ایک مقدس وصیت کی تکمیل

زمانوں کے تغیر نے کیسے کیسے نامیوں کے نشانات کو بود سے نابود کردیا ۔ دنیا کے فٹ پاتھ سے انسانی نسلوں کے نہ جانے کتنے گروہ بے خیالی میں گزر گئے ،آج کی نسلیں ان کے کام توکیانام سے بھی آشنا نہیں۔ایسی مقدس ہستیاں بہت کم ہیں جنھوں نے جلوسِ جہاں میں اپنی یادوں کے دستخط ثبت کیے ۔وقت کے بہتے دھارے نے انسانی چہروں پر فراموشی کی دھول جما دی، لیکن چنیدہ لوگوں میں سر فہرست ایک باکمال ذات ایسی بھی ہے کہ وقت کا یہ سیلِ بے پناہ اسکے جمالِ پرانوار میں روز بہ روز اضافہ کرتا جارہا ہے۔اس کا ذکر حسب ِوعدہ بلند سے بلند تر ہورہا ہے ۔یہ ہستی جنا ب رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ہے۔دنیا کے دیگر مذاہب اور عقائدزندگی میں تصویریں اور بت بنا کر اپنے مشاہیر کو خراج تحسین پیش کرنے کی روایت موجود تھی،اسلام میں اس کی سخت ممانعت کی وجہ سے پیغمبراسلام ﷺکی خدمت میں الفاظ کا نذرانہ آپ کی تعریف وتوصیف کے ذریعے پیش کرنے کا آغاز ہوا۔ میرے خیال میں ہروہ تحریر نعت کے درجے پر فائزہے جوہمیں سرکار ہردوعالم ﷺکی ذات ِاقدس کے قریب کردے۔قدیم عرب میں شعر وسخن کی محافل عربوں کی شبینہ روز زندگی کا حصہ تھی۔شعری محفلیں جمتیں اور ذکر محبوب کے دل فریب تذکرے چھڑتے،بعثت رسول ﷺکے بعد شعرا کی موضوعہ شخصیت صرف اور صرف آپ کی ذات گرامی بن گئی۔اس زمانے میں باقاعدہ طور پر مخضرم کی اصطلاح وجودمیں آئی۔تمام شعراوادبا کے قلم سے مدحت سرکار کے چشمے پھوٹ پڑے،یہ روایت آگے چل کے دنیاکی ہرزبان کے ادب میں ایک تناور درخت کی حیثیت اختیارکرگئی:
رخ مصطفی ہے وہ آئینہ کہ اب ایسا دوسرا آئینہ
نہ کسی کی بزم خیال میں نہ دکان آئینہ سازمیں
دنیا میںایک لاکھ چوبیس ہزارنبی اورمرسل تشریف لائے،ان کی تعلیمات کی حفاظت توکیاہونی تھی ، سرکش اقوام انکے نام بھی محفوظ نہ کرسکیں لیکن آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے حیات طیبہ کا ایک ایک پہلو سیرت صادقہ کے تناظرمیں محفوظ ہے۔ہمارے ہاں سیرت کی کتابوں کی مسلسل اشاعت نے ایک عظیم الشان روایت کوجنم دیاہے۔ایک محتاط اندازے کے مطابق دنیا کی تقریباََ ہرزبان میں سیرت سرور عالم کوموضوع بنایاگیاہے۔سیرت کی منظوم ومنثور کتابوں میں ایک خاص قسم کی وضع دکھائی دیتی ہے۔ابتدائی طورپرزیادہ کتابیں عربی اورفارسی ادب سے ماخوذ ہیں۔اسی دورمیں المغازی کی روایت کاآغازبھی ہوا جس میں غزواتِ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی مفصل روداد ملتی ہے۔ اس موضوع پردنیابھرکے مسلم اور غیرمسلم سکالرز نے قلم فرسائی کی ہے۔برصغیرمیں سر سید احمد خان کی’’خطبات احمدیہ‘‘،مولانا حالی کے ’’مولود نامے‘‘ کے علاوہ ’’معراج نامے‘‘، ’’شمائل نامے‘‘، ’’نورنامے‘‘ مولانا شبلی نعمانی اور علامہ سیدسلیمان ندوی کی ’’سیرت النبی ‘‘ سے شروع ہونے والی یہ روایت آج بھی جاری وساری ہے ۔یہاں تک کہ ۱۸۵۷ء کی جنگ آزادی میں ناکامی کے بعد جب علماء کو سزاکے طورپر جزائرانڈیمان بھیجاجارہاتھا سیرت طیبہ کی لفظی عکس گری کا یہ چراغ جلتارہا۔