رمضان المبارک کی آمد کے ساتھ ہی وفاقی حکومت نے بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام کے تحت غریبوں میں مفت آٹا تقسیم کی منصوبے کا آغاز کیا اور اس سلسلے میں صوبوں سے کہا گیا کہ وہ اس منصوبے پر عمل درآمد کو یقینی بنائیں۔ مفت آٹے کی فراہمی کے دوران ایسے کئی واقعات پیش آئے جن میں لوگوں کو جان سے ہاتھ دھونا پڑے۔ یہ واقعات بہت ہی افسوس ناک اور تکلیف دہ ہیں۔ اب لاہور کے قریب فیروزوالہ کے علاقے رچنا ٹاؤن میں مزید دلخراش واقعہ پیش آیا ہے جس میں زکوٰۃ کی رقم کی تقسیم کے دوران خواتین کی بھگدڑ سے 3 ماہ کی بچی زمین پر گر گئی اور رش زیادہ ہونے کی وجہ سے بچی کچلے جانے سے جاں بحق ہوگئی۔ زکوٰۃ کی تقسیم کا یہ سلسلہ رچنا ٹاؤن کے ایک رہائشی کی طرف سے کیا جارہا ہے۔ ایسے مواقع پر رش بڑھ جانا اور لوگوں کا بدنظمی کرنا ایک عام بات ہے۔ ایسے اذیت ناک واقعات کی روک تھام کے لیے حکومت کو چاہیے کہ نہ تو اپنے زیر انتظام ضروری اشیاء کی تقسیم کے لیے لوگوں کا ہجوم اکٹھا کرے اور نہ ہی کسی عام آدمی کو اس بات کی اجازت دی جائے کہ وہ بیسیوں یا سینکڑوں افراد کو اکٹھا کر کے ان میں رقم یا اشیاء کی تقسیم کا سلسلہ شروع کردے۔ حکومت کے پاس تو ویسے ہی بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام کے مستحقین کی فہرستیں موجود ہیں، لہٰذا ان کے گھروں میں بھی اشیاء پہنچانے کا انتظام ہوسکتا ہے یا ایک ترتیب کے مطابق لوگوں کو بلا کر اشیاء دی جاسکتی ہیں۔ اس سلسلے میں ایک قابلِ عمل منصوبہ بنانے کی ضرورت ہے تاکہ مزید جانی نقصان نہ ہو اور نہ ہی مستحق افراد کو اشیائے ضروریہ کے حصول کے لیے خواری کا سامنا کرنا پڑے۔