُبحیں، یہ شامیں، یہ نمازیں، یہ رکوع وسجود، یہ افطار، یہ سحریاں، یہ تلاوتیں، یہ ہر ایک سے سلامِ محبت، یہ کھانے پینے میں ہر ایک کو شریک بنانے کی خواہشیں یہ فطرہ کے صدقات جو انہی دنوں میں غریبوں مسکینوں کو دینے لازم ہیں، یہ اعزا و اقربا سے محبتوں کی ملاقاتیں، یہ دعائیں، مناجاتیں، یہ اﷲ کے حبیبِ ازل و ابد کے حضور عرضِ صلوٰة و سلام یہ کیا نعمتیں ہیں اور کیا احوال ہیں۔ یہ رمضان مبارک میں جمعے کے ایام، وہ ساعتیں جن میں ہر التجائے بندگی قبول ہوتی ہے۔ جمعے کی بابرکت ساعتیں جن کے لیے حضوراکرم نے ارشاد فرمایا کہ ہر جمعے میں ایک ایسی ساعت آتی ہے کہ بندہ مومن اس میں اپنے اﷲ کے حضور جو بھی مانگتا ہے وہ اُسے قبول فرماتا ہے۔
رمضان کی یہ بابرکت ساعتیں اﷲ تبارک وتعالیٰ کی بارگاہ میں قبولیت کا وسیلہ ہیں۔ حضوراکرم کے ارشادات کے مطابق جمعے کے اندر وہ ساعتیں جن میں اﷲ تعالیٰ کے ملائکہ اﷲ تعالیٰ کے مقبول بندوں کے لیے اور تمام اہل ایمان کے لیے دعاﺅں کے پرپھیلاتے ہیں اور ان کے لیے برکتوں کی جھولیاں پھیلا کر اﷲ تعالیٰ سے استدعائیں کرتے ہیں وہ اِس جمعے میں ہیں۔ یہ جمعہ جس میں اب رمضان ختم ہو رہا ہے یہ آخری جمعہ جسے ہم جمعةالوداع کے نام سے یاد کرتے ہیں، ساری ساعتیں برکت اور قبولیت اس کے اندر موجود ہیں۔ یہ جمعہ رمضان کا آخری جمعہ ہے، قبولِ درِحق کی ساری مستند ساعتیں جمع ہیں، ہمارے لازم ہے کہ اﷲ اور اس کے رسولِ برحق سے ہم نے قلب و ایمان کے جو پیمان باندھے ہیں اس موقع پر ان کی تکمیل کے عہد کو تازہ رکھیں، اپنے لیے، اپنے اقارب کے لیے، گھربار کے لیے، صحت و رزق کے لیے، معاشرے کے لیے، ملت کے لیے اور وطنِ عزیز کے لیے تمام نیک دعائیں اپنے سمیع و مجیب اﷲ کی بارگاہ میں حاضر کریں، وہ قبول فرمائے اور ہمیشہ انوار، برکات اور رحمتِ کاملہ کی راحتوں میں ہمیں شادوآباد رکھے۔ آمین