تحریر: علامہ عبدالستار عاصم
انڈسٹری اکیڈیمیا لنکجز عصر حاضر کا سب سے توجہ طلب موضوع بن چکا ہے۔ دنیا بھر کی طرح پاکستانی جامعات میں بھی ریسرچ سکالرز، سائنسدان اور صنعتی ماہرین اس موضوع پر اپنی آراء کا اظہار کررہے ہیں۔ جامعات ہوں یا پھر ایوانان صنعت و تجارت تمام شعبہ جات سے منسلک افراد اس کی اہمیت و افادیت پر روشنی ڈالتے نظر آتے ہیں۔ دنیا بھر میں ترقی اور نت نئی ایجادات جامعات میں جاری تحقیق کی مرہون منت ہیں۔ انفارمیشن ٹیکنالوجی کا انقلاب ہو یا پھر زرعی ترقی جامعات نے تمام شعبہ جات میں ان پٹ دیا ہے جس کی آئوٹ پٹ سے اب دنیا مستفید ہو رہی ہے۔ کئی جامعات نے اپنی لنکجز کا دائرہ کار ملکی سطح سے بڑھا کر عالمی سطح تک پھیلا لیا ہے جس سے نہ صرف تحقیق و تدریس کو ایک نئی جہت ملی ہے بلکہ اساتذہ اور طلبہ کو عالمی معیار کی لیبز تک رسائی ممکن ہوئی ہے۔ عالمی تجربات کی روشنی میں جامعات پاکستان کو درپیش مسائل کا حل ڈھونڈ رہے ہیں۔ ضروت اس امر کی ہے کہ ہائر ایجوکیشن کمیشن کو انڈسٹری کی مستقبل کی ضروریات کے ساتھ ہم آہنگ ہونا چاہیے۔ پاکستان کے اہم اقتصادی چیلنجوں سے نمٹنے کے لیے مضبوط انڈسٹری اکیڈمی لنکیج وقت کی ضرورت ہے۔جن ممالک میں صنعتی اکیڈمی کا موثر تعلق ہے ان کی پیداواری صلاحیت اور مسابقتی معیشتیں زیادہ ہیں۔ تحقیق اور اختراع کے لیے سازگار ماحول قائم کرنے کے لیے متعدد ممالک یونیورسٹی اور صنعت کے روابط کو مجموعی قومی پالیسی فریم ورک کے ساتھ مربوط کرنے کے لیے متنوع طریقوں کو باقاعدہ بنانے پر کام کر رہے ہیں۔ ہمیں بھی ان کے نقش قدم پر چلنے کی ضرورت ہے کیوں کہ ملک کی اختراع اور ترقی کے لیے صنعت اور اکیڈمی کا ربط ناگزیر ہے۔ اس سے درآمدی بل کو کم کرکے زرمبادلہ کے ذخائر کو بچا سکتا ہے اور یہ نوجوانوں کے لیے روزگار کے وسیع مواقع بھی فراہم کرے گا۔ اس حوالے سے ملک کی دیگر جامعات جہاں اپنے اپنے انداز سے کام کررہی ہیں وہیں پنجاب کے آخری ضلع رحیم یار خان میں موجود خواجہ فرید یونیورسٹی ا?ف انجیئرنگ اینڈ انفارمیشن ٹیکنالوجی بھی ترقی کے لیے درکار ان مراحل کو تیزی سے طے کررہی ہے۔ اگرچہ یہ جامعہ نوخیز ہے جس کی عمر دس سال سے بھی کم ہے نے گزشتہ 3 برس میں حیران کن ترقی کی ہے۔ قومی و بین الاقوامی رینکنگز میں نمایاں مقام رکھتی ہے۔ سوا ارب روپے سے زائد کے سکالر شپ تقسیم کر چکی ہے، سٹیٹ آف دی آرٹ لیبز، سمارٹ کلاس رومز ، جدید سپورٹس کمپلیکس سمیت تمام نصابی و ہم نصابی سرگرمیوں پر وائس چانسلر پروفیسر ڈاکٹر محمد سلیمان طاہر کی بھرپور توجہ نے اس جامعہ کو صف اول کی جامعات میں لا کھڑا کیا ہے۔ یہ جامعہ گزشتہ تین سال میں70 سے زائد ملکی و غیر اداروں کے ساتھ ایم او یوز کر چکی ہے۔ حال ہی میں خواجہ فرید یونیورسٹی اور ایک اور چینی کمپنی ہینگینگ ٹریڈ نے مختلف پراجیکٹس پر مل کر کام کرنے کا اعلان کیا ہے۔ اس کمپنی نے یونیورسٹی کے اندر ایک بریڈنگ سںٹر قائم کرنے کا فیصلہ کیا ہے جس نہ صرف لائیو سٹاک کی بہتری میں مددگار ہوگا بلکہ اس سے ذراعت کے شعبہ میں زیر تعلیم طلبا و طالبات بھی مستفید ہوسکیں گے۔ اس حوالے سے چینی کمپنی ہینگینگ ٹریڈ کے سی ای او اینڈی لیائو نے گزشتہ دنوں خود خواجہ فرید یونیورسٹی کا دورہ کیا اور سنٹر کے قیام کے حوالے سے تبادلہ خیال کیا۔ جامعہ آمد پر وائس چانسلر پروفیسر ڈاکٹر محمد سلیمان طاہر نے معزز مہمان کا استقبال کیا۔ اس موقع پر چیئرمین آل پاکستان کسان ایسوسی ایشن محمود بخاری بھی موجود تھے۔ وائس چانسلر پروفیسر ڈاکٹر محمد سلیمان طاہر نے معزز مہمانوں کو خواجہ فرید یونیورسٹی کی حالیہ کامیابیوں، قومی و بین الاقوامی رینکنگز میں بہتری اور انفراسٹرکچر سے متعلق پراجیکٹس کی تکمیل پر بریفنگ دی جس پر انہوں نے انتظامیہ کی کاوشوں کی تعریف کی۔ملاقات میں ایگری کلچر ، لائیو سٹاک کی بہتری کے لیئے سنٹر کے قیام اور طلبہ کی تربیت کے حوالے سے مل کر کام کرنے پر اتفاق کیا گیا۔ وائس چانسلر پروفیسر ڈاکٹر محمد سلیمان طاہر کا کہنا تھا کہ خواجہ فرید یونیورسٹی قومی و بین الاقوامی سطح پر انڈسٹری اکیڈیمیا لنکج کے فروغ کے لیئے کوشاں ہے۔انہوں نے کہا کہ طجن ممالک نے ریسرچ اور اکیڈیمیا کو انڈسٹری سے لنک کر دیا انہوں نے تیزی سے ترقی کی۔ انہوں نے بتایا کہ اس حوالے سے امریکا، یورپ اور چین کی کئی کمپنیوں کے ساتھ ایم او یوز کیئے گئے ہیں جن سے طلبہ و طالبات مستفید ہورہے ہیں۔ معزز مہمانوں نے جامعہ کے ٹیچنگ بلاک، سمارٹ کلاس رومز، سپورٹس کمپلیکس، کمیونٹی سنٹر سمیت جامعہ کے مختلف حصوں کا دورہ کیا تو خوش گوار حیرت کا اظہار کیا کہ پنجاب کے دور افتادہ علاقے میں عالمی تقاضوں کو پورا کرتی اس یونیورسٹی میں بین الاقوامی معیار کی وہ تمام سہولیات میسر ہیں جن کا ماضی میں صرف سوچا جا سکتا تھا۔
خواجہ فرید یونیورسٹی کا یہ اقدام نہ صرف جامعہ کی تعمیر وترقی کے سفر میں اہم سنگ میل ہوگا بلکہ اس سے علاقائی ترقی کے راستے بھی ہموار ہوں گے۔ خواجہ فرید یونیورسٹی کی بدولت غیر ملکی سرمایہ کاری رحیم یار خان تک پہنچے گی جس سے اس علاقے کی پسماندگی دور ہوگی، طلبہ کے لیے نئے مواقع جنم لیں گے اور ان کیلئے تدریس و تحقیق کے ساتھ روزگار کے نئے در وا ہوں گے۔