نظریہ پاکستان اور ابن الوقت سیاستدان

 دنیا بھر کے مسلمان خصوصاً پاکستانی قوم 14 اگست کو اپنا 65واں یوم آزادی منا رہی ہے، پوری قوم اپنی آزادی کی مسرتوں اور شادمانیوں سے سرشار ہے۔ آزادی کی قدروقیمت کا اندازہ وہی قومیں کرسکتی ہیں جن کے بیٹے بیٹیوں نے نخل آزادی کی خون جگر سے آبیاری کی ہو۔ اسلامیان برصغیر نے قائداعظم محمد علی جناحؒ کی عہد آفرین قیادت میں مسلم لیگ کے سبز ہلالی پرچم کے زیرسایہ جب یہ فیصلہ کیا تھا کہ وہ ہندو رام راج اور برطانوی سامراج کی دوہری غلامی سے نجات حاصل کرنے کے بعد چانکیائی سیاست کے پیروکار ہندو قوم کی غلامی قبول کرنے کو تیار نہیں کیونکہ مسلمان کسی بھی قوم کی تعریف کی رو سے ایک علیحدہ قوم ہیں اور انہیں اپنی تہذیب و ثقافت، اپنی روایات، اپنے عقائد اور اپنی اقدار و شعائر کے مطابق زندگیاں بسر کرنے کے لئے ایک الگ وطن چاہئے تو یہ ایک تاریخ ساز فیصلہ تھا۔
اسے قوم کی بدنصیبی ہی کہنا چاہئے کہ قائداعظمؒ کی زندگی نے وفا نہ کی اور نوزائیدہ پاکستانی قوم اپنے فرزانہ یکتا کی تاریخ ساز قیادت سے محروم ہوگئی۔ بابائے قوم کی وفات نے ایک ایسا خلاءپیدا کردیا جو آج تک پر نہ ہوسکا۔ قومی سطح پر لوٹ کھسوٹ کا بازار گرم ہوا۔ خودغرضی اور مفادپرستی، مصلحت کشی کے تاریک سائے گہرے ہوتے چلے گئے۔ سیاسی سطح پر انتشار و افراتفری کی مکدر فضاءمیں سول اور خاکی بیوروکریسی کو فائدہ اٹھانے کا موقع ملا اور اس نے اقتدار پر قبضہ کرلیا۔ اس طرح ہماری تاریخ کا نصف حصہ فوجی اور سیاسی آمریت کی نذر ہو کر رہ گیا۔ آج 65 سال کے بعد ہم وہیں کھڑے ہیں جہاں 1947ءمیں تھے۔ بعض اوقات یہ محسوس ہوتا ہے کہ ہمارے وابستگان سیاست کو جمہوری نظام راس نہیں، اقتصادی اور معاشی طور پر دوسروں کے دست نگر ہیں۔ وہ خطہ جو پورے برصغیر کا اناج گھر تھا، اب ایک چھوٹے سے ٹکڑے کی کفالت سے معذور ہے۔ اس کی وجہ محض یہ ہے کہ ہم نے وہ رہنما اصول نظرانداز کر دیئے ہیں جو ہمارا نصب العین تھے۔ ستم ظریفی تو یہ ہے کہ وہ سیاسی جماعتیں جو سیاسی جمہوری اقدار کی علمبردار بنتی ہیں۔ وہ بھی جمہوریت و سیاست کے بخیئے ادھیڑنے میں پوری طرح سرگرم ہیں۔
آزادی کا سورج طلوع ہونے سے پہلے ایک برطانوی مصنف ہرلیونیلسن نے قائداعظمؒ سے پوچھا تھا کہ آپ کے مخالف کہتے ہیں کہ پاکستان اقتصادی لحاظ سے اپنے پاﺅں پر کھڑا نہ ہوسکے گا پھر آپ کی قوم پاکستان کیوں چاہتی ہے؟ قائداعظمؒ نے جواب دیا:
فرمایا کہ محترم بھائی! تم میرے ایک سوال کا پہلے جواب دو۔ کیا تم ایک ایسا انگلستان پسند کرو گے جو آزاد تو نہ ہو لیکن معاشی طور پر نہایت دولت مند ہو؟ ہرلیونیلسن نے جواب دیا کہ قائداعظم اس سوال کا جواب بالکل واضح ہے کہ کوئی قوم غلام بننا پسند نہیں کرتی۔تاریخ اسے اس کی مسیحائی کا اعجاز کہے گی، جس کی بصیرت نے 200 سال کی طویل جدوجہد کو 7 سال میں ایک منزل سے آشنا کیا....!
دنیا کا نقشہ زیرو بم ہوا، ایک عظیم مملکت وجود میں آئی۔ وہ جو عظیم تھا فولاد سے بھی زیادہ مضبوط، پرعزم اور ہمالیہ سے بلند ارادوں کا مالک اپنا مشن مکمل کرکے چلا گیا۔ جانشین نالائق، خود غرض اور نااہل تھے، میراث پدر سنبھال نہ سکے۔ پہلے ملک دولخت کیا، اب خود لخت لخت ہیں۔
ہم ہر دانے پر سندھی، بلوچی، پنجابی، پٹھان اور مہاجر ،اللہ جانے کیا کیا پڑھ کر پھونک رہے ہیں۔ ہم دن رات آمریت پر نفرین بھیجتے ہیں۔.... فرقہ واریت کو فروغ دیتے ہیں۔ نفرتوں کے بیچ بوتے اور لاشوں کی فصلیں کاٹتے ہیں۔
پھر بھی ہم عظیم ہیں.... ہردلعزیز ہیں.... قوم کے رہنما ہیں.... کس قوم کے؟ قائداعظمؒ کی قوم کے جو مینار پاکستان کی بلندیوں پر کھڑا ہمیں دیکھ رہا ہے!!
مینار پاکستان راوی کے اس پار اپنی ایڑھیاں اٹھا اٹھا کر پکار رہا ہے کہ پاکستان اس لئے حاصل کیا گیا تھا کہ یہاں اسلام کی عملداری اور نظریہ پاکستان کی حکمرانی ہوگی۔ یہاں پر اسلامی جمہوریت کو پروان چڑھایا جائے گا۔ اس کے پہاڑوں کے اندرچھپے ذخائر اور سونا اُگلنے والی زمین کی بدولت اس کی معیشت کو مضبوط بنایا جائے گا۔ آزاد خودمختار اقوام کی طرح غیروں کا دست نگر ہوئے بغیردنیا کی صف میں بلند مقام پر فائز کیا جائے گا۔ پاکستان اور نظریہ پاکستان کے باغبانوں کو امور سیاست اور حکومت میں شامل کیا جائے گا .... لیکن تم نے یہ سب کچھ یکسر نظرانداز کردیا .... یہ ایسے تلخ حقائق ہیں جو ہر مورخ کو معلوم ہیں!!

ای پیپر دی نیشن