14 اگست اور ”وزیراعظم“ گیلانی

”وزیراعظم“ گیلانی نے ملک ٹوٹنے کی گھنٹی بجا دی ہے۔ کیسا موقع اس ظالم ملک دشمن، نالائق اور کرپٹ آدمی نے منتخب کیا ہے کہ پوری قوم پاکستان بننے اور آزادی حاصل کرنے کا جشن منا رہی ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ اگر وزیراعظم پرویز اشرف کو گھر بھیجا گیا تو ملک ٹوٹ جائے گا۔ برادر کالم نگار نے اس جملے کے بعد کہا کہ میرے منہ میں خاک اور اس کے منہ میں بھی خاک۔ جب اُسے گھر بھیجا گیا تھا تو وہ چپ کر کے گھر چلا گیا تھا۔ ایوان صدر میں صدر زرداری نے انہیں عدالت کا فیصلہ صبر سے تسلیم کرنے کا حکم دیا۔ وہ چلے گئے اور کچھ بھی نہ ٹوٹا، ٹوٹنے کی آواز بھی نہ آئی۔ پیپلز پارٹی کے جیالوں نے بھی کوئی افسوس نہ کیا جیسے یہ روٹین کی کارروائی تھی۔ معذرت کے ساتھ عرض ہے کہ جیسے کسی لاعلاج مریض کے مر جانے کے پر ہر کوئی کہتا ہے کہ اللہ کی مرضی یہی تھی اور بس۔ میں پھر معذرت کے ساتھ کہوں گا کہ جیسے ذوالفقار علی بھٹو جیسے بڑے لیڈر کی پھانسی پر ہر طرف سناٹا تھا، پیپلز پارٹی کے سارے جیالے لیڈر اپنے اپنے گھروں میں دبکے پڑے تھے۔ بھٹو کے جنازے میں چند لوگ تھے صرف بھٹو کا نیا پاکستان پرانا پاکستان بن گیا تھا۔ کاش یہ قائداعظم کا پاکستان بنتا تو پھر ہم 14 اگست مناتے تو لگ پتہ جاتا، کبھی کوئی گیلانی یہ نہ کہہ سکتا کہ ملک ٹوٹ جائے گا۔ اُسے ٹھوکر لگی تو غصہ پاکستان پر؟
یہ بہت افسوسناک اور شرمناک ہے۔ اب تو کہیں ذرا سی ناپسندیدہ بات ہوتی ہے تو لوگ ملک کے ٹوٹنے کی بات کر دیتے ہیں۔ غسل خانے میں صابن ہاتھ سے گرتا ہے تو ملک ٹوٹنے کی آوازیں سنائی دینے لگتی ہیں۔ مشرقی پاکستان صرف ایسے موقعوں پر یاد آتا ہے۔ وزیراعظم ہا¶س کے بعد ایوان صدر کے سرونٹ کوارٹر میں رہنے والے بزدل جیالے گیلانی پرویز اشرف کے غم میں دبلے نہیں ہو رہے وہ اپنی خجالت دور کر رہے ہیں، انہیں پرویز اشرف سے کیا ہمدردی ہے؟ اس بے ہودہ بیان کی مذمت وزیراعظم پرویز اشرف کو کرنا چاہیے۔ پرویز اشرف کم از کم یوسف رضا گیلانی سے اچھے ہیں انہوں نے جتنی کرپشن کرنا تھی وزیراعظم بننے سے پہلے کر لی۔ گیلانی نے تو وزیراعظم بن کے کرپشن کے اگلے پچھلے ریکارڈ توڑ دئیے۔ ان کی ساری فیملی نے لوٹ مار میں حصہ لیا اب وہ مقدمہ بھگت رہے ہیں۔
