جواہر لال نہرو و کو جدید ہندوستان کا بانی کہا جاتا ہے۔ نہرو ، ماضی میں جنوبی ایشیا میں کابل سے بنگال تک پھیلی ہوئی ہندو ریاست کے بانی چندر گپت موریا کے وزیر و مشیر اور ہندو تاریخ کے مشہور سیاسی دانشور چانکیہ کوٹلیہ کی فکر و نظر کے حامل تھے اور جنوبی ایشیا میں بھارت ماتا کے نام پر وحدت ہندوستان یا اکھنڈ بھارت کے تصور کو پھر سے زندہ کرنے کی فکر کے علمبردار تھے ۔ وہ چانکیہ کی فکر و نظر کے بہت قائل تھے اور اُسے بہت ہی لائق و فائق سیاسی دانشور گردانتے تھے ۔ اُنکے بیان کیمطابق چانکیہ نہ صرف بڑا فاضل بلکہ چندر گپت کی سلطنت کے قیام ، ترقی اور استحکام میں زبردست شریک اور مددگارتھا جسے موجودہ دور کے میکاولی سے بھی تعبیر کیا گیا ہے لیکن نہرو سمجھتے تھے کہ وہ اپنے عمل اور ذہنی قابلیت میں میکا ولی سے بھی بڑھ کر تھا ۔ چانکیہ اپنے مقصد کی پیروی اور حصول میں اخلاقی اصول سے بے نیاز اور ارادے کا پختہ تھا ۔ نہرو کہتے ہیں کہ چانکیہ نے آخری فتح اِس طرح حاصل کی کہ پہلے دشمن کی فوج میں بے چینی اور بے اطمینانی کا بیج بویا اور جب یہ بیج پھل لے آیا تو اُس نے چندر گپت کو اِس بات پر آمادہ کر لیا کہ وہ اپنے حریف کیساتھ فراخدلی سے پیش آئے ۔
جواہر لال نہرو نے چونکہ چانکیہ کی سیاسی حکمت عملی کا گہرا مطالعہ کیا تھا ، لہٰذا وہ چندرگپت کی طرح ہی وحدتِ ہندوستان کے نام پر جنوبی ایشیا میں ایک عظیم ہندو ریاست کی بنیاد رکھنا چاہتے تھے ۔ تاریخ پر نہرو کی گہری نظر تھی اور اِس اَمر کو اچھی طرح جانتے تھے کہ آٹھویں صدی عیسوی میں سندھ سے شروع ہونے والی اسلامی فتوحات جنہیں افغانستان کی جانب سے آنیوالے مسلم لشکروں نے ہندوستان میں مسلمانوں کی ایک ہزار سالہ حکمرانی میں تبدیل کر دیا تھا ، ہندو سماج کیلئے ہمیشہ ہی ایک چیلنج کی حیثیت رکھتی تھی ۔
وہ جانتے تھے کہ اسلام کی ہندوستان میں آمد کے بعد ہندو ازم کی امتزاج اور جذب کرنے کی معاشرتی قوت کو ناقابل تلافی نقصان پہنچا ہے کیونکہ گذشتہ کئی صدیوں میں لاکھوں ہندوئوں نے ہندوستان کے طول و ارض میں اسلام قبول کیا ۔ نہرو خود اپنی کتاب میں لکھتے ہیں کہ \\\" اعلیٰ ذاتوں کے ہندو تو فرداً فرداً اسلام قبول کرتے تھے لیکن نیچی ذات کے ہندوئوں میں پوری برادری یا پور ا گائوں اسلام قبول کرتا تھا ۔
