یوم آزادی

14 اگست 2012 کو ہم پاکستان کا 66 واں یوم آزادی منا رہے ہیں حسب معمول اس روز بھی چھٹی کا دن ہوگا سکول اور کالج بند رہیں گے جگہ جگہ پاکستان کے جھنڈے لہرائے جائیں گے مٹھائیاں تقسیم ہونگی 21 توپوں کی سلامی دی جائے گی ہمارے دانشور بڑی بڑی تقریریں کرکے قیام پاکستان کی تاریخ کے اوراق پلٹیں گے ہمارے لکھاری بھی اسی موضوع پہ کالم لکھیں گے لےکن شائد پاکستان کے عوام کی غربت بےکاری بھوک سے تنگ آکر بیوی بچوں سمےت خود کشیاں کرنے والے خاندانوں کے بارے میں ہمیں کچھ بھی پڑھنے کو نہیں ملے گا ایک طرف چند خاندان ملکی دولت سمےٹ کر ملک سے باہر لے گئے ہیں تو دوسری طرف 50 فیصد سے زیادہ لوگ غربت کی لکیر سے کہیں نیچے رہنے پر مجبور ہیں 30 فیصد کو بمشکل دو وقت کی روکھی سوکھی روٹی ملتی ہے مڈل کلاس جو ہر جمہوری معاشرے کی ریڑھ کی ہڈی ہوتی ہے وہ کم ہوتے ہوتے 10 فیصد سے بھی کم رہ گئی ہے اب ذرا اس کا موازنہ قیام پاکستان کے وقت سے کریں اس وقت جس آگ اور خون کے دریاو¿ں سے گزر کر لاکھوں مہاجر خالی ہاتھ بھارت سے ہجرت کرکے پاکستان پہنچے تھے اور یہاں آکر انہوں نے زندگی کا نیا سفر شروع کیا تھا اس کے باوجود ان پر آشوب دنوں میں بھی بھوک سے تنگ آ کر خود کشی کرنے کی کوئی ایک مثال بھی نہیں ملتی پچھلے 65 سالوں میں ہم نے جمہوری حکومتیں بھی دےکھیں اور فوجی حکومتیں بھی لےکن ان کا محاصل؟ ان حکومتوں کے ہاتھوں ہمارا ملک دو لخت ہوا مشرقی پاکستان ہم سے الگ ہو کر بنگلہ دےش بن گیا لوگوں کے مسائل بڑھتے گئے غریب غریب تر ہوتے گئے اور امیر امیر تر پھر ایسا وقت بھی آیا کہ لوگ اتنے بے حس ہوگئے کہ اپنی غربت کو قسمت کا لکھا سمجھ کر خاموشی اختیار کر گئے اب ذرا سوچیں کہ کیا پاکستان اس لئے بنایا گیا تھا کہ اس میں غربت اور جہالت کے انبار لگا دیئے جائیں اور لوگ بےکاری اور مہنگائی سے تنگ آکر خود کشیاں کرتے رہیں؟نہیں ہرگز نہیں! آئیے ذرا پاکستان کے مستقبل کی تصویر پاکستان کے بانی قائد اعظم محمدعلی جناحؒ کی زبانی ان کے اس منفرد خطاب سے سنیں جو انہوں نے 11 اگست 1947 کو پاکستان کی آئین ساز اسمبلی میں فرمایا تھا اس خطاب کو پاکستان کے آئین کا ابتدائیہ ہونا چاہیئے تھا لےکن اس پر عمل کرنے کی بجائے ہمارے سیاستدان ایک فضول بحث میں الجھ گئے کوئی اسے سیکولر ازم اور کوئی اس میں اسلام کے ٹانکے لگاتا رہا اور اس میں اتنا تضاد پیدا کر دیا کہ یہ خطاب کہیں ردی کے پرانے کاغذات کے ڈےڑھ میں پڑا گل سڑ رہا ہے مجھے کہنے دیجئے کہ یہ سب ہمارے مکار عیار اور بدنیت سیاستدانوں کی سازشوں کی وجہ سے ہوا جو پاکستان کے مستقبل کےلئے قائد اعظمؒ کے منشور کو اپنانے کی بجائے اپنے اقتدار سے آگے کچھ بھی دیکھنا نہیں چاہتے تھے قائد اعظمؒ نے اس خطاب میں جو بھی نقطہ نظر پےش کیا اسے ایک طرف رکھ دیں مگر اسی خطاب میں انہوں نے یہ بھی فرمایا تھا کہ:۔ اس آئین ساز اسمبلی کی پہلی ذمہ داری کے بارے میں مجھے نہیں معلوم کہ آپ کیسا آئین بنائیں گے لےکن چند باتیں جو مےرے ذہن میں آتی ہیں ان میں پہلی یہ ہے کہ آپ ہمےشہ یاد رکھیں کہ آپ قانون سازی کےلئے ایک آزاد اور خود مختار ادارہ ہیں اور آپ کے پاس مکمل اور تمام اختیارات ہیں اس لئے ان اختیارات کے استعمال میں آپ پر ایک سخت ذمہ داری عائد ہوتی ہے مےرے خیال میں اور یقیناً آپ مجھ سے اتفاق کریں گے کہ :۔ 1 ۔ حکومت کی سب سے اہم ذمہ داری ملک میں امن و امان کا قیام اور قانون کا نفاذ ہے تاکہ ہر شہری کی جان مال اور اس کے مذہبی عقیدے کو ریاست کا مکمل تحفظ حاصل ہو۔ دوسری بات جو مےرے ذہن میں آ رہی ہے اور جو بہت بڑی لعنت ہے اور جو پورے ہندوستان میں پھیلی ہوئی ہے میں یہ نہیں کہتا کہ دوسرے ممالک یہ نہیں ہے مگر ہمارے ہاں جو زیادہ ہے وہ ہے :۔ 2۔ رشوت خوری اور کرپشن جو ایک زہر قاتل ہے اور ہمیں اسے آ ہنی ہاتھوں کے ساتھ ختم کرنا ہوگا اور مجھے یقین ہے کہ یہ اسمبلی اپنی پہلی فرصت میں اس طرف توجہ دے گی۔3۔ایک اور بڑی لعنت بلیک مارکیٹنگ کی ہے کئی دفعہ بلیک مارکیٹ کرنے والے پکڑے جاتے ہیں عدالتوں سے سزا پاتے ہیں انہیں جرمانے بھی ہوتے ہیں لےکن مےرے خیال میں یہ ہماری سوسائٹی میں ایک گھناو¿نا جرم ہے خصوصاً جب ہمارے ہاں غلے اور دوسری ضروریات زندگی کی کمی ہے اور جو لوگ بلیک مارکیٹنگ کرتے ہیں وہ مےرے نزدیک بہت بڑے مجرم ہیں یہ بہت ہو شیار اورچالاک ہوتے ہیں اور انہیں سنگین ترین سزائیں ملنی چاہیئں کیونکہ یہ غلے اور دوسری ضروریات زندگی پر ریاست کے کنٹرول کو تہہ و بالا کر دےتے ہیں غلہ اور دیگر ضروریات زندگی کو چھپا کر ملک میں بھوک اور بعض اوقات لوگوں کی موت کے بھی ذمہ دار ہوتے ہیں۔4۔ایک اور بات جو مےرے ذہن میں آ رہی ہے اور جو ہمیں دوسری اچھی بری چیزوں کے ساتھ ورثے میں ملی ہے وہ اقربا پروری اور سفارش کی لعنت ہے جس کو جڑوں سے اکھاڑنا نہایت ضروری ہے میں یہ واضح کر دےنا چاہتا ہوں کہ میں کسی کےلئے اقربا پروری اور سفارش پر کسی بھی طرف سے کسی قسم کا کوئی بھی دباو¿ قبول نہیں کروں گا۔آئین ساز اسمبلی سے کئے گئے قائد اعظمؒ کے مکمل خطاب کو اب ذرا ایک طرف رکھ دیں اور اپنے دل پہ ہاتھ رکھ کر سوچیں کہ اوپر بیان کئے جانے والے جو چار بنیادی نکات انہوں نے اٹھائے تھے اور جن پہ عمل کرنے کی تلقین کی تھی ان پہ تو کسی کو کوئی اختلاف نہیں ہونا چاہیئے تھا؟ تو پھر ان پہ عمل کیوں نہیں ہوا؟ آئیے ذرا ایک ایک کرکے ان نکات کا جائزہ لیں۔ قائد اعظمؒ نے فرمایا تھا کہ ً حکومت کی سب سے اہم ذمہ داری ملک میں امن و امان کا قیام اور قانون کا نفاذ ہے تاکہ ہر شہری کی جان مال اور اس کے مذہبی عقیدے کو ریاست کا مکمل تحفظ حاصل ہو ً جہاں تک ملک میں امن و امان کا تعلق ہے وہ پچھلے 30 سالوں سے ناپید ہے ہماری ایک پوری نسل ملک میں روز مرہ کی دہشت گردی اور خوف و ہراس کے ماحول میں پل کر جوان ہوئی ہے اور آج بھی یہ سلسلہ جاری ہے قانون طاقتوروں کےلئے کچھ اور ہے اور کمزوروں کےلئے کچھ اور جہاں تک دوسروں کے مذہبی عقیدے کو ریاستی تحفظ دےنے کا تعلق ہےتو کچھ اقلیتیں تحفظات کا اظہار کرتی ہیں۔ (جاری)

ای پیپر دی نیشن