خطبہ الٰہ آباد اور نظریہ پاکستان

خطیبہ الٰہ آباد کا شمار تحریک پاکستان کی اہم ترین دستاویزات میں کیا جاتا ہے۔ مگر پاکستان نے یہ خطبہ 30دسمبر 1930ءکو الٰہ آباد کے مقام پر آل انڈیا مسلم لیگ کے سالانہ جلسہ عام میں دیا۔ خطیبہ الٰہ آباد اور نظریہ پاکستان دونوں نہ صرف ایک دوسرے کے آئینہ دار ہیں بلکہ فلسفہ اور عصری سیاسی تقاضوں کے اعتبار سے باہمی طور پر ہم آہنگ ہیں۔ نظریہ پاکستان بنیادی طور پر یہ مفہوم رکھتا ہے کہ مسلمان اور ہندو دو الگ قومیں ہیں جن کے اپنے اپنے جداگانہ مذاہب، ثقافتیں اور رسوم و رواج ہیں۔ خطبہ الٰہ آباد 1930ءمیں اس وقت دیا گیا جب برصغیر میں ہندو اور مسلمان برطانوی سامراج کے غلام تھے اور دور دور تک ان کی آزادی کے آثار نظر نہیں آتے تھے اگرچہ لاکھوں فرزندان توحید شمع آزادی پر قربان ہو چکے تھے۔ اس خطبہ میں مفکر اسلام علامہ اقبالؒ نے پہلی مرتبہ ایک مضبوط پلیٹ فارم سے برصغیر کے شمال مغربی مسلم علاقوں پر مشتمل ایک آزاد خود مختار مسلم ریاست کا تصور پیش کیا جو کہ نظریہ پاکستان کا عکاس تھا۔ علامہ اقبالؒ نے اس تاریخی خطاب میں اسلام کی آفاقیت، دوقومی نظریہ، الگ مسلم ریاست، اسلامی ریاست کے کردار اور ہندوستان کے دفاعی حصار پر تفصیل سے روشنی ڈالی۔ اقبالؒ نے فرمایا کہ اسلام ایک آفاقی تہذیب ہے۔ یہ ہر قوم ہر فرقے کیلئے اور سب زمانوں کیلئے ہے۔ انہوں نے مذہب کے بارے میں یورپی اور اسلامی انداز فکر کا تجزیہ کرتے ہوئے کہا: ”یورپ والے اس نتیجے پر پہنچے ہیں کہ مذہب ایک فرد کا ذاتی معاملہ ہے اور اس کا انسان کی دنیاوی زندگی سے کوئی واسطہ نہیں ہے۔ اسلام انسان کو وحدت کو روح اور مادے میں تقسیم نہیں کرتا۔“
حضرت علامہ اقبالؒ نے اپنے خطبہ میں یہ بھی کہا کہ چونکہ ہندوستان میں کئی قومیتیں آباد ہیں اور وہ ایک دوسرے کے ساتھ تعاون کیلئے تیار نہیں ہیں اس وجہ سے یہاں مغربی طرز حکومت اور جمہوری نظام رائج نہیں کیاجا سکتا۔ ہندوستان کے مسلمان اپنی روایات کے مطابق زندگی گزارنے کا حق رکھتے ہیں۔ اس کے بعد شاعر مشرق نے ہندوستان کے شمال مغربی مسلم اکثریت کے علاقوں پر مشتمل الگ آزاد اسلامی ریاست کی تجویز پیش کرتے ہوئے فرمایا: ”میں چاہتا ہوں کہ پنجاب شمالی مغربی سرحدی صوبے، سندھ اور بلوچستان کو ملا کر ایک ریاست کی شکل دی جائے۔ برطانوی سلطنت کے اندر یا باہر خودمختار حکومت مجھے شمال مغربی ہند کے مسلمانوں کا مقدر دکھائی دیتی ہے۔
مفکر اسلام نے فرمایا کہ ہندوﺅں کو مسلم ریاست کے قیام سے خوفزدہ نہیں ہونا چاہئے کیونکہ اس ریاست میں کوئی مخصوص مذہبی حکومت قائم نہیں کی جائے گی۔ حقیقت یہ ہے کہ اسلام کوئی کلیسا نہیں ہے اس کی بنیاد اخلاقیات پر ہے اور یہ آدمی کو صرف زمین کی مخلوق تصور نہیں کرتا بلکہ اس کو ایک روحانی پیکر خیال کرتا ہے۔ بانی پاکستان حضرت قائداعظم محمد علی جناحؒ نے بھی خطبہ الٰہ آباد کے تقریباً دس سال بعد 23مارچ 1940ءکو لاہور میں اپنے صدارتی خطبہ میں علامہ اقبالؒ کے فلسفہ سے اتفاق کرتے ہوئے نظریہ پاکستان کی وضاحت ان الفاظ میں کی۔
”یہ سمجھنا بہت دشوار ہے کہ ہمارے ہندو دوست اسلام اور ہندو مت کی حقیقت نوعیت کیوں نہیں سمجھتے۔ معنوی لحاظ سے یہ مذاہب نہیں ہیں بلکہ حقیقت میں یہ مختلف معاشرتی نظام ہیں اور یہ خواہش محض ایک خواب ہے کہ ہندو اور مسلمان کبھی ایک مشترک قومیت تخلیق کر سکیں گے‘ ہندو اور مسلمان دو مختلف مذہبی فلسفوں، مذہبی روایات اور ادب سے تعلق رکھتے ہیں۔ وہ نہ تو آپس میں شادیاں کرتے ہیں اور نہ ہی اکھٹے کھانا کھاتے ہیں۔ درحقیقت وہ دو مختلف تہذیبوں سے تعلق رکھتے ہیں جو کہ متضاد تصورات پر مبنی ہیں۔ زندگی کے بارے میں انکے تصورات مختلف ہیں۔ ہندو اور مسلم مختلف تاریخی ماخذوں سے تعلق رکھتے ہیں۔ انکی رزمیہ نظمیں ہیرو اور تاریخی کارنامے ایک دوسرے سے مختلف ہیں۔ اکثر اوقات ایک قوم کا ہیرو دوسری قوم کا دشمن ہوتا ہے۔ اسی طرح ایک کی فتح دوسرے کی شکست ہوتی ہے۔“
”ہمارا دعویٰ ہے کہ قومیت کی ہر تعریف اور معیار کے مطابق مسلمان اور ہندو دو بڑی قومیں ہیں۔ ہماری قوم دس کروڑ انسانوں پر مشتمل ہے اور مزید برآں ہم ایک ایسی قوم ہیں جو کہ اپنے خاص تہذیب و تمدن، زبان و ادب، فنون و تعمیرات، رسم و اصطلاحات، معیار و قدر، رسم و راج، نظام تقویم، تاریخ و روایات رکھتی ہے۔“

ای پیپر دی نیشن