یہ تو سوچنا چاہئے ”وزیراعظم“ گیلانی کو کہ اب پرویز اشرف کی وزارتِ عظمیٰ کو بچانے کے لئے جتنی کوششیں کی جا رہی ہیں اور صدر زرداری جتنے بے قرار اور سرگرم ہیں کیا ان کے جانے پر بھی تھے، ان کو اگر ابھی تک رکھا ہوا ہے تو ان سے کچھ کام لینا ہے۔ ایک تو یہ کہ آنے والے وزیراعظموں کو پتہ ہو کہ قربانی دینے کے بعد ان کی کہانی ختم نہیں ہو جاتی۔ ان کی ”عزت“ کی جاتی ہے اور اگر کوئی احتجاج وغیرہ کرتا ہے تو اس کی قیادت بھی پچھلے وزیراعظم کو کرنا ہے۔
”وزیراعظم“ گیلانی کہتے ہیں میں اس کے لئے ”ٹرین مارچ“ کروں گا۔ لانگ مارچ اور سونامی مارچ کے بعد یہ تیسرا مارچ ہے اور مارچ گزرے پانچ مہینے ہو گئے ہیں۔ اس کے بعد وہ ایسی ویسی حرکت کریں گے، عدالتی فیصلہ تسلیم نہیں ہو گا تو ڈبل مارچ بھی ہو سکتا ہے۔ اس کا پیپلز پارٹی کو انتظار ہے۔ پیپلز پارٹی کے لئے آئندہ اقتدار میں آنے کے لئے اور دنیا والوں کی آنکھوں میں دھول جھونکنے کے لئے یہی ایک رستہ ہے اس کے بغیر ان کی سیاست ختم ہو سکتی ہے۔ نواز شریف کے پاس جمہوریت ہی کا نعرہ ہے۔ اب لوگ ”جمہوریت“ سے ہی بیزار ہیں۔ وہی ہو گا جو پہلے ہوتا رہا ہے مگر اب اور طرح سے ہو گا، اس طرح نہیں ہو گا جو سیاستدان چاہتے ہیں۔ اب سیاستدان سب حساب کتاب دینے کے لیے تیار رہیں ان کے افسران بھی۔
وزیراعظم نہ رہنے کے بعد کسی نے گیلانی کو گھاس نہیں ڈالی۔ کوئی بھی کہیں ان کے استقبال کے لئے نہیں آیا۔ انہیں الوداع بھی کسی نے نہیں کیا۔ ان کے لئے ایک چھوٹی موٹی تقریب بھی نہیں ہوئی تو دوسرے وزیراعظم پرویز اشرف کے لئے زیادہ سے زیادہ کیا ہو جائے گا۔ ان کی جگہ وزیراعظم بننے والے بے قرار پھرتے ہیں۔
ایک آصف ہاشمی ہے جو ان کے ساتھ پھرتا ہے۔ اب اس منحوس پریس کانفرنس میں بھی پیپلز پارٹی کا کوئی لیڈر نہ تھا مگر آصف ہاشمی ان کے ساتھ بیٹھا تھا شاید ایوان صدر سے اس کی ڈیوٹی لگائی گئی ہے جس طرح پہلے یہ ڈیوٹی رحمان ملک ادا کرتا تھا وہ ہر جگہ ان کی نگرانی کرتا تھا۔ نگرانی، حکمرانی اور من مانی کا آپس میں بڑا تعلق ہے۔ نگران حکومت ہمارے ہاں بڑی ”اہم“ ہوتی ہے۔ مجھے آصف ہاشمی پر افسوس ہے کہ وہ ملک ٹوٹنے کی بات سُن کر بھی خاموش رہا۔ جو ملک کا وفادار نہیں وہ کسی کا وفادار نہیں۔ اُس نے سر ہلا کے گیلانی کی اس مکروہ بات کی تائید کی۔ متروکہ وقف املاک بورڈ کی چیئرمینی صرف گیلانی کی ہوتی تو وہ اب تک نکالے جا چکے ہوتے۔ آصف ہاشمی وزیراعظم گیلانی سے خوش نہ تھا مگر اس نے گیلانی کو چھوڑا نہیں۔ وہ بھی سمجھتا ہے کہ اب کبھی گیلانی وزیراعظم نہیں بن سکتے۔ یہ دوستی کی پہچان ہے۔ گیلانی کو اپنی وزارتِ عظمیٰ جانے کا غصہ ملک کے خلاف نہیں نکالنا چاہئے۔ یہ غداری کے مترادف ہو گا۔ آصف ہاشمی انہیں منع کرے۔
