اسلام آباد (این این آئی)برطانوی ہائی کمیشن کے حکام نے میڈیا رپورٹس کی تردید کی ہے جس میں دعویٰ کیا گیا تھا کہ برطانوی حکومت نے پاکستان کو سفر کے لیے انتہائی خطرناک ممالک کی فہرست میں شامل کیا ہے۔میڈیارپورٹ کے مطابق حال ہی میں برطانیہ کے فارن اینڈ کامن ویلتھ ڈیولپمنٹ آفس نے اسرائیل اور غزہ سمیت 8 ممالک کو برطانیہ کے شہریوں کے لیے انتہائی خطرناک سمجھے جانے والے مقامات کی فہرست میں شامل کیا تھا۔فہرست جاری ہونے کے بعد بھارتی اور برطانیہ کے مقامی میڈیا رپورٹس نے دعویٰ کیا تھا برطانوی حکومت کی ایڈوائزری کے مطابق پاکستان بھی سفر کے لیے انتہائی خطرناک ممالک کی فہرست میں موجود ہے تاہم حکام نے بتایا کہ برطانیہ کی حکومت کی ویب سائٹ کے مطابق پاکستان کی ٹریول ایڈوائزری کی حیثیت میں کوئی تبدیلی نہیں ہوئی جسے آخری بار 24 جنوری کو اپڈیٹ کیا گیا تھا۔متعدد رپورٹس میں بلیک لسٹ اور ریڈ لسٹ کا حوالہ دیا گیا ہے جس میں دعویٰ کیا گیا کہ پاکستان کو ریڈ لسٹ میں شامل کیا گیا تھا لیکن حکام نے واضح کیا کہ کوئی بلیک یا ریڈ لسٹ نہیں ہے اور ہر ملک کی اپنی ٹریول ایڈوائز ہے۔برطانیہ کا فارن اینڈ کامن ویلتھ ڈیولپمنٹ آفس بھارت اور پاکستان دونوں کے لیے ٹریول ایڈوائزری جاری کرتا ہے۔پاکستان کے لیے ایڈوائزری میں کہا گیا ہے کہ پاک افغانستان سرحد اور بھارت اور پاکستان کے درمیان تقسیم کرنے والی لائن آف کنٹرول کے 10 میل کے دائرے میں واقع علاقوں میں سفر نہ کرنے کی ہدایات جاری کی گئی ہیں، یہ ایڈوائزری ممکنہ طور پر سیکیورٹی خدشات یا خطے سے وابستہ تنازعات کی وجہ سے ہے۔یہی ایڈوائزری بھارت کے لیے بھی ہے، برطانیہ کے شہریوں کو خبردار کیا گیا ہے کہ وہ منی پور اور مقبوضہ کشمیر کے بعض حصوں کا سفر نہ کریں۔پاکستان کے لیے ایڈوائزری میں خیبرپختونخوا اور بلوچستان کے علاقوں کا سفر کرنے سے خبردار کیا گیا ہے، جن میں باجوڑ، بنوں، بونیر، چارسدہ، ڈیرہ اسماعیل خان، خیبر، کوہاٹ، کرم، لکی مروت، لوئر دیر، مہمند، اورکزئی، پشاور، سوات، ٹانک، شمالی وزیرستان، جنوبی وزیرستان، اور گوادر شامل ہیں۔برطانیہ کے شہریوں کے لیے سفر کے لیے انتہائی خطرناک سمجھے جانے والے 8 ممالک میں یوکرین، ایران، سوڈان، لبنان، اسرائیل، بیلاروس اور فلسطینی علاقے شامل ہیں۔اس فہرست میں افغانستان، شام اور یمن پہلے ہی شامل ہیں جنہیں پہلے ہی سب سے زیادہ خطرناک ممالک کے طور پر شامل کیا گیا تھا۔کئی علاقوں میں تنازعات اور تنائو بڑھنے کے ساتھ فارن اینڈ کامن ویلتھ ڈیولپمنٹ آفس نے برطانوی شہریوں پر زور دیا ہے کہ وہ اپنی حفاظت کے لیے ان مقامات پر غیر ضروری سفر سے گریز کریں۔