وطن عزیز کا 66واں یوم آزادی اور لیلة القدر کی برکتیں آج ملک کی سلامتی‘ حفاظت اور ترقی کیلئے پوری قوم دعا گو ہے

آج 14 اگست کو قوم مملکت خداداد کا 66واں یوم آزادی روایتی جوش و جذبے سے اور تعمیر ملک و ملت کے احساس کو اجاگر کرتے ہوئے منا رہی ہے۔ 66 سال قبل آزاد و خودمختار مملکت کی حیثیت سے وطن عزیز کا قیام مقدس و متبرک مہینے رمضان المبارک کے 26ویں روزے کے اختتام پر لیلة القدر کی رات عمل میں آیا اور اسی مناسبت سے ارضِ وطن کو عطیہ¿ خداوندی کہا جاتا ہے۔ خوش قسمتی سے آج بھی ہمیں یوم آزادی ماہ رمضان المبارک کے اسی عشرے میں منانے کی سعادت حاصل ہورہی ہے‘ جس میں فرزندانِ توحید کو بارگاہ ایزدی کی جانب سے رحمتوں‘ مغفرتوں اور برکتوں والی رات لیلة القدر کی نوید دی گئی ہے۔ آج 25ویں روزے کی رات بھی طاق راتوں میں شمار ہوتی ہے اور اس مناسبت سے ہمیں آج وطن عزیز کا 66واں یوم آزادی بھی طاق راتوں میں آنیوالی لیلة القدر کی برکتوں کے ساتھ منانے کی سعادت حاصل ہورہی ہے۔ یہ رات دعاﺅں کی قبولیت کی رات ہے اس لئے ہمیں جشن آزادی مناتے ہوئے ملک کی سلامتی‘ ترقی و خوشحالی اور اغیار کی سازشوں سے ملک کو محفوظ رکھنے کی خصوصی دعائیں بھی مانگنی چاہئیں اور خدا کے حضور گڑگڑاتے ہوئے سجدہ ریز ہو کر اپنی انفرادی اور اجتماعی قومی خطاﺅں کی بھی معافی مانگنی چاہیے۔ وطن عزیز آج جن آفات ارض و سما میں گھرا ہے‘ ان سے نجات کی دعائیں بھی ہمارے لبوں پر رہنی چاہئیں۔ ربِ کائنات اپنے عاجز بندوں پر رحمتوں کی بارش برسانے پر قادر ہے اور اسکی مغفرت کے خزانے میں کوئی کمی نہیں۔
آج ہمیں اپنا یوم آزادی رمضان کریم کی طاق رات کے عرصہ میں منانے کی سعادت ملی ہے تو یہ بلاشبہ ہمارے لئے رحمتِ خداوندی کی دلیل ہے۔ ہمارے منتخب جمہوری حکمرانوں نے بری سے بری جمہوریت کے تصور والی اپنی حکمرانی میں عوام کا عرصہ¿ حیات تنگ کرکے اور ان کیلئے روٹی روزگار کے گھمبیر مسائل پیدا کرکے آزادی کا تصور ہی گہنا دیا ہے جبکہ حکمرانوں کی بے تدبیریوں کے نتیجہ میں بلوچستان کے پیدا شدہ حالات ملک کی آزادی‘ خودمختاری اور سلامتی کیلئے خطرے کی گھنٹی بجا رہے ہیں اور ایک خفیہ گیلپ سروے کے مطابق بلوچستان کے 67 فیصد عوام صوبائی خودمختاری اور 37 فیصد آزادی کے حامی ہیں۔ حکمرانوں کی بے تدبیریاں جاری رہیں تو کل کو ہمیں خدانخواستہ مشرقی پاکستان جیسے کسی دوسرے سانحہ سے دوچار ہونا پڑسکتا ہے۔ ہندو اور انگریز کی غلامی کے شکنجے میں جکڑے برصغیر کے مسلمانوں کیلئے اقبال نے پاکستان کا تصور پیش کیا اور قائداعظمؒ نے اپنی فہم و بصیرت سے اس تصور کو عملی جامہ پہنایا۔ یہ تاریخ عالم کا ایک منفرد واقعہ ہے کہ قائداعظمؒ نے برصغیر کے مسلمانوں کو آزادی کی پرامن تحریک کیلئے صف آراءکرکے ایک گولی چلائے اور جیل جائے بغیر ایک آزاد وطن حاصل کرلیا۔ حالانکہ اس وقت برسراقتدار انگریز اور اقتصادی و معاشی وسائل سے مالامال ہندو اکثریت نے تشکیل پاکستان کی مخالفت میں ایڑی چوٹی کا زور لگایا۔
