آدمی کو بھی میسر نہیں انساں ہونا''

ٹی ٹاک …طلعت عباس خان ایڈووکیٹ
takhan_column@ho tmail      


اس وقت ملک کئی بحرانوں کی زد میں ہے یہ بحران اپنے پیدا کردہ  ہیں جس  سے سبھی اداروں کا برا حال ہے۔ ہر ادارہ دوسرے پر انگلیاں اٹھا رہا ہے، تنقید کا نشانہ بنا رہا مگر  اپنا آپ انہیں  دکھائی نہیں دیتا۔ایسا سب کچھ ایک سوچے سمجھے منصوبے کے تحت ہوتا ہوا دکھائی دے رہا ہے جس سے سب پریشان ہیں۔ بابا کرمو کا کہنا تھا کہ جب تک عام آدمی انسان نہیں بنتا پاکستان کے حالات بدل  نہیں سکتے !!
باباکرمو کہتا ہے کوئی مانے یا نہ مانے' اس ملک میں سب سے بڑا فراڈیا دو نمبر کاروبار کرنے والا  جھوٹا' سب سے بڑا چور' عام آدمی اور اس کا سیاسی لیڈر ہے۔ یہ عام آدمی  انتہائی بے شرم' ڈھیٹ اور بد دیانت ہے! یہ عام آدمی سیاست میں ہے نہ اسٹیبلشمنٹ میں! یہ نہ بیورو کریٹ ہے' نہ جج ہے اور نہ جرنیل! مگر ان سب کے قریب رہتا ہے اور  یہ عام لوگوں کا سب سے بڑا دشمن ہے یہ عام ادمی چھوٹے بڑے سبھی  کے کام کرتا ہے۔ پھل بیچتا ہے تو جان بوجھ کر گندے پھل تھیلے میں عام آدمی کو دیتا ہے۔ یہ موٹر سائیکل چلاتا ہے تو پیدل چلنے والوں اور گاڑیاں چلانے والوں کے لیے خدا کا عذاب بن جاتا ہے۔ یہ ویگن بس ٹریکٹر ٹرالی اور ڈمپر چلاتا ہے تو موت کا فرشتہ بن جاتا ہے۔یہ سرکاری دفتر میں بیٹھتا ہے تو سانپ کی طرح پھنکارتا ہے اور بچھو کی طرح ڈستا ہے۔ یہ دفتر سے نماز کے لیے جاتا ہے تو واپس سیٹ پر نہیں آتا۔ آپ کسی سرکاری دفتر جائیے' بورڈ لگا ہو گا نماز کا وقفہ ہے''۔ یہ وقفہ کب ختم ہو گا؟ کسی کوکچھ معلوم نہیں۔یہ عام آدمی دکاندار کی شکل میں دو نمبر اشیا سیل کرتا ہے۔ مردار کا گوشت ، مردہ مرغی کھلاتا ہے۔ گاہکوں کو بے وقوف بناتا ہے صبح جوتے خرید کر شام کو واپس کرنے جائیں  دکاندار نہیں لے گا۔ واپس کرنا تو دور کی بات ہے' تبدیل تک نہیں کرے گا! اس کا گاہک بھی عام آدمی ہے۔ وہ دکاندار سے بھی زیادہ فریبی ہے۔ چیز اچھی خاصی استعمال کرکے واپس یا تبدیل کرنے آئے گا۔
یہ جب امریکہ جاتا ہے تو وہاں بھی یہ عام آدمی اپنی شاخت کراتا ہے۔ مہمان آئیں تو بڑے اسٹوروں سے سے نئے گدے (میٹریس) خریدتا ہے۔ مہمان چلے جائیں تو جا کر واپس کر آتا ہے۔ یہ عام آدمی امریکہ انگلستان میں' گھر سے باہر نکلے تو وِیل چیئر پر ہوتا ہے۔ گھر کے اندر ہو تو چھلانگیں لگاتا ہے۔عام آدمی صحت مند ہونے کے باوجود بھیگ مانگتا ہے۔یہ عام آدمی دو کروڑ مکان کی تعمیر پر خرچ کردیتا ہے مگر گھر کے سامنے ٹوٹی ہوئی سڑک پر بجری نہیں ڈلواتا۔ یہ عام آدمی گھر بناتا ہے تو گلی کے کچھ حصے پر باغیچہ بنا لیتا ہے۔ دکان ڈالتا ہے تو نہ صرف فٹ پاتھ بلکہ آدھی سڑک پر اپنا سامان رکھتا ہے۔ یہ عام آدمی تجاوزات کی شکل میں جو فائدہ اٹھا رہا ہے اس کا حساب لگائیے تو بڑے شرفا کی مبینہ چوری سے ہزار گنا بڑی چوری ثابت ہو گی۔یہ عام آدمی گیس کے محکمے میں ملازم ہو تو رشوت لے کر ناجائز' چوری چھپے' گیس کنکشن دیتا ہے۔ بجلی کے محکمے میں جائے تو گھر بیٹھ کر میٹر ریڈنگ کرتا ہے۔ ٹیلی فون آپریٹر لگے تو فون ہی نہیں اٹھاتا۔ آزما لیجیے۔ یہ عام آدمی ہی ہے جس نے سیاست دانوں کی عادتیں بگاڑی ہیں۔ یہ خوشی سے ان سیاست دانوں کی' ان کے بچوں کی' ان کے خاندانوں کی غلامی کرتا ہے۔ یہ ساری زندگی ان کے جلسوں میں دریاں بچھاتا ہے۔ جھنڈے اٹھاتا ہے نعرے لگاتا ہے۔ ان کی گاڑیوں کے ساتھ دوڑتا ہے۔ ان کی حمایت میں اپنے دوستوں اور رشتہ داروں سے جھگڑتا ہے یہاں تک کہ ان سے تعلقات توڑ دیتا ہے مگر اپنی اور اپنے کنبے کی حالتِ زار پر رحم کرتا ہے نہ سیاست دانوں سے اپنے حقوق مانگتا 
