جیسے زہر جیسی زہریلی چیز کے صرف نقصانات ہی نہیں فوائد بھی ہیں، اسی طرح ہر شے کے مثبت اور منفی اثرات ہوتے ہیں۔ ایک مرتبہ پاکستان کے سیکرٹری خارجہ آغا شاہی نے کہا تھا کہ فارن پالیسی میں کوئی فیصلہ ایسا نہیں ہوتا جسکے فائدے ہی فائدے ہوں اور نقصان ایک بھی نہ ہو۔ اسی طرح بحیثیت سیاسیات کے ایک طالب علم کے کہہ سکتا ہوں کہ انتخابات بھی ایسی ہی ایک شے کا نام ہے جسکے بہت سے فوائد کے ساتھ ساتھ کچھ نقصانات بھی ہیں یا کم ازکم کسی ایک فریق کا نقصان تو دوسرے فریق کا فائدہ ضرور ہے۔ ایک اور اہم بات پیش نظر رہے کہ جمہوری پارلیمانی نظام میں انتخابات کی مدت مقرر نہیں ہوتی، انتخابات کسی بھی وقت کروائے جاسکتے ہیں جبکہ صدارتی نظام حکومت میں انتظامیہ اور مقننہ دونوں کی مدت عہدہ مقرر ہوتی ہے، نہ تو اسمبلی کو مدت سے پہلے برخاست کیا جاسکتا ہے اور نہ ہی سربراہ انتظامیہ کو مدت عہدہ کی تکمیل سے پہلے برطرف کیا جاسکتا ہے۔ پاکستان میں ہوئے عام انتخابات کی تاریخ پر نظر دوڑائیں تو معلوم ہوتا ہے کہ منفی نتائج کے حامل انتخابات کی تعداد ان انتخابات سے کہیں زیادہ ہے جن کے کچھ فوائد حاصل ہوئے۔ پاکستان کے پہلے عام انتخابات کے نتیجے میں یہ مملکت خداد دولخت ہوگئی۔انتخابات کے نتیجے کو مغربی پاکستان کے سیاست دانوں نے تسلیم نہ کیا، اور اس عظیم ملک کے دو حصے ہو گئے۔ انتخابات کے نتائج کو تسلیم نہ کرنے کی یہ روش بعد میں بھی جاری رہی۔ دوسرے عام انتخابات جو اس وقت کی حکمران سیاسی جماعت پاکستان پیپلز پارٹی نے کروائے، اپوزیشن جماعتوں نے ان انتخابات کو دھاندلی زدہ قرار دے کر مسترد کردیا، پاکستان قومی اتحاد کے نام سے اپوزیشن جماعتوں نے ایک ملک گیر احتجاجی تحریک کا آغاز کیا جس کے نتیجے میں فوج نے وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو کی حکومت کا تختہ الٹ دیا۔ غیر جماعتی بنیادوں پرہونے والے تیسرے عام انتخابات کے نتیجہ میں قائم ہونے والی وزیراعظم محمد خاں جونیجو کی کمزور حکومت کو اپنی مدت سے قبل برخاست کردیا گیا۔ اس دور میں فوجی حکمران نے 1973 کے آئین کا ایسا حلیہ بگاڑ دیا کہ اس کے بعد مسلسل چار عام انتخابات کے نتیجے میں قائم ہونے والی چار سیاسی و جمہوری حکومتوں میں سے کوئی ایک حکومت اور پارلیمنٹ بھی اپنی آئینی مدت پوری کرنے میں کامیاب نہ ہوئی۔ دو تہائی اکثریت کی حامل محمد نواز شریف کی حکومت بھی اپنی مدت پوری نہ کرسکی۔ نواز شریف وزیراعظم کے عہدے سے نہ صرف معزول ہوئے بلکہ انھیں جبری طور پر ملک بدر کردیا گیا۔ جنرل پرویز مشرف کے نو سالہ دور حکومت میں دو عام انتخابات ہوئے، پہلے عام انتخابات کے نتیجے میں فوجی آمر کے زیر سایہ ایک کٹھ پتلی حکومت قائم ہوئی اور اصل اقتدار جنرل پرویز مشرف کے اپنے ہاتھ میں رہا۔ ان کے دور میں تین وزرائے اعظم بدلے گئے۔ آئین پاکستان سے 58- 2 (B) کے خاتمے کے بعد ، تین منتخب پارلیمان نے اپنی آئینی مدت تو ضرور پوری کی مگر کوئی ایک وزیراعظم یا اس کی حکومت ایسی نہیں جس نے اپنی آئینی مدت پوری کی ہو۔ وزیراعظم یوسف رضا گیلانی اور نوازشریف دونوں کو عدالت عظمیٰ نے نہ صرف ان کے عہدہ سے معزول کیا بلکہ بالترتیب ایک وزیراعظم کو پانچ سال کی مدت اور دوسرے کو تاحیات سیاست سے نااہل بھی قرار دیا گیا۔
2018ء کے انتخابات کے نتیجے میں قائم ہونے والی حکومت کو اپوزیشن نے سلیکٹیڈ کہا اور ان انتخابات کے نتائج تسلیم نہیں کیا۔ ان انتخابات میں قائم ہونے والی پاکستان تحریک انصاف کی حکومت نے اپنے چار سالہ دور حکومت میں عوام کو سبز باغ دکھانے کے سوا ایک دھیلے کا کام نہیں کیا، معاشی بدحالی کو اس سطح تک پہنچا دیا کہ ملک دیوالیہ ہونے کو ہے۔ موجودہ حکومت کی ایک سالہ انتھک محنت کے باوجود ملک شدید معاشی بحران کا شکار ہے مگر دلچسپ بات یہ ہے کہ اپنے گزشتہ چار سالہ دور حکومت میں ملک کو اس حالت تک پہنچانے والے ، پھر زوروشور سے یہ مطالبہ کررہے ہیں کہ نئے انتخابات کرواکر انھیں دوبارہ حکومت کرنے کا موقع دیا جائے۔ اس سے بھی زیادہ دلچسپ بات یہ ہے کہ عمران خان بے نظیر بھٹو سے بھی دو قدم آگے چلے گئے ہیں، ایک مرتبہ بے نظیر بھٹو نے انتخابات سے قبل اپنے بیان میں کہا تھا کہ صرف ایسے انتخابات صاف، شفاف اور منصفانہ ہوں گے جن میں ان کی جماعت کامیاب ہو۔ عمران خان کا کہنا ہے کہ وہ انتخابات کے نتائج تب تسلیم کریں گے، اگر انھیں دو تہائی اکثریت ملی۔
عمران خان کی طرف سے الیکشن کے مطالبے کے پیچھے کوئی آئینی یا قانونی توجیہہ سے قطع نظر، مصلحت کوشی اور مستقبل کی حکمت عملی کا زیادہ عمل دخل ہے۔ وہ آئین اور قانون کے پیچھے چھپ کر اپنی اس خواہش کو نہیں چھپا سکتے کہ فوری انتخابات انھیں دوبار مسند اقتدار پر فائز کرسکتے ہیں۔ وہ جانتے ہیں کہ وہ اپنی سیاسی مقبولیت کے عروج پر ہیں۔ وہ اپنی اس مقبولیت کی وجہ بھی جانتے ہیں کہ یہ کوئی ان کا کارنامہ نہیں بلکہ ملک میں روزافزوں مہنگائی نے موجودہ حکومت کے خلاف شدید نفرت پیدا کردی ہے۔ ان کے اپنے جھوٹے سچے سیاسی بیانیے نے بھی پی ڈی ایم کی حکومت کو مشکل میں ڈال دیا ہے۔ یہ بات موجودہ حکومت بھی سمجھتی ہے کہ اب انتخابات میں جانا خودکشی کے مترادف ہے۔ عمران خان چاہتے ہیں کہ انتخابات کے اس پھندے کو حکومت چوم کر تختہ دار پر چڑھ جائے اور عمران خان مسند اقتدار پر۔ عمران خان کے سازشی بیانیے کی طرح انتخابات کے مطالبے میں بھی شرارت اور سازش کی بو سونگھی جاسکتی ہے۔ کوئی دوسرا سونگھے نہ سونگھے، حکومت نے یہ بو سونگھ لی ہے۔