14 اگست : یوم آزادی یا یوم غلامی؟

قوموں کی زندگی میں آزادی کا دن، عزم نووعزم صمیم اور کچے پکے ارادوں کو پختہ ارادوں میں تبدیل کرنے کے لیے آتا ہے۔  ہمارے ہاں آزادی کا دن تو مسلسل آتا ہے لیکن انتظارکے باوجود آزادی نہیں آتی۔ اس بار 14اگست اس عالم میں طلوع ہورہا ہے کہ چاروں صوبوں اور مرکز میں عوام کی نومنتخب حکومتیں قائم ہیں اور بڑے جاہ و جلال اوروعدوں اور دعووں کے ساتھ برسر اقتدار آئی ہیں۔ مگر وفاقی حکومت نے جتنی تیزی سے اور جتنے بڑے پیمانے پر اپنے ووٹروں اور عوام کو مایوس کیا ہے، اس کی کوئی مثال نہیں ملتی ہے۔ حکمران اس حکمت اورمصلحت کو نہیں سمجھ سکے کہ اقتدار سنبھالنے کے فوراً بعد اگر مسائل میں کمی نہ کرسکیں تو اضافہ بھی نہ کریں اورمہنگائی و بے روزگاری جیسے عنوانات کو لوگوں کے لیے مزید مشکل کا باعث نہ بنائیں۔
جس بڑے پیمانے پر دھاندلی کے بعد موجودہ حکومتیں اقتدار میں آئی ہیں، اس کے بعد ان سے اسی طرح کی کارکردگی کی توقع کی جانی چاہیے تھی۔ گو کہ صدارتی انتخاب کے بعد فخرو بھائی نے اپنی ناکامی تسلیم کر تے ہوئے استعفیٰ دے دیا لیکن حالیہ انتخابات میں ان کی ناکامی کھل کر سامنے آ گئی تھی اور انھیں اسی وقت مستعفی ہو کر حقائق سے قوم کو آگاہ کرنا چاہیے تھا۔ ان کی زیر نگرانی ایسے الیکشن ہوئے جن پر تمام جماعتوں کو اعتراض تھا۔ کراچی میں سرے سے الیکشن کا عمل ہی نہ ہو سکا۔ ہمارے نزدیک تو ان کا استعفیٰ اس وقت ضروری ہوچکا تھاجب کراچی کے حوالے سے انہوں نے سپریم کورٹ کے فیصلوں پر عمل کرنے سے انکار کردیا تھا ۔ سپریم کورٹ نے الیکشن کمیشن کو حکم دیا تھا کراچی میں حلقہ بندیاں دوبارہ کی جائیں،ووٹر لسٹوں کی فوج کی موجودگی میں ازسر نو تصدیق کی جائے اور پولنگ کے دن بھی لااینڈ آرڈر کے حوالے سے فوج کو ایک رول دیاجائے۔ جس وقت فخرو بھائی نے ان فیصلوں پر عملدرآمد نہ کرنے کی ٹھانی تھی ہماری نظر میں تو وہ اس وقت ہی عملاًاپنے منصب سے مستعفی ہوگئے تھے۔ کراچی کو ایک دفعہ پھر بدامنی، لاقانونیت اور دہشت گردی کے سپرد کرکے وہ قوم بالخصوص کراچی کے عوام کو آزاد انہ اورمنصفانہ انتخابات کے خواب کی تعبیر دینے میں ناکام رہے۔زرداری حکومت کی طرح نوازحکومت میں بھی مفاہمت کے نام پر دہشت گردوں کو سینے سے لگایا جارہا ہے اور ان کی دہشت گردی سے توجہ ہٹانے کے لیے ان کی خیر خواہی اور بھلائی کے گن گائے جارہے ہیں۔ کراچی کے تناظر میں دہشت گردوں کو آستین کے سانپوں کی طرح پالنے کے جو نتائج پیپلزپارٹی کی حکومت کو ملے تھے ، انھی نتائج کے حصول کے لیے ن لیگ کی حکومت بھی اس تجربے کو دہرانا چاہتی ہے۔اور محسوس ہوتا ہے کہ جن سے ڈکٹیشن لیتے ہیں انہوں نے کانوں میں یہ بات پھونک دی ہے کہ ایم کیو ایم کوحکومت میں وافر حصہ دیا جائے۔ 