کشمیر میں مدت سے ہندو اسلام قبول کر رہے ہیں اور وہاں کی آبادی نوے فی صدی مسلمان ہے ۔ ماضی میں لوگوں نے خواہ انفرادی طور پر اسلام قبول کیا یا جماعتی طور پر کیا ، ہندو قوم نے اِس کی مخالفت نہیں کی لیکن آجکل معاملہ اِس کے بالکل برعکس ہے ، اگر کوئی شخص اسلام یا مسیحیت قبول کرتا ہے تو ہر طرف غم و غصہ کے جذبات مشتعل ہو جاتے ہیں ‘‘ ۔
جواہر لال نہرو کی وحدتِ ہندوستان کی فکر کا اندازہ خود اُنکی کتاب ،تلاشِ ہند، Discovery of India ، پڑھ کر بھی ہو جاتا ہے ۔ وہ اِس اَمر کو تسلیم کرتے ہیں کہ ہندوستان میں باہمی اختلافات بہت زیادہ ہیں لیکن شمال مغرب کے پٹھانوں اور شمال مشرق کے تامل باشندوں کے فطری اختلافات کے باوجود اِن میں وہ ہندوستان کی وحدت کا نقش محسوس کرتے ہیں ۔مثلاً وہ کہتے ہیں کہ ’’ پٹھان اور تامل باہمی فرق کی انتہائی مثالیں ہیں اور بیچ کے لوگ اِن کے بین بین ہیں ۔ یہ سب لوگ اپنی اپنی امتیازی خصوصیات رکھتے ہیں مگر اِن سب میں ہندوستان کا متیازی نشان موجود ہے ۔ بنگالی ،مرہٹے، گجراتی ، تامل ، آندھرے ، اڑیا ، آسامی ، ملیالی ، سندھی ، پنجابی ، پٹھان اور کشمیری ، سینکڑوں ہزاروں سال سے اپنی جداگانہ خصوصیات رکھتے ہیں لیکن اِن سب میں ہندوستان کی قومی میراث اور اسکی اخلاقی اور ذہنی صفات مشترک ہیں ۔ اکثر بیرونی اثرات آکر اِس تہذیب کو متاثر کرتے تھے اور پھر اِسکے اندر ہی جذب ہوجاتے تھے۔
ہم اپنی تہذیبی روایات کیلئے خواہ کوئی سا لفظ بھی استعمال کریں انڈین ، ہندی یا ہندوستانی ، ہم ایک خاص بات یہ محسوس کرتے ہیں کہ ہماری تہذیب اور قوم کے ارتقا کی سب سے اہم خصوصیت ترکیب و امتزاج کا وہ داخلی رجحان ہے جو ہمارے فلسفیانہ طرز خیال کا پیدا کیا ہوا ہے ۔
بیرونی اثرات مختلف زمانوں میں ہندو تہذیب پر حملہ آور ہوتے رہے لیکن اِس نے ہمیشہ اِن کا مقابلہ کامیابی کیساتھ کیا اور امتزاج اور جذب کے عمل سے اِس پر فتح حاصل کی ۔ اِس عمل نے ہمیشہ تہذیب کو ایک حیاتِ نو بخشی اور اِس نئی زندگی سے تہذیبی شگفتگی اورتازگی پیدا ہوئی ، تاہم اِس کی بنیادی حقیقتِ حال وہی رہی ‘‘۔
اِس حقیقت سے انکار نہیں کیا جا سکتا کیونکہ اِس اَمر کی تائید تاریخ بھی کرتی ہے کہ قدیم ہندوستان پر حملہ آور ہونیوالی قوموں جن میں یونانی ، بیکٹرین ، کشان ، چینی ہنز ، ساکاز اور تاتاری وغیرہ شامل تھے نے ہندوستان کو فتح تو کیا لیکن وقت گذرنے کیساتھ ہندوازم نے اپنی اکثریت کے زور پر اِن تمام قوموں کو زوال پذیر ہونے پر ہندوازم میں جذب کرلیا ۔