یہ بات آصف ہاشمی نے پہلے بتائی تھی اور پھر ”وزیراعظم“ گیلانی نے سب کو جلسہ عام میں بتا دی ”لوگ سمجھتے ہیں میں P.M نہیں ہوں Peon ہوں۔“ ہمارے وزیراعظم ”حقیر اعظم“ ہوتے ہیں۔ ہمیشہ مصیبت اور توہین وزیراعظم کی ہوئی، وزیراعظم قتل ہوئے، پھانسی چڑھائے گئے، اپنی پارٹی کی حکومت میں نکالے گئے، فوجی ایکشن کے تحت گئے مگر گیلانی کو جس طرح گیٹ آ¶ٹ کیا گیا اس کی کوئی مثال نہیں۔ یہ تو وہ ٹھیک سمجھتے تھے صدر زرداری کے وہ چپڑاسی ہیں۔ کبھی کوئی کارروائی صدر کے خلاف نہیں ہوئی صرف صدر جنرل ضیا کا طیارہ امریکہ نے تباہ کروایا۔ بھٹو کی پھانسی کا ذمہ دار بھی امریکہ ہے اور ہم ایک دوسرے کے خلاف لڑتے رہتے ہیں۔ میں نے پہلے بھی ”وزیراعظم“ گیلانی کی خدمت میں یہ کہاوت بیان کی تھی۔ ایک عورت کا نام وزیر بی بی تھا اس نے اعظم نامی ایک آدمی سے شادی کی لوگوں نے اُسے وزیراعظم کہنا شروع کر دیا۔ میں تو اب بھی انہیں ”وزیراعظم“ گیلانی کہتا ہوں۔
پاکستان میں پارلیمانی نظام کی ہمیشہ بے حرمتی دیکھ کر میں نے صدارتی نظام حکومت کی حمایت کی ہے مگر وزیراعظم کے طور پر سیاستدان اس کی مخالفت کرتے ہیں۔ وہی ملک ٹوٹنے کی بات کرتے ہیں کسی صدر نے یہ بات نہیں کی۔ صدر زرداری سے بھی آج تک یہ بات کسی نے نہیں سُنی۔ یہ کام انہوں نے اپنے وزیراعظم پر چھوڑا ہوا ہے۔
14 اگست کے موقع پر میں کچھ اور کالم لکھنا چاہتا تھا مگر گیلانی نے میرے دل میں آگ لگا دی ہے۔ میں کہا کرتا ہوں کہ میرے دل میں آتش فشاں ہے اور میں راکھ کے ڈھیر پر کھڑا ہوں۔ جیسے توہین آمیز انداز میں گیلانی وزیراعظم ہا¶س سے نکالے گئے تو ان کا ”پاکستان“ ان کے لئے اسی دن ٹوٹ گیا تھا۔ اقتدار کے بھوکے یہ لوگ نجانے پاکستانی ہیں یا نہیں مگر پاکستان کے وزیراعظم، صدر بن جاتے ہیں۔ الطاف حسین نے بھی عدلیہ اور انتظامیہ کی لڑائی کے نتیجے میں ملک کے ٹکڑے ٹکڑے ہونے کی بات کی ہے۔ میں کچھ باتوں کے لئے ان کا مداح ہوں۔ میرے دوست مجھے طعنے دیتے ہیں وہ جاگیر داروں، سرمایہ داروں کے خلاف بات کرتے ہیں مجھے اچھا لگتا ہے۔ صرف بات ہی سہی وہ بات تو کرتے ہیں مگر الطاف بھائی نے یہ بات کر کے ایک معمولی نالائق اور کرپٹ آدمی کی تائید کی ہے۔

ای پیپر دی نیشن