باﺅنڈری کمیشن کے غیر منصفانہ فیصلہ پر ”نوائے وقت کا تاریخی اداریہ“

Aug 14, 2013

پروفیسر محمد مظہر عالم

 قانون تقسیم ہند کی رو سے پاکستان اور بھارت کی سرحدات کیلئے قائم کئے گئے باﺅنڈری کمیشن کے سربراہ سیرل ریڈکلف نے ماﺅنٹ بیٹن کے زیر اثر کمیشن کے دیگر ممبران سے بالابالا جو رپورٹ مرتب کی وہ سراسر بدیانتی اوربے ایمانی پر مبنی تھی اور جس کی وجہ سے پاکستان کو امرتسر، جالندھر، ہوشیارپور، لدھیانہ، انبالہ کی بعض مسلم اکثریتی تحصیلوں بلکہ گورداسپور کے مسلم اکثریتی ضلع سے محروم کر دیا گیا۔ گورداس پور کی بدولت بھارت کو کشمیر کے ساتھ زمینی راستہ فراہم کیا گیا، جس کی بدولت بھارت کو کشمیر تک باآسانی افواج کی نقل و حمل کا موقع میسر آیا۔
ایوارڈ پر وائسرائے کے دستخط 8 اگست 1947ءکو ہی ہو گئے تھے لیکن ایوارڈ کا اعلان 17 اگست کو ریڈیو پر کیا گیا۔ ایوارڈ کی رو سے پورے ہندوستان میں عموماً اور پاکستان میں خصوصاً نہ صرف قائداعظم انگریزوں کی روایتی بددیانتی پر حیران پریشان ہوئے بلکہ روزنامہ نوائے وقت نے ماﺅنٹ بیٹن کے قائم کردہ کمیشن کی ناانصافی پر مبنی رپورٹ پرنہایت جرا¿ت مندانہ اداریہ تحریر کیا۔ ”سر سیرل ریڈکلف نے جانبداری اور بے انصافی سے ہی کام نہیں لیا بلکہ جان بوجھ کر بددیانتی کی ہے اور ہندوستان کے گورنر جنرل لارڈ ماﺅنٹ بیٹن بھی اس بے ایمانی میں انکے شریک کار اور معاون موید ہیں۔ مسلمان لیڈروں نے انگریز کی دیانت اور انصاف پر بھروسہ کیا اور انگریز نے سال سوا سال کے مختصر وقفہ میں دوسری مرتبہ بے ایمانی کی اور مسلمانوں کو نقصان پہنچایا۔ہم حیران ہیں کہ سر سیرل ریڈکلف کی اس بددیانتی کے کونسے گوشہ کو بے نقاب کریں کیونکہ یہ نام نہاد ایوارڈ اول سے آخر تک دھوکا اور فریب کا مرقع ہے۔ سلہٹ کے ضلع سے چار تھانے نکال لئے گئے مگر اس ضلع سے ملحق اور متصل اکثریت والے مسلمان علاقوں کی ایک انچ زمین بھی پاکستان کو نہیں دی گئی۔ مشرقی بنگال کے مسلمان اکثریت کے علاقے ہندو بنگال کو دئیے گئے اور مشرقی بنگال کو اسکے عوض کچھ نہیں دیا گیا۔ پنجاب میں بٹالہ اور گورداسپور کی تحصیلیں مسلم اکثریت کے علاقوں سے متصل ہیں مگریہ تحصیلیں مشرقی پنجاب کو دے دی گئیں۔ امرتسر اور ترن تارہ سے تو مسلمانوں کو محروم کیا ہی گیا ہے اجنالہ کی تحصیل پنجاب میں مسلم اکثریت والا علاقہ ہے، وہ مغربی پنجاب سے چھین لی گئی ہے۔ قصور کی تحصیل کے دو ٹکڑے کردئیے گئے ہیں حالانکہ یہ بھی مسلم اکثریتی ہیں، جالندھر، تکودر فیروزپور اور زیرہ کی تحصیل مغربی پنجاب سے متصل مگر انہیں مشرقی پنجاب میں رہنے دیا گیا۔ہمارے لیڈر سر سیرل ریڈکلف کے فیصلہ کو ماننے کا پیشگی اقرار کر چکے ہیں خدا جانے وہ اقرار اب بھی قائم ہے یا نہیں مگر ہماری ناقص رائے میں اس امر کی پابندی ہم پر لازم نہیں۔
کمیشن کے سامنے بنیادی اصول متصل مسلمان اور غیر مسلمان اکثریت کا اصول تھا، کمشن نے اس اصول کو پیش نظر نہیں رکھا اور اس طرح اس بنیادی اصول کی خلاف ورزی کی ہے جودراصل سب سے بڑی شرط تھی، اس لئے مسلمان کسی ایسے فیصلے کو ماننے کے پابند نہیں۔ انگریزوں نے پاکستان کو اپاہج بنانے کی کوشش کی ہے، ہماری کوشش یہ ہونی چاہئے کہ ہم ساری مجبوریوں اور مواقع کے باوجود اسے مضبوط اور توانا بنانے کی کوشش کریں اس مقصد کیلئے ہمیں تکلیفیں برداشت کرنی پڑینگی۔ رنج سہنے ہوں گے اور زیادہ محنت کرنا ہو گی لیکن اگر ہم ایک باعزت قوم کی حیثیت سے رہنا چاہتے ہیں تو ہمیں اپنے پاﺅں پر کھڑا ہونے کیلئے تیار ہنا چاہئے جب تک ہم اپنے پاﺅں پر کھڑے نہیں ہو جاتے اس وقت تک ہمیں ہمارا جائز حق نہیں مل سکتا، لیکن ہمیں یقین ہے کہ مسلمان اس حق سے کبھی دستبردار نہیں ہونگے اوراسے حاصل کرکے ہی رہینگے، دس سال بعد یا بیس سال بعد، یہ ہماری محنت اور اس سے پیدا شدہ قوت پر منحصر ہے مگر مسلمان اپنا حق حاصل کرکے رہیںگے۔(اداریہ:21 اگست 1947)
لیکن بدقسمتی سے نہ تو ہمیں قائداعظم ؒ کے بعد مخلص قیادت نصیب ہوئی جو ہمیں جہد مسلسل کیلئے تیار کرتی اور نہ ہی آنے والے حکمران اس اہل تھے کہ وہ اس عزم کو عملی صورت دیتے جس عزم کا اداریہ کے آخر میں اظہار کیا گیا، درحقیقت ان کا یہ ایجنڈا ہی نہ تھا۔

مزیدخبریں