خود ہندو مورخ لکھتے ہیں کہ آریا ہندو سماج نے اِن زوال پزیر ہونے والی قوموں کو ہندو ذات پات کے نظام میں شودر کے طور پر اتنی کمتر پوزیشن دی کہ وقت کیساتھ اِن قوموں کی حالت غلاموں سے بھی بدتر ہوگئی ۔ چنانچہ جواہر لال نہرو ، ہندوازم میں امتزاج اور جذب کے عمل سے بات تو تہذیبی حیاتِ نو اور تازگی اور شگفتگی کی کرتے ہیں لیکن قارئین کو یہ نہیں بتاتے کہ جب چھٹی صدی قبل مسیح میں ہندوستان کے طول و ارض میں بودھ ازم اور جین ازم نے عروج حاصل کیا تو دو ہی صدیوں کے بعد چوتھی صدی قبل مسیح میں ہندو برہمن سماج نے موقع پاتے ہی بودھ ازم اور جین ازم پر کیا کیا مظالم نہیں ڈھائے ۔
اِس اَمر کی تائید ہندو اور انگریز مورخ بھی کرتے ہیں کہ ہندو ازم نے طاقت پکڑتے ہی پاپولر مذاہب، بودھ ازم اور جین ازم ، کے ماننے والوں کو ہندو سماج کیلئے مثال بنانے کیلئے سخت ترین سزائیں دینے سے بھی گریز نہیں کیا حتیٰ کہ یہ اَمر بھی تاریخی ریکارڈ کا حصہ ہے کہ اِن مذاہب کے بہت سے ماننے والوں کو کھلے میدانوں میں سزا کے طور پر تیل کے اُبلتے ہوئے کڑہائو میں زندہ جلانے سے بھی گریز نہیں کیا گیا۔
اِسی طرح ہندوستان میں مغلیہ سلطنت کے زوال کے بعد اٹھارویں اور اُنیسویں صدی میں ہندو ازم نے اِسی بہیمانہ سلوک کا مستحق مسلمانوں کو ٹھہرایا جب ہندو اکثریتی صوبوں میں، جہاں جہاں انگریزکمپنی بہادر کی حکومت قائم ہوتی گئی، مسلم آبادیوں میں ، شدھی، سنگھٹن اور ہندو مسلم فسادات کے نام پر مسلمانوں کا قتل عام کیا گیا اور نہ صرف مسلمانوں کو زندہ جلایا گیا بلکہ اُن کی جائیدادوں کو آتشزدگی کا نشانہ گیا لیکن مسلمانوں نے ظلم و جبر کے سامنے سر تسلیم خم نہیں کیا ۔
لہٰذا مسلمانوں کے ہندو ازم میں جذب نہ ہونے کے باعث جس کرب اور بوکھلاٹ سے ہندو مورخ و دانشور گزرتے رہے اور یہ کہتے رہے کہ بّرصغیر میں اسلام کی آمد سے قبل تو تمام حملہ آور تہذییں ہندو ازم میں جذب ہوتی رہیں اب مسلمان کی شکل میں یہ کیسی قوم سامنے آ گئی ہے جو کسی طور بھی ہندو ازم میں جذب نہیں ہوتی، اِسی کرب سے جواہر لال بھی گزرتے رہے کہ یہ مطالبہء پاکستان کیا ہے جس سے بانیانِ پاکستان کسی قیمت پر دستبردار ہونے کیلئے تیار نہیں ہیں ؟
اندریں حالات ، جواہر لال نہرو نے اکھنڈ بھارت کے مقصد کو کامیابی سے ہمکنار کرنے کیلئے چانکیہ کی فلاسفی پر عمل کرتے ہوئے مسلمانانِ ہند کی بیشتر سیاسی اور مذہبی شخصیتوں کو وحدت ہندوستان کا قائل کر لیا تھا لیکن وہ اپنی بھرپور کوششوں کے باوجود علامہ اقبال اور قائداعظم محمد علی جناح، یعنی بانیانِ پاکستان کے طور پر کیا جاتا ہے، کی جانب سے پیش کئے گئے دو قومی نظریّہ کی بنیاد پر مسلمانانِ ہند کی حصولِ پاکستان کی تحریک میں دراڑیں ڈالنے میں کامیاب نہ ہوئے ۔ وہ خود اپنی کتاب میں لکھتے ہیں :