تاریخ انسانی میںسرکار ہردوعالم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی شخصیت کو خراج تحسین پیش کرنے کیلئے جو موادرقم ہوا اتنا شایدہی کسی اور ہستی کیلئے لکھاگیاہوگا۔ایک تحقیق کے مطابق سیرت النبی کے عنوان سے تقریباََچھپن ہزار کے قریب کتابیں لکھی گئی ہیں۔ان میں رسائل، مقالات، کتابچے ،خطبات اوردیگربہت ساموادشامل ہے۔جناب رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی شخصیت کی خوشبو دنیاکے کونے کونے میں پھیل چکی ہے،آج کے کالم میں حال ہی میں شائع ہونے والی سیرت کی ایک کتاب کا تذکرہ کریں گے۔یہ کتاب ’’سیرت سرورعالم صلی اللی علیہ وآلہ وسلم ‘‘کے عنوان نے دوجلدوں میں شائع کی گئی ہے۔اس کے مصنف ماسٹرمحمدنوازہیں۔یہ گوشہ نشیں درویش پنجاب کے ایک چھوٹے سے شہر کمالیہ میں مقیم تھے۔یہ تمام عمر درس وتدریس کے شعبے سے وابستہ رہے۔ان کی دلچسپی کا میدان قرآن، حدیث،فقہ،سیرت ،تاریخ اورجدید علم الکلام ہے۔محمدنواز مرحوم نے ایک طویل زاویہ نشینی کے بعد یہ کتاب ترتیب دی ہے ۔اس کتاب کا بنیادی موضوع مکی اورمدنی زندگی کے تناظرمیں جلال وجمال رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے مختلف مراحل کی لفظی منظرکشی کے ساتھ ساتھ مستشرقین کے بعض اعتراضات کا مدلل اورمفصل دفاع کرنا بھی ہے اور مصنف نے بڑی دقت نظری کے ساتھ اس میں کامیابی حاصل کی ہے۔ محمدنوازمرحوم کی دیرینہ آرزوتھی کہ یہ کتاب ان کی زندگی میں منظرعام پرآجائے لیکن افسوس کہ ان کی زندگی میں یہ خواب شرمندہ ٔ تعبیرنہ ہوسکا،انھوں نے اپنے بیٹے کواس کتاب کی اشاعت کی وصیت کی اورچندروزبعد ان کا انتقال ہوگیا۔ ان کے صاحبزادے اقرار مصطفی نے (جو خود بھی ایک صاحب طرز شاعر ہیں)اپنے والد گرامی کی وصیت کوپورا کیا۔ہمارے ملک میں کتاب لکھنے کے بعد مصنف کو ظلم واستحصال کے ایک پل صراط سے گزرناپڑتا ہے ،ظاہرہے صاحب زادے نے بھی اس کا خوب مشاہدہ کیاہوگا۔ہمارے معاشرے میں باپ اوربیٹے کا اس نوعیت کا تعلق کتنے گھروں میں موجود ہے۔اگریہ وراثت دنیامال ومتاع پرمشتمل ہوتی توعام سی بات تھی لیکن ا س کا یہ علمی پہلو قابلِ رشک ہے۔جناب رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی سیرت طیبہ کے حوالے سے اہل یورپ کا معاندانہ رویہ رہاہے، غلط روایات کوبنیاد بناکر جعلی اعتراضات کیے گئے ہیں۔ یہ کتاب ان جعل سازیوں کا خوب محاکمہ کرتی ہے۔ اس کتاب کی اشاعت سے جہاں سیرت طیبہ کی روشن روایت میں اضافہ ہواہے وہاںمجھے اس بات یقین بھی ہے کہ سعادت مندبیٹے کی اس کاوش سے عالم بالا کے مکین خلدآشیانی محمدنوازمرحوم کے چہرے پرمسکراہٹ بھی آئی ہوگی۔یہاں ان صاحب زادے اقرار مصطفی کی باپ کے سانحہ ارتحال پر لکھی گئی ایک رثائی نظم کے دوشعر درج ہیں۔
مجھے جس کاخوف تھا عمربھروہی لمحہ آج گزرگیا
نہ میں جی سکانہ میں مرسکا مرارائیگاں یہ سفر گیا 
میں ہجوم بزم جہان میں بھی ہوں تنہاتنہاکھڑا ہوا
مراہم نشیں،مراہم سفر، مرارازدارکدھرگیا
 

   

  

ای پیپر دی نیشن