دنیائے شعر و ادب میں ایسی مثالیں موجود ہیں کہ کئی شعراء کا ایک ایک شعر شہرت دوام حاصل کر گیا حتیٰ کہ لوگ شاعر کو بھی بھول گئے لیکن شعر زندہ رہا۔ مثال کے طور پر سید صادق حسین کاظمی کا شعر :
تندی ِ بادِ مخالف سے نہ گھبرا اے عقاب
یہ تو چلتی ہے تجھے اونچا اڑانے کے لیے
یا بھرتری ہری کا صرف ایک مصرعہ :
پھول کی پتی سے کٹ سکتا ہے ہیرے کا جگر
ہمارے عہد میں شعیب بن عزیز کا شعر:
اب اداس پھرتے ہو سردیوں کی شاموں میں
اس طرح تو ہوتا ہے اس طرح کے کاموں میں
یا خالد شریف کا یہ شعر:
بچھڑا کچھ اس ادا سے کے رُت ہی بدل گئی
اک شخص سارے شہر کو ویران کرگیا
اسی طرح بہت سارے ایسے شعراء جن کی چند گنی چنی پانچ دس غزلیں عوام یا خواص میں مقبول ہوئیں، چرچا بھی بہت رہا اور پھر معدوم بھی ہوگئیں۔ دوسری طرف کچھ شعراء نے شاعری کے انبار لگادیے لیکن لیکن ایک شعر بھی سفر نہ کرسکا۔ اگر اس کا معمے کا تجزیہ کیا جائے تو اس سارے معاملے میں ایک سے زیادہ عوامل سامنے آتے ہیں۔ پہلا یہ کہ جس شاعر نے جتنے خلوص اور شوق سے خود کو شاعری کے حوالے کیا۔ کائنات ِ شعر نے اسے کتنی گنجائش مہیاکی۔ تیسرا یہ کہ اسے خارجی سطح پہ کس طرح کے حالات ، ماحول ، صحبت اور عہد میسر آیا ۔ اس کے بالکل برعکس یہ بھی دیکھنے میں آیا ہے کہ ایک عہد میں کسی شاعر کو عام و خاص میں مقبولیت بھی ملی لیکن گردِ زمانہ نے آہستہ آہستہ ان کے نقوش دھندلا دیے۔ اس ضمن میں قتیل شفائی کی مثال دی جاسکتی ہے۔ مجھے لگتا ہے ان کو یاد رکھنے والی نسل اب ہماری رہ گئی ہے، ہمارے بعد قتیل شفائی کا نہ کوئی گیت رہے گا نہ شاعری۔ شاید ایک آدھ شعر رہ جائے :
دنیا میں قتیل اس سا منافق نہیں کوئی
جو ظلم تو سہتا ہے بغاوت نہیں کرتا
ایک کیٹیگری ایسی بھی ہے جسے صرف تعلیمی کورسز ، ناقدین ادب کی کتب ، ریاستی ضرورت اور سرمایہ دارانہ ایجنڈوں کی جزوقتی منفعت کے وینٹی لیٹرز پہ رکھ کے ان کی نہیں بلکہ اپنی اپنی دکان چلائی جاتی ہے اور زندہ و جاوید شاعر کہا جاتا ہے۔ اس تمام فطری اور غیرفطری ٹکراؤ میں اسد اللہ خاں غالب ، علامہ اقبال ، شکیب جلالی اور منیر نیازی جیسے شعراء اور ان کے قبیلے کے معدودے تخلیق کار ہی رہ جاتے ہیں جو ایک طرف تو کائنات ِ شعر میں نہ صرف نئے جہان اور نئی بستیاں آباد کرجاتے ہیں بلکہ فطرت مخالف قوتوں کی ضرورت بن کر حیات دوام بھی پا جاتے ہیں۔