اقتدار سنبھالتے ہی وفاقی حکومت کی طرف سے قومی سلامتی پالیسی کو ازسر نو ترتیب دینے اور اس حوالے سے آل پارٹیز کانفرنس کے انعقاد پر بہت شور و غوغا سننے کوملا، اس کی تیاریوں ،پھر اس کے التوا، پھر اس کے نام کی تبدیلی، پھر اس کی ہیئت کے بارے میں نئی نئی تجاویز، وقت نے پھر اس بات کو ثابت کیا کہ ہم اے پی سی بلانے میں بھی آزاد نہیں ہیں۔بھارت سے دوستی کے لیے بے چینی اور بے قراری بھی حکومت کے ہر اقدام اور اعلان سے ٹپکی پڑتی ہے اور کنٹرول لائن پر بڑھتی بھارتی جارحیت ، بھارتی ڈرون کی فضائی سرحدوں کی خلاف ورزی اور دہلی میں پاکستانی ہائی کمیشن اور امرتسر میں دوستی بس پر حملے سے بھی اس پر کوئی فرق نہیں پڑا ہے۔گویا کشمیری ہمارے سوتیلے بھائی ہیں جن سے انتقام لینے کی بہت جلدی ہے۔ پاکستان کے حصے کے جن دریائوں پر بند باندھ کر بھارت بجلی بنا رہا ہے، ہم اسی بجلی کی خرید اری کے لیے منہ مانگے دام دینے کو تیار ہیں اور آبی جارحیت ترک کرنے کا مطالبہ کرنے کے بجائے سرے سے اس بات کو ہی ختم کردینا چاہتے ہیں کہ بھارت آبی جارحیت کا مرتکب ہورہا ہے۔ گزشتہ 65سال میں پرویز مشرف کے سواپاکستان میںآنے جانے والی سول وفوجی حکومتوں نے کشمیر پر ایک ہی موقف رکھا ، کشمیریوں کی مسلسل داد رسی کی کوشش کی اور جب جب ان پر مظالم کی طویل رات کو طویل تر کرنے کی کوششیں ہوئیں، کشمیریوں کو یہ احساس ہوا کہ پاکستان ہمارے ساتھ ہے اور عوام کے علاوہ حکومتیں بھی ہمارے لیے کچھ نہ کچھ کرتی ہیں لیکن اب یہ محسوس ہوتاہے کہ پرویز مشرف کا دور لوٹ رہا ہے اور پھر سے کشمیریوں کو بھارت کے رحم و کرم پر چھوڑنے کی تیاری اور ان کے اصولی موقف کو اوجھل کرنے کی کوشش کی جارہی ہے اور ہر قیمت پر بھارت سے دوستی کے نتیجے میں ملک کو بجلی بحران سے نکالنے کی ’’خوش خبری ‘‘ـدی جارہی ہے۔ یہ ایسے وقت میں کیا جا رہا ہے جب کشمیر میں تحریک آزادی عروج پر ہے اور وہاں گلی کوچوں میں پاکستانی پرچم لہرائے جا رہے ہیں۔ یہ رویے آزاد قوموں کے نہیں ہوا کرتے ۔14اگست کو ہم دنیا کو کیا منہ دکھانا چاہتے ہیں؟ کیا ہم 14اگست کو یوم آزادی کے بجائے یوم غلامی منانا چاہتے ہیں؟حکمرانوں کے رویے یہی چغلی کھارہے ہیں جوبڑے پیمانے پر کشمیریوں کی جدوجہد کونظر انداز کر رہے ہیں اور عالمی ضمیر اور عالمی برادی کو کچوکے دینے کے بجائے خود کو مضمحل کر رہے ہیں۔
الیکشن کے نتائج جس طرح عوام کے سینے پر مونگ دلنے کی روایت کو جاری رکھے ہوئے ہیں، جس طرح حکومت میں آتے ہی کرپشن سکینڈل سامنے آنے لگے ہیں، امریکی و بھارتی جارحیت کے حوالے سے حکومت نے جس بے حسی کا مظاہرہ کیا ہے،اور جس طرح حالیہ بارشوں اور سیلاب کے دوران حکومت کی عدم موجودگی اور بڑھتی ہوئی دہشت گردی کے حوالے سے عدم تحفظ کا احساس ابھرا ہے، ناگزیر ہے کہ ایسے تمام عناصر جو ملک میں جمہوریت اور  انتخاب کے حامی ہیں ، سر جوڑ کر بیٹھیں اور سنجیدگی سے پوری صورتحال کا جائزہ لے کر کم سے کم ایجنڈے اور پروگرام کے تحت عوام کو اپنی جدوجہد میں شریک کریں ۔ حکمران اقتدار کے نشے میں سرشار ہیںاور اس بات کو بھول گئے ہیں کہ آئی جے آئی کا معاملہ بھی ایک عرصے کے بعد ایکسپوز ہو گیاتھا اور اب تووقت بہت بدل گیا ہے، عین ممکن ہے کہ مہینوں کے اندر ہی یہ بات طشت از بام ہوجائے کہ موجودہ الیکشنز کتنے آزادانہ او رمنصفانہ تھے؟ اور جو لوگ کامیاب ہوکر تخت پر براجمان ہیں ان کی کامیابی میں کون سے عناصر ترکیبی شامل تھے؟ لہٰذا حکمرانوں کو آئینہ دکھانے کے لیے بھی ضروری ہے کہ ایجنڈے او رمسائل پہ اتفاق رکھنے والی جماعتیں مل جل کر حالات کی بہتری کی تدبیر بھی کریں اور قوم کو اعتماد میں لے کر آگے بڑھنے کا لائحہ عمل بھی تیار کریں۔

ای پیپر دی نیشن