زنگ آلود ذہنیت، دیمک زدہ اعمال اور مُردہ ضمیر!!!

Apr 14, 2024

ڈاکٹر عارفہ صبح خان

ڈاکٹر عارفہ صبح خان 

تجا ہل عارفانہ

میں ایک مزاح نگار بھی ہوں۔ خوش مزاجی میرا وصف ہے۔ رجائیت پسندی میری فطرت میں ہے مگر آج بہت مجبور ہو کر میں جو پینڈورا بکس کُھول رہی ہوں۔ سوچیں کہ مایوسی کی انتہاﺅں پر آ کر مجھے یہ سب باتیں کرنی پڑ رہی ہیں۔ ہمارے ہاں آج کل پورے شدو مد سے یہ بحث چل رہی ہے کہ عوام کرپٹ ہے۔ عوام منافق ہے۔ عوام چور ہے۔ عوام گمراہ ہے۔ عوام کا اخلاق گِرا ہو ا ہے۔ عوام کام چور ہے۔ عوام بد تہزیب ہے۔ عوام ایک ہجوم اور ریوڑ ہے۔ دیکھا جائے تو یہ ساری باتیں پاکستانی عوام پر من و عن پوری اُترتی ہیں مگر میں آپ سے ایک بات پو چھتی ہوں کہ کیا آپ نے کسی نومولود بچے کو دیکھا ہے ۔ یہ بچہ امیر ہو یا غریب، گورا ہو یا کالا، لڑکا ہو یا لڑکی۔۔۔۔بچے کے چہرے پر بَلا کی معصومیت ہو تی ہے۔ ایک دلٓاویز مسکراہٹ اور سادگی ہو تی ہے۔ یہی بچہ جب بیس تیس یا چا لیس سال کا ہوتا ہے تو اس معصوم بچے کا چہرہ ایک کھڑوس، مکار، چا لباز، منافق آدمی میں بدل جاتا ہے کیونکہ زندگی کے تلخ تجر بات، زہر آلود مشاہدے اور کڑوی کسیلی باتیں اُس بچے کے اندر تلیخیاں، چا لاکیاں اور منافقتیں بھر دیتی ہیں۔ حالات واقعات کے مطابق ہی شخصیت کی تعمیر ہو تی ہے۔ تعلیم و تربیت، ماحول، مشا ہدات تجر بات، امارت غربت اور زندگی میں پیش آنےوالے وا قعات اور حادثات شخصیت بناتے ہیں۔ بد قسمتی سے پاکستان میں حالات ہمیشہ مخد وش اورتندو تلخ رہے ہیں۔ جب ضروریاتِ زندگی باوجود محنت و کوشش کے پو ری نہےں ہوتیں۔ تین وقت کی روٹی کے لالے پڑے رہتے ہیں اور روزگار میسر نہ ہو۔ عیش و عشرت تو دُور، معمولی ضروریات کے لئے بھی حالات منہ چڑا رہے ہوں تو انسان خوا ہشات کو دباتے دباتے باغی ہو جاتا ہے۔ صبر کی بھی ایک حد ہو تی ہے۔ پوری زندگی آدمی کسمپرسی اور کرب یا عذاب میں نہیں گزار سکتا۔ پو ری زندگی اگر جبرِ مسلسل بن جائے تو کو ئی بھی نرم خو، نیکدل اور مہربان انسان بھی سیخ پا ہو جاتا ہے اور وہ عملی زندگی میں خطرناک قدم اٹھا لیتا ہے کیونکہ یہ فطرت انسانی ہے کہ تنگ آمد بجنگ آمد۔ اس لیے مشا ہیر کا یہ اقوال اب اٹھا کر طا قِ نسیاں کر دیں کہ جیسی عوام ہو گی ویسے حکمران ہونگے۔ عوام کا تو کروڑوں کا ریلا ہے مگر حکمران طبقہ ہر دہائی میں وہُی مخصوص ٹو لہ ہو تا ہے۔ اشرافیہ کے نام پر کچھ خاندان 76 سالوںسے عوام کا خون چُوس رہے ہیں۔ دنیا کی ہر عیاشی انھیں روا ہے۔ جہازوں، طیاروں، ہیلی کاپڑوں، لیموزین اور مرسڈیز میں سفر کرنا عبادت سمجھتے ہیں۔ عوام بھوک پیاس سے مر رہی ہے۔ بیماریوں سے ہلاکتیں ہو رہی ہیں۔ روزانہ نالائقیوں کی وجہ سے خونی حا دثات ہو تے ہےںجنکی تعداد سینکڑوں میں  ہے ۔ روزانہ تقر یباّ چار سو افراد مختلف حا دثات بشمول ٹریفک حا دثات کا شکار ہو تے ہیں اور جو حا دثات میں بچ جاتے ہیں۔ وہ زندگی بھر اپا ہج اور معزور رہتے ہیں۔ سیلاب زلزلے، آگ لگنے، چھت گرنے، کشتیوں میں ڈوبنے، ڈوروں سے گلے کٹنے، بم بلاسٹ ہونے، اندھی گولیاں لگنے، مزاحمت کرنے، زہر کھانے، وغیرہ سے سینکڑوں افراد مر جاتے ہیں۔ غلط علاج ہونے، بر وقت طبی امداد نہ ملنے والوں کی تعداد بھی سینکڑوں میں ہے۔ خودکشی کرنے والوں کی تعداد درجنوں میں ہے۔ یہ روزانہ کی بنیا د پرمرنے والے ہیں۔ لوگ معاشی، معاشرتی ، نفسیاتی حالات سے عاجز اور نالاں ہیں جب کوئی تدبیر نہیں ہوتی تو لوگ خودکشی کر لیتے ہیں۔ خودکشی کرنے والے بزدل نہیں ہو تے، انتہا درجے کے بہادر اور با ہمت ہوتے ہیں۔ خودکشی بہت مشکل فعل ہے لیکن لوگ اتنے مایوس ہو جاتے ہیں کہ اس سے بھی گزر جاتے ہیں۔ کسی حکمران وزیر مشیر کو کسی کے مرنے پر کوئی فرق نہیں پڑتا۔ پاکستان پر حکومت کر نے والے چند مخصوص خاندانوں کا وطیرہ ہے کہ وہ جھوٹ در جھوٹ بولتے ہیں۔ عوام کو ریوڑ یعنی بیےڑ بکریاں سمجھتے ہیں۔ اشرافیہ کے اس ٹولے نے پاکستان جیسے وسائل سے ذرخیز ، ہنستے بستے، خوشحال اور ہر طرح کی دولت سے مالا مال ملک کو نوچ نوچ کر اتنا کھایا ہے کہ پاکستان کو اُجاڑ کر رکھ دیا ہے۔ عوام کے گرد مسائل اور مصا ئب کا ایسا شکنجہ کسا ہے کہ وہ ٹو ٹے ہوئے زخمی پروں کے ساتھ پھڑ پھڑا رہے ہیں۔ پوری قوم کو روٹی آٹے چینی سبزی دال، گیس پانی بجلی پٹرول کے پیچھے لگا دیا ہے۔ باقی وقت پو ری قوم بےوقوفوںکی طرح قطا روں میں لگ کر بلوں کی ادائیگیاں کرتی ہے۔ حد تو یہ ہے کہ آٹا لینے کے لیے بھی قوم کو قطاروں میں لگناپڑتا ہے۔ گزشتہ تیس چا لیس سالوں سے جن لوگوں نے جان مار کر ڈگریاں حا صل کیں۔ وہ بچارے ٹیکسیاں چلا رہے ہیں۔ کلرکیاں کررہے ہیں یا ٹیوشن پڑھا رہے ہیں۔ اس ملک میں صر ف کاروباری طبقہ عیش کر رہا ہے۔ چا ہے وہ نائی ہو قصائی ہو یا نانبائی ہو۔ کپڑے بچنے والا ہو، درزی ہو، دوکاندار ہو، پھل فروش ہو یا سبزی فروش ہو۔ سب مزے لیےر ہیں۔ دُودھ دہی والے کو دیکھیں، کیمیکل کافور سرف اور خدا جانے کیا کچھ ڈال کر بیچ رہا ہے۔ اُسکے لیے پاکستان ہی دبئی ہے۔ برا ئلر مرغیاں یا عام چھوٹے بڑے کا گوشت مُردہ بیمار جانوروں کا بیچ دیا جاتا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ اکژ اوقات یہ گوشت بکرے دُنبے گا ئے کی جگہ گدھے کچھوے کتے وغیرہ کا بھی ہو تا ہے۔ دوائیاں اتنی مہنگی ہیں کہ آدمی روٹی نہیں کھاتا، دوائی کھا لیتا ہے۔ یہ دوائیاں بھی دو نمبر نہیں، دس نمبر، جعلی اور ایکسپائرڈ ہو تی ہیں۔ پاکستان میں ہر آدمی پر یشان ہے۔ کسی کاجائز اور سیدھے طریقے کا کام نہیں ہوتا ۔ شریف سے شریف آدمی بھی ہیرا پھیری پر مجبور ہے کیونکہ ضروریاتِ زندگی انسان کو اس قدر مجبور کر دیتی ہیں کہ نیک آدمی بھی حرام حلال کی تمیز کھو چکا ہے۔ پورا پاکستان کرپشن میں مُبتلا ہے۔ ہمارے حکمرانوں نے کرپشن کی ایسی روایات قا ئم کی ہیں اور عوام کے گرد ایسا شکنجہ کسا ہے کہ ہر آدمی کرپشن سے آلودہ ہو گیا ہے۔ بد قسمتی سے ہمارے استاد حکیم دانشور ادیب شاعر ڈا کٹر انجینئر اداکار کھلاڑی سب سیاستدانوں کے نقشِ قدم پر چل رہے ہیں۔ ہمارے علماءسیدھا راستہ دکھانے کے بجائے چار شادیوں، طلاق عدت حوروں اور دودھ کی نہروں سے آگے بات نہیں کرتے۔ پوری قوم اس نتیجے پر پہنچ چکی ہے کہ تعلیم، نیکی ایمانداری اور محنت سے کچھ حا صل نہیں ہوگا۔ صرف چا پلوسی، جھوٹ، کرپشن ہی کامیابی کی ضمانت ہے۔ قوم کا اخلاقی زوال یہ ہے کہ آپ جو مرضی سمجھا لیں۔ کو ئی آدمی اثر نہیں لیتا۔ کو ئی نہیں ڈرتا۔جنت جہنم سے کو ئی غر ض نہیں کیونکہ سب کے ذہن زنگ آلود ہو چکے ہیں۔ سب کے اعمال دکھاویکے ہیں۔ ضمیر مُردہ ہیں، مگر قوم سانس لیتی ہے زندہ ہے۔

مزیدخبریں