 غربت نسل در نسل اس کے خاندان میں راج کرے گی مگر یہ فخر سے کہتا رہے گا کہ ہم اتنی نسلوں سے اس جماعت کے ساتھ ہیں۔ان کے لئے کام کر رہے ہیں۔ یہی عام آدمی ہے جو سیاست دانوں کے کبیرہ گناہوں کا جواز تراشتا ہے اور ان کی غلطیوں پر غضبناک ہونے کے بجائے ان کا دفاع کرتا ہے۔یہ عام آدمی اپنے جیسے  لوگوں کو اذیت پہنچاتا ہے۔ یہ عام ادمی بیٹے کی شادی کرے تو لڑکی والوں سے جہیز مانگتا ہے۔ بیٹی کی شادی کرے تو اسلام کا درس دیتا  ہے۔مسجد میں نماز پڑھنا شروع کرتا ہے تو مولوی صاحب کو اپنا ملازم سمجھتا ہے۔ تجارت کرتا ہے تو فراڈ کرتا ہے۔کسی کے گھرمیں ملازم ہو تو مالک کے ساتھ مخلص نہیں۔ کسی کو اپنا ملازم رکھے تو اس کے کھانے پینے اور لباس کا خیال نہیں رکھتا۔ پیروں' فقیروں کے پیچھے بھاگتا ہے مگر گھر میں ماں باپ کی خدمت نہیں کرتا۔
یہ ہے وہ عام آدمی جو چاہتا ہے کہ عمران خان' نواز شریف' زرداری اور چودھری برادران' سب کے سب راتوں رات عمر بن عبد العزیز بن جائیں۔رات دن ان پر تنقید کرتا ہے، اسے پورا یقین ہے کہ اس ملک میں اگر کوئی راہِ راست پر ہے تو صرف وہی ہے اور باقی سب کو اصلاح کی ضرورت ہے۔ اسے یہ بھی یقین ہے کہ سیاست پر' مذہب پر' ملکی نظام پر' امریکہ پر اس کا کہا حرفِ آخر ہے۔ وہی بلند ترین اتھارٹی ہے۔ وہ بہت خلوص سے کہتا کہ اگر ملک کو اس کی تجاویز کے مطابق چلایا جائے تو دودھ اور شہد کی نہریں بہنے لگیں گی۔لیکن حقیقت یہ ہے کہ جس دن یہ عام آدمی' آدمی سے انسان بن گیا تو اہلِ سیاست سے لے کر انصاف کے ایوانوں تک' سب ٹھیک ہو جائیں گے مگربابا کرمو کو اس کے انسان بننے کی امید نہ ہونے کے برابر ہے. عام ادمی وکلا کے نماء دے بھی ہیں جو کمپیوٹر سے مرضی کے پلاٹ اپنی مرضی کے رزلٹ لیتے ہیں۔ جو وکیل نہیں انہیں بھی پلاٹ دیتے ہیں۔ اپنے ساتھی وکیل کو ہتکڑی لگوا دیتے ہیں ججوں کا ساتھ دیتے ہیں۔ پھر قانون کی بات کرتے ہیں۔اس لئے یہ ایسا کرتے ہیں کہ یہ بھی عام ادمی ہیں جھنیں  نمازیں عمرے روزے ججز کے فیصلے بھی ٹھیک نہیں کر سکتے اس لئے کہ انہیں پتہ ہے ملک میں آئین ہے قانون  کو نافذ کرنے والے اس پر خود عمل نہیں کرتے۔عام ادمی جانتا ہے کہ یہاں لیڈر بنتے نہیں بنائے جاتے ہیں۔ انہیں باہر والے اپنے ایجنڈے کے لئے  عوام پر مسلط کرتے ہیں پھر لانے والے اپنی مرضی سے ملک کو چلاتے ہیں۔جب تک سیاست دان فارن  میڈ ہو نگے تو وہ فارن والوں کی ہی بات مانیں گے انہی کے کام کریں گے ملک کو لبنان بنائیں گے۔عوام کو آنکھیں دکھائیں گے اداروں کو بد نام اور کمزور کریں گے۔ جب تک ملک میں سلیکشن سے حکمران لانا بند نہیں ہونگے عوام کو ووٹ کی طاقت سے محروم رکھیں گے عدالتوں کو انصاف دینے نہیں دیں گے یہ سیاسی فیصلے کریں گے تو یہ ملک ایسے ہی چلتا رہے گا۔ موجودہ ملکی حالات کو دیکھ کر بابا کرمو کہتا ہے فیصلے ہو چکے ہیں کہ ہوگا کیا؟ جیسے ماضی میں اداروں کے بڑے بے نقاب ہوئے اب یہ بھی بے نقاب ہو  رہے ہیں۔ملک کو لبنان جیسی صورتحال کا سامنا ہے۔ عام آدمی سے گزارش ہے کہ یہ بڑوں کی لڑائی بڑوں کے کہنے پر حالات یہاں تک پہنچ چکے ہیں تم اپنی فکر کرو اپنے اپ کو ٹھیک کرو اور دعا کرو اللہ ہمیں برے وقت سے بچائے!

ای پیپر دی نیشن