اگر قائداعظم قیام پاکستان کے ایک سال بعد ہی ہم سے ہمیشہ کیلئے جدا نہ ہوتے تو جس مشن اور مقصد کے تحت برصغیر کے مسلمانوں کیلئے الگ وطن حاصل کیا گیا تھا وہ نہ صرف پورا ہوتا بلکہ اقوام عالم میں آج پاکستان کو منفرد، نمایاں اور بلند حیثیت حاصل ہوتی مگر بدقسمتی سے قائداعظمؒ کے انتقال کے بعد وطنِ عزیز انگریز اور ہندو کے ٹوڈی جاگیرداروں، ملاﺅں، مفاد پرست سیاستدانوں اور اسٹیبلشمنٹ کی سازشوں کے نرغے میں آگیا جنہوں نے اپنے مفاداتی گٹھ جوڑ سے اسلامی جمہوری فلاحی پاکستان کی منزل کو دور کردیا۔ اسی مفاداتی گٹھ جوڑ نے ماورائے آئین طالع آزمائی کے تحت فوجی آمریتوں کی بنیاد رکھی چنانچہ قیام پاکستان سے اب تک کا آدھے سے زیادہ عرصہ ہم نے یکے بعد دیگر چار مارشل لاﺅں کے نتیجہ میں جرنیلی آمریت کے منحوس سائے میں گزار دیا ہے۔ ان جرنیلی آمریتوں نے ملک کے اسلامی جمہوری فلاحی تصور کو اجاگر ہی نہیں ہونے دیا چنانچہ متعصب ہندو اکثریت کی اقتصادی غلامی کے شکنجے سے آزادی حاصل کرنے کے باوجود مسلمانوں کی اقتصادی حالت ابتر ہی رہی۔ انہیں جمہوریت کے ثمرات سے بھی دور کردیا گیا اور اقتصادی بدحالی بھی ان کا مقدر بنا دی گئی۔آج ہمارا سب سے بڑا المیہ یہ ہے کہ آج سلطانی¿ جمہور میں بھی عوام الناس کو جمہوریت کے ثمرات حاصل نہیں ہورہے اور جمہوری حکمرانوں نے جرنیلی آمریت کی تمام ننگِ وطن اور ننگِ انسانیت پالیسیاں برقرار رکھتے ہوئے قومی غیرت و حمیت کا بھی جنازہ نکالا ہے اور بے وسیلہ عام آدمی کے روزمرہ کے گوناگوں مسائل میں بھی اضافہ کیا ہے۔چنانچہ پاکستان کو صفحہ ہستی سے مٹانے کا جو خواب قائداعظمؒ کی فہم و بصیرت سے شرمندہ¿ تعبیر نہیں ہو پایا تھا۔ آج ہمارے حکمرانوں کی بداعمالیوں اور بے تدبیریوں کے باعث اسکی تعبیر و تکمیل کیلئے مکار ہندو بنیاءکی باچھیں کھلی ہوئی نظر آتی ہیں امریکی غلامی میں قوم کی گردن اس حد تک جھکا دی گئی ہے کہ خودداری و خودمختاری کا تصور ہی عنقا ہو گیاہے۔
قائداعظمؒ نے کشمیر کو پاکستان کی شہ رگ قرار دیا تھا جس کے پاکستان کے ساتھ الحاق کے بغیر تقسیم ہند کا ایجنڈا مکمل نہیں ہوسکتا۔ آج کشمیری عوام بھارتی فوجوں کے مظالم برداشت کرتے، ان کی گولیوں سے اپنے سینے چھلنی کراتے، قربانیاں دیتے، اپنی آزادی کی منزل کے قریب پہنچ چکے ہیں۔ ہندوستان انہیں ٹریک سے ہٹانے کیلئے مختلف حربے اختیار کررہا ہے مگر وہ پاکستان کے ساتھ الحاق کی صورت میں تقسیم ہند کے ایجنڈے کی تکمیل کیلئے اپنی آزادی کی جدوجہد میں مگن ہیں جو درحقیقت استحکام پاکستان کی جدوجہد ہے مگر ہمارے حکمرانوں کو ان غیور کشمیری باشندوں کی اخلاقی حمائت کی بھی توفیق نہیں ہورہی جو انہیں پاکستان سے الحاق کی تمنا رکھنے کی سزا دینے کے مترادف ہے۔