\\\" 1930 میں جب سول نافرمانی کی دوسری تحریک شروع ہوئی تو مسلمانوں نے اِس میں بھرپور حصہ لیا ، اِس تحریک کے سلسلے میں جن لوگوں کو جیل جانا پڑا اُن میں کم از کم دس ہزار مسلمان تھے ۔ صوبہ سرحد جہاں تقریباً 95 فی صدی مسلمان آباد ہیں ، نے اِس تحریک میں نمایاں حصہ لیا اور اِس کا سہرا پٹھانوں کے واحد اور ہردلعزیز لیڈر خان عبدالغفار خان کے سر تھا ۔
خان عبدالغفار خان کی قیادت میں سرحد کا صوبہ مضبوطی سے ہندو کانگریس کیساتھ رہا اور یہی حال ملک کے دوسرے حصوں میں متوسط طبقے کے مسلمانوں کا تھا ...اِسی طرح کانگریس نے مسلمان قوم کو اندرونی انتشار کا نشانہ بنانے کیلئے مسلم لیگ کے علاوہ بہت سی مذہبی سیاسی جماعتوں کی حوصلہ افزائی کی ۔ نہرو کہتے ہیں کہ اِن جماعتوں میں نسبتاً ایک اہم جماعت جمعیت العماء تھی جس میں ہندوستان کے ہر حصے کے مولوی اور عالم شریک تھے ۔
سیاسی میدان میں وہ اکثر کانگریس کی حامی اور ہم خیال تھی ۔ احرار جماعت ذرا بعد میں قائم ہوئی ، اِس کا زور پنجاب میں سب سے زیادہ تھا ، یہ لوگ بھی مسلم لیگ کے مخالف اور کانگریس کے حامی تھے ۔ جمعیت علماء اور احرار معمولی کاموں میں بھی کانگریس کا ساتھ دیتے تھے اور برطانوی حکومت کے خلاف عملی جدوجہد میں بھی کانگریس کیساتھ رہے \\\" ۔ چنانچہ بانیانِ پاکستان سے نہرو ہمیشہ ہی شاکی رہے ۔
علامہ اقبال کے بارے میں اُن کا کہنا تھا کہ مسلمان نوجوانوں کو متاثر کرنے میں علامہ اقبال کا اہم حصہ تھا۔ اُنہوں نے پُرزور قومی نظمیں لکھیں جو بہت مقبول ہوئیں ۔ پھر اُنہوں نے اپنی اُردو اور فارسی شاعری کے ذریعے تعلیم یافتہ مسلمانوں کیلئے ایک فلسفیانہ نظریّہ مہیا کر دیا اور اُن میں تفریقی رجحان پیدا کر دیا ۔ یوں تو اُن کی ہردلعزیزی اُن کے کمال شاعری کے سبب تھی لیکن اُس کا ایک بڑا سبب یہ بھی تھا کہ اُنہوں نے مسلم ذہن کی اِس ضرورت کو پورا کیا کہ اُسے اپنے لئے ایک لنگر مل جائے ۔ قائداعظم کے حوالے سے نہرو ، اِس اَمر پر پریشان ہوتے تھے کہ آخر قائداعظم کانگریس سے مسلم لیگ کو مسلمانوں کی نمائندہ جماعت تسلیم کرانے کا مطالبہ کیوں کرتے ہیں جبکہ مسلمانوں کی دیگر اہم جماعتیں وحدت ہندوستان کے حوالے سے کانگریس کیساتھ ہیں؟
