نو اپریل کیا کھویا کیا پایا

راہ حق …ضرار چوہان 
M.Zararchohan@gmail.com 


9 اپریل2022 کو عمران حکومت کو رخصت کیا گیا، کون کون اس سارے کھیل میں ملوث تھا اس بحث میں نہیں الجھتے کہ اندرونی سازش تھی یا بیرونی سازش یا اس کی حکومت چند لوگوں کی ''اناؤں'' کی بھینٹ چڑھ گئی۔ یہ سب اندر کی باتیں تھیں جو اب زبان زد عام ہیں یا شاید چند لوگوں کے مفادات اسے وابستہ تھے مگر اس سادہ لوح عوام کو جلسے جلسوں سے باور کرا دیا گیا کہ خان صاحب نے بہت مہنگائی کر دی ، قومی معیشت کو تباہ وبرباد کر دیا ہے۔غریبوں کا جینا محال ہوگیا ، عمران خان اوراس کے وزیروں نے کرپشن کی انتہا کر دی۔ ہم ان سے لوٹی ہوئی دولت واپس لیں گے اور قومی خزانہ بھر دیں گے مہنگائی کا خاتمہ  کر دیں گے عوام کی تقدیر بدل دیں گے۔
اب ایک سال گزر گیا ملک اور اس غریب عوام کا کیا حال ہوگیا؟ ملک معاشی طورپر تباہ وبرباد ہوگیا۔ مہنگائی کی شرح جو عمران دور میں بارہ فیصد تھی تین گنا بڑھ کر 36 فیصد ہوگئی لوگ روٹی کو ترس رہے ہیں اس زرعی ملک میں لوگ آٹا لینے کے لیے  جانیں گنوا رہے ہیں کیونکہ صرف روٹی کا حصول مشکل ہوگیا ہے پٹرول جو  خان دورمیں 150 روپے لیٹر تھا  اب 275 روپے سے آگے ہے حالانکہ  عالمی مارکیٹ میں اس کی قیمت پہلے سے بہت کم ہوچکی ہے۔کھانے پینے کی ضروری اشیاء￿  کی قیمتیں تین گنا بڑھ چکی ہیں لوگوں کا جینا دوبھرہوچکا ہے آج کی معیشت اور ایک سال پہلے کے معاشی حالات کا جائزہ دیکھ لیں جو حقیقت پرمبنی ہے یہ اعدادوشمار اسی حکومت نے بجٹ سے پہلے عمران  دور کے 20-21-22 کے اقتصادی سروے کی رپورٹ میں پیش کئے اسکا جواز نہ ایک سال کی موجودہ حکومت کی کارکردگی سے کرتے ہیں۔ عمران حکومت میں جی ڈی پی گروتھ 6 فیصد تک پہنچ گئی تھی جواب اس سال ورلڈ بنک کی رپورٹ کے مطابق صرف 0.4 فیصد رہے گی اس وقت ڈالر 180 روپے کا تھا اب 285 روپے تک پہنچ گیا اس وقت ایکسپورٹ پہلی دفعہ 31 ارب ڈالر تک پہنچ گئی تھی جو اب شاید 25 ارب ڈالر سے بھی کم ہو فارن ریمیٹنس 32 ارب تھی جو اب شاید 27 ارب ڈالر سے بھی کم ہو فارن ریزو 19 ارب ڈالر سے کم ہو کر صرف 9 ارب ڈالر تک آگئے ہیں۔ کاٹن انڈسٹری ایکسپورٹ انڈیا اور بنگلہ دیش سے بڑھ چکی تھی ہیوی انڈسٹری شاندار ترقی کی طرف گامزن تھی گندم 50 روپے سے بڑھ کر 105 روپے کی گئی بجلی فی یونٹ 18 روپے سے بڑھ کر 40 روپے یونٹ پر پہنچ گیا گیس تین گنا مہنگی ہوگئی پراپرٹی اور کنسٹریشن انڈسٹری جو اپنے عروج پر تھی مکمل تباہ ہوچکی ہے فارن انوسٹمنٹ تو تقریباً مکمل ختم ہوچکی ہے پھر بھی بہت سارے دانشور حضرات اور سیاسی جماعتیں عمران خان کو ہر چیز پر مواد الزام ٹھہراتی ہیں۔ 
ایک سال کے دوران عمران خان نے جلسے جلوس کیے ان کا مقصد  انتخابات جلد کرانا تھا انہوں نے  قومی اسمبلی سے استعفیٰ دئیے، لانگ مارچ کیا، پہلے لانگ مارچ میں تو  شہریوں پر شیلنگ کی گء حالانکہ یہ اپوزیشن کا جمہوری حق تھا اس پہلے مولانا فضل الرحمن' بلاول بھٹو اور مریم نواز نے بھی احتجاب اور مارچ کر چکی تھیں۔عمران خان کی حکومت نے کیا ان احتجاج پر ہلہ بولا۔ پی ٹی آئی کے دوسرے لانگ مارچ میں  خان صاحب پر قاتلانہ حملہ ہوا۔  ورنہ پاکستان بہت مشکل صورتحال سے دوچار ہوسکتا تھا۔  کیونکہ  یہ حملہ عمران خان  پر نہیں پاکستان پر تھا۔ قوم اس سے قبل  ذوالفقار علی بھٹو اور بے نظیر بھٹو جیسی بڑی  لیڈرشپ  کو گنوا بیٹھی ہے۔  ابھی تک سیاسی کارکنوں کے ساتھ ظالمانہ سلوک کیا جارہا ہے عمران خان پر تقریباً 140 مقدے درج  ہوچکے ہیں جن میں دہشتگردی ،بغاوت اور غداری کے مقدمے ہیں انسانی حقوق کی  پامالیاں کی جارہی ہیں  اس سے ہمارے ملک کا باقی دنیا میں کیا امیج جارہا ہے ؟سب کو پتہ ہے مگر پھر بھی ضد اور انائیں آڑے آرہی ہیں کہ کسی طرح عمران خان کو پکڑنا ہے اس سے سبق سکھانا ہے اس کو نااہل کرنا ہے  اگر عمران خان یا اس کے ساتھیوں نے کوئی  کرپشن کی ہے تو وہ مقدمے درج کرائیں ثبوت عدالتوں میں پیش کریں اور سزا دلوائیں، کس کو اعتراص کرنے کی گنجائش نہیں ہوگئی۔
اب وقت ہاتھ سے نکلا جارہا ہے۔ خدارا تمام ادارے اور سیاسی جماعتیں مل کر بھٹیں۔ بات چیت کریں تاکہ مسئلے کا حل نکالا جائے۔  غریب عوام جن کو دو وقت کی روٹی کے لالے پڑ ے ہیں۔ مجبور لوگ یا تو خودکشیاں کریں گے یا پھر ڈاکے ماریں گے اور پھر وہ وقت دور نہیں ہے جب لوگ اپناحق لینے کے لیے باہر نکل پڑیں گے کیونکہ کوئی آدمی  اپنے بچوں کو بھوکا مرتا نہیں دیکھ سکتا۔  یاد رکھیں پھر کچھ نہیں بچے گا، اشرافیہ کو سمجھ  کیوں نہیں آرہی کہ وقت  بہت بدل چکا ہے اور تیزی سے گزررہا ہے۔ اب بھی وقت ہے سنبھل جائو!! پھر  حساب والے دن کا ہی انتظار ہوگا یہ سوچ لیں  وہ کڑا حساب ہوگا وہاں اللہ کی عدالت میں سفارش چلے گی اور نہ دھونس دھاندلی کام آئے گی۔

ای پیپر دی نیشن