یہ ساری تمہید باندھنے کا مقصد شعر اور شاعر کی زندگی کا ایک سرسری خارجی جائزہ لینا تھا درپردہ اس سے کہیں زیادہ چل رہا ہوتا ہے جس کا عوام تو کیا خواص تک کو پتا نہیں ہوتا۔ پہلے کبھی زندہ قوم اور مردہ قوم کا تصور زیر بحث لایا جاتا تھا کہ جس کے بارے میں کم و بیش ہم سب جانتے ہیں لیکن مفلوج قوم بلکہ اقوام کے تصور کو سامنے لانے سے روکا جا رہا ہے اور پوری کوشش کی جا رہی ہے کہ اس طرف کسی کا دھیان نہ ہی پڑے تو اچھا ہے۔
پہلے زندہ قوم وہی کہلاتی تھی جو علم و ادب ، فلسفہ و فکر ، سائنس ، سماجیات ، معیشت ، کلچر اور فنون حرب و ضرب میں ترقی کے زینے تعمیر کرتی قدم قدم بلند ہوتی نظر آتی تھی جبکہ مردہ قوم ان تمام شعبہ ہائے حیات میں تنزل کی منازل طے کرتی دکھائی دیتی تھی لیکن اب تیسری صورتحال اگرچہ ابھی غیر واضح اور بعید ازقیاس رکھی جا رہی ہے لیکن یہ حالت مرگ کی شکار قوم سے زیادہ اندوہناک اور بھیانک ہے۔ مردہ قوم کے تباہ ہوکر اصول فطرت کے باعث دوبارہ پرانی یا تبدیل شدہ شکل میں پھر سے زندہ ہونے کی مثالیں تاریخ میں ملتی ہیں لیکن مفلوج اقوام کا پھرسے اٹھ کر چلتے پھرتے نظر آنا مایوس کن حدتک ناممکن نظر آتا ہے۔ صاحبان شعور جانتے ہیں کہ عہد حاضر کو اگر سرمایہ دارانہ نظام کی ہولناکی کا عروج قرار دیا جائے تو بے جا نہ ہوگا۔ اس وقت کیا نہیں جو کمپیوٹر کے پیچھے رکھے ڈیٹا بیس اور سرورز کے بٹنوں کی گرفت میں نہیں آچکا۔ بینک ، ہسپتال ، لائبریریاں ، بارشیں ، سمندری طوفان ، وائریس ، سیٹیلائٹس حتیٰ کہ شناختی کارڈز تک فلتھی سرمایہ دار کارپوریٹس کی انگلیوں کے اشاروں پر ناچنے کی حد تک مجبور ہوچکا ہے۔
ایسے میں سب سے بڑے کرائسزکا شکار وہ انتہائی محدود طبقہ ہے جو اس ساری صورتحال کو بھانپ چکا ہے اور اس کے خطرات و مضمرات سے بخوبی آگاہ بھی لیکن خود کو ایک عام آدمی سے زیادہ بے بس محسوس کرتا ہے کہ نہ اس کی آواز بلند ہونے دی جاتی ہے نہ کسی کو سمجھ آ جاتی ہے۔ یہ چند سچے مفکرین ، خالص فلسفی اور سچے شاعر ادیب اپنے ہی طبقے کے جاہل ، نالائق اور مفاد پرست مصنوعی مگر طاقتور ادبی و فکری گرہوں کے تسلط کو ہی توڑ پانے میں ناکام ہیں تو آنے والی نسل کے باشعور نوجوانوں تک اپنا پیغام کیسے پہنچا پائیں گے۔ میں جب لاہور میں دیکھتا ہوں تو مجھے ڈاکٹر سعادت سعید ، شفیق احمد خان ، علی نوازشاہ ، عابد حسین عابد اور فرحت عباس شاہ کے علاوہ چھٹا رائٹر ڈھونڈنا پڑتا ہے جس کے اندر یہ تڑپ موجود ہو کہ دنیا بھر کے انسانوں کو مفلوج بنا کے رکھ دینے والا والا ایجنڈا اپنی تکمیل کے آخری مراحل میں ہے۔
٭…٭…٭