جواہر لال نہرو کہتے تھے کہ مسٹر جناح اِس نئے دو قومی نظریّہ کو کہاں سے نکال لائے ہیں اور وہ ایسا کیوں کہتے ہیں کہ ہندوستان میں ہندو اور مسلمان ، دو قومیں آباد ہیں۔ میری سمجھ میں نہیں آتا کہ یہ ہندو اور مسلمان، دو قومیں کس طرح ہو گئیں ہیں ؟ دو بھائیوں میں ایک مسلمان ہو سکتا ہے اور ایک ہندو تو گویا یہ دو قوموں کے رکن بن جاتے ہیں ؟ دراصل جواہر لال نہرو اپنی تمام تر کوششوں کے باوجود وحدتِ ہندوستان یا اکھنڈ بھارت کے آدرشوں کو مطالبہء پاکستان کے سامنے ٹوٹتا ہوا محسوس کر رہے تھے لیکن اِسے تسلیم کرنے کیلئے تیار نہیں تھے ۔ (جاری ہے)
جواہر لال نہرو نے چونکہ چانکیہ کی سیاسی حکمت عملی کا گہرا مطالعہ کیا تھا ، لہٰذا وہ چندرگپت کی طرح ہی وحدتِ ہندوستان کے نام پر جنوبی ایشیا میں ایک عظیم ہندو ریاست کی بنیاد رکھنا چاہتے تھے ۔ تاریخ پر نہرو کی گہری نظر تھی اور اِس اَمر کو اچھی طرح جانتے تھے کہ آٹھویں صدی عیسوی میں سندھ سے شروع ہونے والی اسلامی فتوحات جنہیں افغانستان کی جانب سے آنیوالے مسلم لشکروں نے ہندوستان میں مسلمانوں کی ایک ہزار سالہ حکمرانی میں تبدیل کر دیا تھا ، ہندو سماج کیلئے ہمیشہ ہی ایک چیلنج کی حیثیت رکھتی تھی ۔
وہ جانتے تھے کہ اسلام کی ہندوستان میں آمد کے بعد ہندو ازم کی امتزاج اور جذب کرنے کی معاشرتی قوت کو ناقابل تلافی نقصان پہنچا ہے کیونکہ گذشتہ کئی صدیوں میں لاکھوں ہندوئوں نے ہندوستان کے طول و ارض میں اسلام قبول کیا ۔ نہرو خود اپنی کتاب میں لکھتے ہیں کہ \\\" اعلیٰ ذاتوں کے ہندو تو فرداً فرداً اسلام قبول کرتے تھے لیکن نیچی ذات کے ہندوئوں میں پوری برادری یا پور ا گائوں اسلام قبول کرتا تھا ۔
کشمیر میں مدت سے ہندو اسلام قبول کر رہے ہیں اور وہاں کی آبادی نوے فی صدی مسلمان ہے ۔ ماضی میں لوگوں نے خواہ انفرادی طور پر اسلام قبول کیا یا جماعتی طور پر کیا ، ہندو قوم نے اِس کی مخالفت نہیں کی لیکن آجکل معاملہ اِس کے بالکل برعکس ہے ، اگر کوئی شخص اسلام یا مسیحیت قبول کرتا ہے تو ہر طرف غم و غصہ کے جذبات مشتعل ہو جاتے ہیں ‘‘ ۔
جواہر لال نہرو کی وحدتِ ہندوستان کی فکر کا اندازہ خود اُنکی کتاب ،تلاشِ ہند، Discovery of India ، پڑھ کر بھی ہو جاتا ہے ۔ وہ اِس اَمر کو تسلیم کرتے ہیں کہ ہندوستان میں باہمی اختلافات بہت زیادہ ہیں لیکن شمال مغرب کے پٹھانوں اور شمال مشرق کے تامل باشندوں کے فطری اختلافات کے باوجود اِن میں وہ ہندوستان کی وحدت کا نقش محسوس کرتے ہیں ۔