لاہور (وقت نیوز / مانیٹرنگ ڈیسک) نوائے وقت گروپ کے ایڈیٹر انچیف مجید نظامی نے ”وقت نیوز“ کے پروگرام ”ہاٹ لائن“ میں انٹرویو میں کہا ہے کہ تحریک پاکستان 1940ءمیں ہی شروع ہو گئی تھی جب قائداعظمؒ لاہور تشریف لائے اور انہوں نے منٹو پارک میں قرارداد پاکستان منظور کی۔ انہوں نے کہا آج کل پنجاب کے ٹکڑے کرنے کی بات ہو رہی ہے‘ 1946ءمیں پنجاب دلی سے پشاور تک تھا۔ انہوں نے کہا نوائے وقت کا کردار 1940ءسے لے کر اب تک مسلم لیگ کے لئے رہا ہے لیکن یہ قائداعظمؒ کی مسلم لیگ کے لئے ہے ف‘ ق یا ن لیگ کے لئے نہیں۔ قائداعظمؒ اگر کچھ عرصہ اور زندہ رہتے تو حالات یقیناً مختلف ہوتے کیونکہ وہ ہمیں پٹڑی پر ڈال جاتے۔ وہ ایک سال بھی جو رہے تو مرد بیمار تھے۔ جب پاکستان بنا رہے تھے اس وقت بھی بیمار تھے‘ وہ ٹی بی کے تیسرے درجے میں تھے لیکن وہ سگار بھی پیتے تھے۔ ان کی بہن مادر ملت محترمہ فاطمہ جناحؒ نے ان کی دن رات دیکھ بھال کی۔ میں نے ہی تحریری طور پر انہیں مادر ملت کا خطاب دیا تھا اگر وہ ان کی دن رات خدمت نہ کرتیں تو شاید قائداعظمؒ پہلے ہی اللہ کو پیارے ہو جاتے اور پاکستان نہ بنتا۔ علامہ اقبالؒ تو صرف نظریہ دے گئے تھے 1938ءمیں اللہ کو پیارے ہو گئے۔ پاکستان حضرت قائداعظمؒ کا تحفہ ہے اور کسی کا نہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ میری جیب میں کھوٹے سکے ہیں اور بعد میں ثابت ہوا کہ جتنے بھی لیڈر آئے وہ کھوٹے سکے تھے۔ میں امریکہ کے حق میں نہیں‘ میں امریکہ کو شیطانی اتحاد ثلاثہ کا نمبر ایک سمجھتا ہوں اگرچہ دشمنی کے لحاظ سے ہمارے لئے نمبر ایک بھارت ہے۔ میں کہتا ہوں ہمیں سب کچھ پاکستان سے ہی ملا۔ انہوں نے کہا محترمہ فاطمہ جناحؒ کی ہار اور ایوب کی جیت سے مشرقی پاکستان میں مغربی پاکستان کے خلاف جذبات کو ہوا ملی‘ 1970ءمیں جب بنگلہ دیش بنا تو میں مجیب الرحمن سے ملک غلام جیلانی کے گھر پر ملا‘ میں نے ان سے کہا کہ آپ الیکشن میں جیت جائیں گے مغربی پاکستان آ کر حکومت بنائیں۔ انہوں نے کہا کہ مجید بھائی آپ نہیں جانتے جرنیل مجھے حکومت نہیں کرنے دیں گے۔ میں نے کہا کہ ہم آپ کی حمایت کریں گے۔ انہوں نے کہا کہ صرف ایک اخبار میری حمایت کرے گا تو مجھے وزارت عظمیٰ کی کرسی پر نہیں بٹھا سکتا‘ یہ بات کسی حد تک سچی بھی تھی لیکن وہ بنگلہ دیش بنانے پر تُلا ہوا تھا۔ ایوب خان نے مجھے بار بار پیغام بھیجے کہ مجھ سے ٹائم لے کر ملیں‘ میں نے کہا کہ مجھے اس سے کیا کام ہے جو ٹائم لے کر ملوں اگر آپ نے ویسے ملنا ہے تو مجھے یاد کریں میں آ کر مل لوں گا۔ یحییٰ خان نے اس سے تخت لے لیا اس کے بعد ایوب نے میرے بارے میں اشارتاً کہا کہ اس ظالم سے کہیں کہ اب تو مجھے مل لے۔ میں نے کہا کہ اگر وہ اتنے ہی بے تاب ہیں تو مل لیتا ہوں‘ میں ان سے ملنے اسلام آباد چلا گیا۔ انہوں نے مجھے ڈریسنگ گا¶ن میں ”ریسیو“ کیا۔ دو چار منٹ بات کئے بغیر ایک دوسرے کی شکل دیکھتے رہے۔ اچانک وہ بولے اب تو آپ خوش ہیں‘ میں نے کہا جی کس لئے‘ کہنے لگے کہ آپ کو اپنی پسند کی جمہوریت مل گئی۔ میں نے کہا نہیں آپ تو یحییٰ خان کو لے کر آ رہے ہیں جمہوریت تو نہیں دی‘ تو کہنے لگے اوہ! بیڑہ غرق‘ بسم اللہ ہی غلط ہو گئی۔ جناب مجید نظامی نے کہا 1965ءکی جنگ پاکستان نے شروع کی تھی کیونکہ پاکستان کا خیال تھا کہ یہ ایک ایسا موقع ہے کہ جس سے ہم فائدہ اٹھا سکتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ بھٹو کے ساتھ میرے تعلقات لندن سے تھے‘ میرا اور ان کا سال پیدائش بھی 28ءتھا۔ آپ اسے دوستی کہہ سکتے ہیں لیکن ایک سیاستدان اور ایک ایڈیٹر کی دوستی کبھی نہیں ہو سکتی‘ تعلقات ہو سکتے ہیں۔ بھٹو عوامی سپیکر تھے اگر گالی دینی ہے تو وہ گالی بھی دے دیتے تھے۔ عوام ایسے سپیکر کو پسند کرتے تھے۔ وہ سندھی تھے لیکن خود کو پنجاب سے منوایا۔ بھٹو نے پاکستان میں اسلامی کانفرنس بلا کر ثابت کیا کہ وہ اسلامی دنیا کو اکٹھا دیکھنا چاہتے ہیں‘ وہ اسلام کے بھی علمبردار بن سکتے تھے۔
مجید نظامی
مجید نظامی