آرمی چیف کا اگلے مورچوں کا دورہ اور نوشکی میں ٹارگٹ کلنگ کی گھنائونی واردات

بلوچستان میں نوشکی قومی شاہراہ پر ایک مسافر بس کو اغواء کرکے اس کے  9 مسافروں کو گن پوائینٹ پر اتار لیا گیا اور بے دریغ فائرنگ کرکے انہیں قتل کر دیا گیا۔ اس لرزہ خیز واردات کا نشانہ بننے والے آٹھ مقتولین سرکاری اہلکار بتائے جاتے ہیں جبکہ نوشکی میں ہی ایک اور بس پر بھی فائرنگ کی گئی جس کے نتیجہ میں دو مسافر جاں بحق اور تین زخمی ہو گئے۔ یہ دونوں وارداتیں عیدالفطر کے تیسرے روز یکے بعد دیگرے ہوئیں۔ ان وارداتوں میں ملوث ملزمان کے بارے میں ابھی تک ٹھوس معلوم حاصل نہیں ہو سکیں تاہم وقوعہ کے بعد سکیورٹی فورسز نے ملزمان کی گرفتاری کیلئے علاقے میں سرچ اپریشن کا آغاز کر دیا ہے۔ ایک نجی ٹی وی کی رپورٹ کے مطابق جن آٹھ مسافروں کو بس سے اتار کر گولیاں ماری گئیں‘ انکی لاشیں قریبی پہاڑی سے ملحقہ پل کے نیچے سے ملی ہیں۔ تمام لاشیں نوشکی ٹیچنگ ہسپتال منتقل کر دی گئی ہیں۔ ہسپتال کے ذرائع کا کہنا ہے کہ مقتولین کے جسموں کے مختلف حصوں پر گولیاں لگی ہیں۔ سرچ اپریشن کے دوران کسی اغواء کار کی گرفتاری یا اس کے مارے جانے کی کوئی اطلاع موصول نہیں ہوئی جبکہ فائرنگ سے جاں بحق ہونے والے آٹھ افراد کے بارے میں بھی ابھی تک حتمی طور پر معلوم نہیں ہو سکا کہ وہ کس سرکاری ادارے کے ملازم تھے۔ 
دہشت گردی کے دوسرے واقعہ میں ایک مسافر بس پر بے دریغ فائرنگ کی گئی اور اس واردات میں جاں بحق ہونیوالے ایک شخص کی لاش اور چاروں زخمیوں کو دہشت گرد اٹھا کر کسی نامعلوم مقام کی جانب لے  گئے۔ جاں بحق ہونیوالا شخص نوشکی کا ایک ایم پی اے بتایا جاتا ہے جو علاقے کی بااثر شخصیت غلام دستگیر بادینی کا رشتہ دار تھا جبکہ واردات میں زخمی ہونیوالے افراد بھی  اسکے عزیز بتائے جا رہے ہیں تاہم انکی شناخت کے بارے میں مزید اپ ڈیٹس آنا ابھی باقی ہیں۔ 
نوشکی میں یکے بعد دیگرے ٹارگٹ کلنگ اور دہشت گردی کے یہ واقعات عین اس وقت رونما ہوئے جب آرمی چیف جنرل سید عاصم منیر سکیورٹی اداروں میں اگلے مورچوں پر جا کر دہشت گردی کیخلاف جنگ میں جوانوں کے حوصلے بڑھا رہے ہیں اور وطن عزیز کو دہشت گردی کے ناسور سے مستقل طور پر خلاصی دلانے کے عزم کا اعادہ کر رہے ہیں جبکہ بالخصوص سکیورٹی اہلکار سفاک دہشت گردوں کے نشانے پر ہیں۔ نوشکی پل کے قریب مسافر بس کو اغواء کرنے کے بعد اسکے آٹھ مسافروں کو باقاعدہ شناخت کرکے بس سے اتارنا اور پھر انہیں بے دریغ فائرنگ کے ذریعے سفاکانہ انداز میں قتل کرنا بادی النظر میں سکیورٹی اداروں کو دہشت گردی کا نشانہ بنانے کے سلسلے کی ہی کڑی نظر آتی ہے کیونکہ بس سے اتار کر قتل کئے گئے ان تمام افراد کے سرکاری ملازم ہونے کی تصدیق ہوئی ہے۔ اگرچہ ابھی تک حتمی طور پر اسکی تصدیق نہیں ہو سکی کہ مقتول کس سرکاری ادارے کے ملازم تھے تاہم ایک بڑی تعداد میں انکے اکٹھے سفر کرنے سے ان کا کسی سکیورٹی ادارے سے تعلق ہونے کا ہی عندیہ ملتا ہے جبکہ اس بارے میں بھی کسی شک و شبہ کی گنجائش نہیں کہ مقتولین کی نقل و حرکت کی نگرانی کرتے ہوئے انکے بس میں سوار ہونے کے وقت سے ہی مخصوص ایجنڈے کے حامل دہشت گردوں نے ان کا پیچھا کیا اور موقع ملتے ہی بس کو روک کر انہیں اغواء کرکے لے جایا گیا اور دہشت گردی کی بھینٹ چڑھایا گیا۔ ان وارداتوں کے حوالے سے اصل حقائق تو تفتیشی اداروں کی رپورٹوں کے ذریعے ہی منظرعام پر آسکیں گے تاہم ان واقعات کے تناظر میں مخصوص ایجنڈے کے تحت ہونیوالی دہشت گردی کے ساتھ ہی ان واقعات کی کڑیاں ملتی نظر آتی ہیں جن کے پیچھے بھارت اور اسکی سرپرستی میں کالعدم تحریک طالبان پاکستان کے ہاتھ  کارفرما ہیں۔ دہشت گردی کی ایسی وارداتوں کا مقصد پاکستان کی سلامتی اور اسکی معیشت کو کمزور کرنا ہے جو خالصتاً ہمارے ازلی دشمن بھارت کا ایجنڈا ہے جبکہ اسے پاکستان میں دہشت گردی کیلئے افغان سرزمین پر دہشت گردوں کو باقاعدہ تربیت دیکر پاکستان میں داخل کرنے کی سہولت کابل انتظامیہ کی جانب سے حاصل ہو چکی ہے۔ 
بے شک گزشتہ ادوار میں بھی  بالخصوص بلوچستان ٹارگٹ کلنگ کا مرکز بنا رہا اور ٹارگٹ کلنگ کی ان وارداتوں کو فرقہ وارانہ تعصبات اور قوم پرستی کے کھاتے میں ڈال کر اس دہشت گردی کے اصل مقاصد چھپانیکی کوشش کی جاتی رہی۔ یہ ناقابلِ تردید حقیقت ہے کہ بی ایل اے اور بی ایل ایف جیسی قوم پرست عسکری تنظیمیں بھی بالخصوص پنجابی آباد کاروں کی ٹارگٹ کلنگ میں ملوث رہی ہیں۔ اسی طرح ہزارہ برادری کو فرقہ واریت کی بنیاد پر دہشت گردی کی بھینٹ چڑھایا جاتا رہا تاہم ان وارداتوں کا اصل مقصد پاکستان کی سلامتی پر اوچھا وار کرنا ہی ٹھوس شواہد کے ساتھ ثابت ہوتا رہا ہے۔ ایسی وارداتوں کے ذریعے ملک میں انتشار‘ بدامنی اور غیریقینی کی فضا پیدا کرکے پاکستان کی سلامتی کمزور کرنے کے مقاصد پورے کرنے کی کوشش کی جاتی رہی ہے۔ 
آج بھی ملک میں ایک مخصوص جماعت ملک میں عدم استحکام پیدا کرنے کی مختلف سازشوں میں مصروف ہے جبکہ اس جماعت کے ساتھ دوسری اپوزیشن جماعتیں اتحاد کرکے حکومت اور ریاستی اداروں کیخلاف جارحانہ تحریک کا آغاز کر چکی ہیں۔ اس تحریک کے آغاز ہی میں نوشکی میں ٹارگٹ کلنگ کی واردات کا شروع ہونا‘ جن میں بالخصوص سکیورٹی اہلکاروں کو نشانہ بنایا جارہا ہے‘ پاکستان کی سلامتی کیخلاف دشمن کے ایجنڈے کا حصہ ہی نظر آتا ہے۔ 
آرمی چیف جنرل سید عاصم منیر نے عیدالفطر کا روز شمالی وزیرستان میں اگلے مورچوں پر جا کر جوانوں کے ساتھ گزارا اور ان سے خطاب کرتے ہوئے باور کرایا کہ بھاری قربانیوں کے ذریعے حاصل کیا گیا امن برقرار رکھنا سب کی ذمہ داری ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ شہداء کی بے مثال قربانیوں کی بدولت ہی ضم شدہ اضلاع اور خیبر پی کے میں سماجی‘ اقتصادی ترقی کیلئے محفوظ ماحول فراہم ہوا ہے۔ انہوں نے اس موقع پر پاکستان کے پائیدار امن و استحکام اور خوشحالی کیلئے خصوصی دعائیں بھی کرائیں جبکہ عیدالفطر کے دو روز بعد دہشت گردوں نے نوشکی بلوچستان میں ٹارگٹ کلنگ کی وارداتوں کے ذریعے ملک کے امن و سلامتی کیلئے جاری کوششوں کو سبوتاژ کرنے کی کوشش کی۔ اس تناظر میں ہمیں ان اسباب و محرکات کا بہرصورت جائزہ لینا ہوگا جو سکیورٹی کے فول پروف انتظامات کے باوجود دہشت گردوں کو کھل کھیلنے کا موقع فراہم کر دیتے ہیں۔ بے شک امن و سلامتی کیلئے ہر ریاستی ادارے کو اپنی ذمہ داریاں نبھانی ہیں۔ یہ ذمہ داریاں باہمی تال میل کے ساتھ انجام پائیں تو کسی بھی اندرونی اور بیرونی دشمن کو ہمارے سکیورٹی سسٹم میں نقب لگانے کی جرأت نہیں ہو سکے گی۔

ای پیپر دی نیشن