پاکستان کا قیام درحقیقت برصغیر کے مسلمانوں کا مذہبی‘ اقتصادی‘ سماجی اور معاشرتی استحصال کرنےوالے انگریز سامراج اور اسکے ٹوڈی ہندو بنیاءکی غلامی سے نجات حاصل کرنے کیلئے عمل میں لایا گیا تھا اور تصور یہی تھا کہ اپنی آزاد اور خودمختار مملکت میں مسلمانوں کو مذہبی آزادی حاصل ہونے کےساتھ ساتھ انکی اقتصادی حالت بھی بہتر ہو جائیگی اور انہیں قومی وسائل کو بروئے کار لانے اور روزگار حاصل کرنے کے یکساں مواقع حاصل ہونگے۔ ہمارے سیاسی حکومتی قائدین کو سوچنا چاہیے کہ آج ہم وہ مقاصد کیوں حاصل نہیں کر پائے جن کی خاطر برصغیر کے مسلمانوں کےلئے ایک الگ خطہ حاصل کرنے کی بانیانِ پاکستان قائد و اقبال نے ضرورت محسوس کی تھی۔ اگر ہم آج بھی خود انحصاری کی منزل کے حصول کیلئے پرعزم ہوں تو قدرت نے ہمیں وسائل سے مالامال کر رکھا ہے جنہیں بروئے کار لا کر ملک کی تقدیر بدلی جا سکتی ہے۔ آج یوم آزادی کے موقع پر قومی سیاسی قائدین کو محض تجدید عہد نہیں‘ عملیت پسندی کے ساتھ قوم کی ترقی و خوشحالی کیلئے عزم نو کرنا چاہیے۔ پاکستانی قوم بہرصورت اتنی صلاحیتوں کی حامل ہے کہ مشکل سے مشکل حالات اور کسمپرسی کی حالت میں بھی ملک کی تقدیر سنوارنے کا جذبہ رکھتی ہے۔ ملک پر جب بھی زلزلے‘ سیلابوں کی شکل میں کوئی قدرتی آفت ٹوٹی ہے‘ قوم نے ثابت قدمی کے ساتھ اس کا سامنا اور مقابلہ کیا ہے اور قومی جذبے کو کبھی ماند پڑنے دیا ہے‘ نہ قومی پرچم کبھی سرنگوں ہونے دیا ہے۔ قوم تو یقیناً قیام پاکستان کے مقاصد کی روشنی میں بانیانِ پاکستان کے آدرشوں کے مطابق تعمیر و استحکام پاکستان کیلئے اپنا کردار ادا کرنے کو ہمہ وقت تیار ہے‘ اگر ہماری قومی سیاسی قیادتیں بھی تعمیر ملک و ملت کے جذبے سے سرشار ہو جائیں تو دنیا کی کوئی طاقت ہمیں آگے بڑھنے سے نہیں روک سکتی۔ آج کے دن کا یہی پیغام ہے کہ صلاحیتوں سے معمور قوم کو اس سمت پر ڈال دیا جائے جو ملک کو کامرانیوں کی جانب لے جانے کی ضمانت بن سکے۔
آج خوش قسمتی سے سعودی فرمانروا شاہ عبداللہ نے بھی مکہ مکرمہ میں دو روزہ غیرمعمولی اسلامی سربراہ کانفرنس طلب کر رکھی ہے جس میں پاکستان کی نمائندگی صدر آصف علی زرداری کر رہے ہیں‘ انہیں اس کانفرنس میں بھی وطنِ عزیز پاکستان کو لاحق سنگین خطرات سے آگاہ کرنا چاہیے اور مسلم امہ کے اتحاد کی ضرورت کا احساس دلانا چاہیے۔ اس تناظر میں ہمیں روایتی تجدید عہد سے آگے نکل کر اس اسلامی فلاحی جمہوری پاکستان کیلئے انفرادی اور اجتماعی ایثار و قربانی کا مظاہرہ کرنا ہو گا جو بانیانِ پاکستان قائدؒ و اقبالؒ کا خواب تھا۔ ہمیں قومیتوں سے پھر ایک قوم بننا ہو گاتاکہ پاکستان کو قائد اعظم کے فرمان کے مطابق اسلام کی تجربہ گاہ کے قالب میں ڈھالا جا سکے۔

ای پیپر دی نیشن