مثلاً وہ کہتے ہیں کہ ’’ پٹھان اور تامل باہمی فرق کی انتہائی مثالیں ہیں اور بیچ کے لوگ اِن کے بین بین ہیں ۔ یہ سب لوگ اپنی اپنی امتیازی خصوصیات رکھتے ہیں مگر اِن سب میں ہندوستان کا متیازی نشان موجود ہے ۔ بنگالی ،مرہٹے، گجراتی ، تامل ، آندھرے ، اڑیا ، آسامی ، ملیالی ، سندھی ، پنجابی ، پٹھان اور کشمیری ، سینکڑوں ہزاروں سال سے اپنی جداگانہ خصوصیات رکھتے ہیں لیکن اِن سب میں ہندوستان کی قومی میراث اور اسکی اخلاقی اور ذہنی صفات مشترک ہیں ۔ اکثر بیرونی اثرات آکر اِس تہذیب کو متاثر کرتے تھے اور پھر اِسکے اندر ہی جذب ہوجاتے تھے۔
ہم اپنی تہذیبی روایات کیلئے خواہ کوئی سا لفظ بھی استعمال کریں انڈین ، ہندی یا ہندوستانی ، ہم ایک خاص بات یہ محسوس کرتے ہیں کہ ہماری تہذیب اور قوم کے ارتقا کی سب سے اہم خصوصیت ترکیب و امتزاج کا وہ داخلی رجحان ہے جو ہمارے فلسفیانہ طرز خیال کا پیدا کیا ہوا ہے ۔
بیرونی اثرات مختلف زمانوں میں ہندو تہذیب پر حملہ آور ہوتے رہے لیکن اِس نے ہمیشہ اِن کا مقابلہ کامیابی کیساتھ کیا اور امتزاج اور جذب کے عمل سے اِس پر فتح حاصل کی ۔ اِس عمل نے ہمیشہ تہذیب کو ایک حیاتِ نو بخشی اور اِس نئی زندگی سے تہذیبی شگفتگی اورتازگی پیدا ہوئی ، تاہم اِس کی بنیادی حقیقتِ حال وہی رہی ‘‘۔
اِس حقیقت سے انکار نہیں کیا جا سکتا کیونکہ اِس اَمر کی تائید تاریخ بھی کرتی ہے کہ قدیم ہندوستان پر حملہ آور ہونیوالی قوموں جن میں یونانی ، بیکٹرین ، کشان ، چینی ہنز ، ساکاز اور تاتاری وغیرہ شامل تھے نے ہندوستان کو فتح تو کیا لیکن وقت گذرنے کیساتھ ہندوازم نے اپنی اکثریت کے زور پر اِن تمام قوموں کو زوال پذیر ہونے پر ہندوازم میں جذب کرلیا ۔
خود ہندو مورخ لکھتے ہیں کہ آریا ہندو سماج نے اِن زوال پزیر ہونے والی قوموں کو ہندو ذات پات کے نظام میں شودر کے طور پر اتنی کمتر پوزیشن دی کہ وقت کیساتھ اِن قوموں کی حالت غلاموں سے بھی بدتر ہوگئی ۔ چنانچہ جواہر لال نہرو ، ہندوازم میں امتزاج اور جذب کے عمل سے بات تو تہذیبی حیاتِ نو اور تازگی اور شگفتگی کی کرتے ہیں لیکن قارئین کو یہ نہیں بتاتے کہ جب چھٹی صدی قبل مسیح میں ہندوستان کے طول و ارض میں بودھ ازم اور جین ازم نے عروج حاصل کیا تو دو ہی صدیوں کے بعد چوتھی صدی قبل مسیح میں ہندو برہمن سماج نے موقع پاتے ہی بودھ ازم اور جین ازم پر کیا کیا مظالم نہیں ڈھائے ۔
اِس اَمر کی تائید ہندو اور انگریز مورخ بھی کرتے ہیں کہ ہندو ازم نے طاقت پکڑتے ہی پاپولر مذاہب، بودھ ازم اور جین ازم ، کے ماننے والوں کو ہندو سماج کیلئے مثال بنانے کیلئے سخت ترین سزائیں دینے سے بھی گریز نہیں کیا حتیٰ کہ یہ اَمر بھی تاریخی ریکارڈ کا حصہ ہے کہ اِن مذاہب کے بہت سے ماننے والوں کو کھلے میدانوں میں سزا کے طور پر تیل کے اُبلتے ہوئے کڑہائو میں زندہ جلانے سے بھی گریز نہیں کیا گیا۔
اِسی طرح ہندوستان میں مغلیہ سلطنت کے زوال کے بعد اٹھارویں اور اُنیسویں صدی میں ہندو ازم نے اِسی بہیمانہ سلوک کا مستحق مسلمانوں کو ٹھہرایا جب ہندو اکثریتی صوبوں میں، جہاں جہاں انگریزکمپنی بہادر کی حکومت قائم ہوتی گئی، مسلم آبادیوں میں ، شدھی، سنگھٹن اور ہندو مسلم فسادات کے نام پر مسلمانوں کا قتل عام کیا گیا اور نہ صرف مسلمانوں کو زندہ جلایا گیا بلکہ اُن کی جائیدادوں کو آتشزدگی کا نشانہ گیا لیکن مسلمانوں نے ظلم و جبر کے سامنے سر تسلیم خم نہیں کیا ۔
لہٰذا مسلمانوں کے ہندو ازم میں جذب نہ ہونے کے باعث جس کرب اور بوکھلاٹ سے ہندو مورخ و دانشور گزرتے رہے اور یہ کہتے رہے کہ بّرصغیر میں اسلام کی آمد سے قبل تو تمام حملہ آور تہذییں ہندو ازم میں جذب ہوتی رہیں اب مسلمان کی شکل میں یہ کیسی قوم سامنے آ گئی ہے جو کسی طور بھی ہندو ازم میں جذب نہیں ہوتی، اِسی کرب سے جواہر لال بھی گزرتے رہے کہ یہ مطالبہء پاکستان کیا ہے جس سے بانیانِ پاکستان کسی قیمت پر دستبردار ہونے کیلئے تیار نہیں ہیں ؟
اندریں حالات ، جواہر لال نہرو نے اکھنڈ بھارت کے مقصد کو کامیابی سے ہمکنار کرنے کیلئے چانکیہ کی فلاسفی پر عمل کرتے ہوئے مسلمانانِ ہند کی بیشتر سیاسی اور مذہبی شخصیتوں کو وحدت ہندوستان کا قائل کر لیا تھا لیکن وہ اپنی بھرپور کوششوں کے باوجود علامہ اقبال اور قائداعظم محمد علی جناح، یعنی بانیانِ پاکستان کے طور پر کیا جاتا ہے، کی جانب سے پیش کئے گئے دو قومی نظریّہ کی بنیاد پر مسلمانانِ ہند کی حصولِ پاکستان کی تحریک میں دراڑیں ڈالنے میں کامیاب نہ ہوئے ۔ وہ خود اپنی کتاب میں لکھتے ہیں :
\\\" 1930 میں جب سول نافرمانی کی دوسری تحریک شروع ہوئی تو مسلمانوں نے اِس میں بھرپور حصہ لیا ، اِس تحریک کے سلسلے میں جن لوگوں کو جیل جانا پڑا اُن میں کم از کم دس ہزار مسلمان تھے ۔ صوبہ سرحد جہاں تقریباً 95 فی صدی مسلمان آباد ہیں ، نے اِس تحریک میں نمایاں حصہ لیا اور اِس کا سہرا پٹھانوں کے واحد اور ہردلعزیز لیڈر خان عبدالغفار خان کے سر تھا ۔
خان عبدالغفار خان کی قیادت میں سرحد کا صوبہ مضبوطی سے ہندو کانگریس کیساتھ رہا اور یہی حال ملک کے دوسرے حصوں میں متوسط طبقے کے مسلمانوں کا تھا ...اِسی طرح کانگریس نے مسلمان قوم کو اندرونی انتشار کا نشانہ بنانے کیلئے مسلم لیگ کے علاوہ بہت سی مذہبی سیاسی جماعتوں کی حوصلہ افزائی کی ۔ نہرو کہتے ہیں کہ اِن جماعتوں میں نسبتاً ایک اہم جماعت جمعیت العماء تھی جس میں ہندوستان کے ہر حصے کے مولوی اور عالم شریک تھے ۔
سیاسی میدان میں وہ اکثر کانگریس کی حامی اور ہم خیال تھی ۔ احرار جماعت ذرا بعد میں قائم ہوئی ، اِس کا زور پنجاب میں سب سے زیادہ تھا ، یہ لوگ بھی مسلم لیگ کے مخالف اور کانگریس کے حامی تھے ۔ جمعیت علماء اور احرار معمولی کاموں میں بھی کانگریس کا ساتھ دیتے تھے اور برطانوی حکومت کے خلاف عملی جدوجہد میں بھی کانگریس کیساتھ رہے \\\" ۔ چنانچہ بانیانِ پاکستان سے نہرو ہمیشہ ہی شاکی رہے ۔
علامہ اقبال کے بارے میں اُن کا کہنا تھا کہ مسلمان نوجوانوں کو متاثر کرنے میں علامہ اقبال کا اہم حصہ تھا۔ اُنہوں نے پُرزور قومی نظمیں لکھیں جو بہت مقبول ہوئیں ۔ پھر اُنہوں نے اپنی اُردو اور فارسی شاعری کے ذریعے تعلیم یافتہ مسلمانوں کیلئے ایک فلسفیانہ نظریّہ مہیا کر دیا اور اُن میں تفریقی رجحان پیدا کر دیا ۔ یوں تو اُن کی ہردلعزیزی اُن کے کمال شاعری کے سبب تھی لیکن اُس کا ایک بڑا سبب یہ بھی تھا کہ اُنہوں نے مسلم ذہن کی اِس ضرورت کو پورا کیا کہ اُسے اپنے لئے ایک لنگر مل جائے ۔ قائداعظم کے حوالے سے نہرو ، اِس اَمر پر پریشان ہوتے تھے کہ آخر قائداعظم کانگریس سے مسلم لیگ کو مسلمانوں کی نمائندہ جماعت تسلیم کرانے کا مطالبہ کیوں کرتے ہیں جبکہ مسلمانوں کی دیگر اہم جماعتیں وحدت ہندوستان کے حوالے سے کانگریس کیساتھ ہیں؟
جواہر لال نہرو کہتے تھے کہ مسٹر جناح اِس نئے دو قومی نظریّہ کو کہاں سے نکال لائے ہیں اور وہ ایسا کیوں کہتے ہیں کہ ہندوستان میں ہندو اور مسلمان ، دو قومیں آباد ہیں۔ میری سمجھ میں نہیں آتا کہ یہ ہندو اور مسلمان، دو قومیں کس طرح ہو گئیں ہیں ؟ دو بھائیوں میں ایک مسلمان ہو سکتا ہے اور ایک ہندو تو گویا یہ دو قوموں کے رکن بن جاتے ہیں ؟ دراصل جواہر لال نہرو اپنی تمام تر کوششوں کے باوجود وحدتِ ہندوستان یا اکھنڈ بھارت کے آدرشوں کو مطالبہء پاکستان کے سامنے ٹوٹتا ہوا محسوس کر رہے تھے لیکن اِسے تسلیم کرنے کیلئے تیار نہیں تھے ۔ (جاری ہے)