نوازشریف کی طرف سے سپریم کورٹ کے ججوں پر مشتمل کمشن کی پیشکش کو عمران نے مسترد کر دیا ہے کہ پہلے استعفی دو۔ عمران خان نے بھی اسمبلی کی رکنیت سے استعفی دیا ہوتا۔ خیبرپی کے کی حکومت قبول نہ کی ہوتی تو مزا آتا۔ ایک برس سے زیادہ مشکوک الیکشن نظام کے تحت عیش کی۔ اب حکمرانوں کی عیاشی پر اعتراض کا انہیں کوئی حق نہیں ہے۔ آزادی مارچ تو مولانا طارق جمیل کی عطا ہے۔ انہوں نے اس سال دوسرا بڑا کام وینا ملک کا نکاح پڑھا کے انجام دیا ہے۔ یہ مارچ یوم آزادی کو نہیں ہونا چاہئے تھا۔ ایک دن آگے کیا جا سکتا تھا۔ یہ ایک قومی بات ہے۔ سیاسی بات نہیں ہے۔ عمران کے آگے پیچھے کون لوگ ہیں۔ آزادی مارچ غلامانہ ذہنیت کے لوگوں کی رفاقت میں کیا جا رہا ہے۔ حالات خراب ہو رہے ہیں۔ بات اب بھی 14 اگست سے آگے جائے گی اگر عمران ایک ہجوم عاشقاں کے ساتھ نکلتا ہے اور اسے روکا جاتا ہے تو پھر کیا ہو گا۔ تصادم اور خانہ جنگی اور افراتفری ہو گی۔ مجھے لگتا ہے کہ حکومت عمران کو جانے دے گی اور قادری صاحب کو روکے گی۔ دونوں سے مختلف طریقوں سے نبٹنے کی پالیسی ہے مگر جو انتظام قادری صاحب کے لئے کیا گیا ہے اس کی زد میں عمران بھی آ جائے گا۔
چودھری نثار نے کہا ہے اسے شاید سنگینی کا پتہ ہے۔ اس نے کہا کہ پاکستان کو صومالیہ، عراق اور لیبیا نہیں بننے دیا جائے گا مگر حالات تو اسی طرف جا رہے ہیں۔ عرب ممالک کا یہ حال کرنے کے بعد اب باری تو پاکستان کی ہے۔ سعودی عرب بھی نشانے پر ہے۔ میں نے لکھا تھا کہ اسرائیل ڈرتا ہی صرف پاکستان سے ہے۔ کسی عرب ملک سے نہیں ڈرتا۔ یہ تو ہو گا۔ شام بننے کے بعد لیبیا بھی بن جائے گا۔ شورش کاشمیری نے کہا تھا کہ ملک حالات کی وجہ سے نہیں شخصیات کی وجہ سے تباہ ہوتے ہیں۔ شخصیات میں عمران اور قادری ہیں تو نواز شریف بھی ہیں۔ وہ تو جو کچھ کر رہے ہیں۔ قابل قبول نہیں ہے اور جو کچھ اسلام آباد چودھری نثار کی ناک کے نیچے ان کی وزارت کے سائے میں ہو رہا ہے۔ کیا یہ جمہوری رویہ ہے۔ قادری یہیں ”صدر“ کے زمانے میں بھی آیا تھا۔ اس نے حکمرانوں کو یزیدیو اور ظالمو بھی کہا تھا۔ مگر سب کچھ سنا گیا۔ صبروتحمل مفاہمت اور سیاست۔ کیا چودھری نثار تسلیم کرتے ہیں کہ زرداری صاحب نواز شریف سے بڑے اور کامیاب سیاست دان ہیں۔ دونوں طرف سے ضد بازی اور بیان بازی۔ اس سے پرویز رشید اور شاہ محمود قریشی کو تو کوئی فائدہ ہو جائے مگر عمران اور نواز شریف کے کچھ ہاتھ نہیں آئے گا۔ اصل بات کریڈٹ نہیں ۔ کریڈیبلٹی ہوتی ہے۔ اس کے لئے مجھے سیاست کے منظر نامے پر پہلے بھی اور اب بھی کوئی حکمران اور سیاستدان دکھائی نہیں دیتا۔
محمود اچکزئی نے قومی اسمبلی میں دھواں دھار تقریر کی جب کہ اس وقت بہت کم ممبران ایوان میں موجود تھے۔ محمود نے کہا کہ ہم اس کے خلاف بغاوت کریں گے جو آئین کو چھیڑے گا۔ آئین کے ساتھ سب سے زیادہ چھیڑ چھاڑ حکمران کرتے ہیں۔ محمود اچکزئی کا مخاطب تو کوئی اور تھا جن کا نام لینے کی ان میں جرات نہیں ہے۔ عمران اور اس کے ساتھی بار بار کہہ رہے ہیں کہ ہم آئین کے مطابق تحریک چلا رہے ہیں۔ وہ بھی مارشل لا کے خلاف ہیں۔ جنرل ضیا کے لئے میں نرم گوشہ رکھتا ہوں کہ ایٹم بم ان کے زمانے میں بنا۔ بنیاد اس کی بھٹو نے رکھی تھی جس کی وجہ سے لوگ کچھ سکون میں ہیں جب کہ ایٹم بم کو ایک تماشا بنا دیا گیا ہے۔ اب بیرونی قوتوں کی نظر ہمارے ایٹم بم پر ہے۔ یہ نہ رہا تو پاکستان کے لئے بہت خطرہ ہے۔ خطرہ تو اب بھی ہے۔ محمود اچکزئی کس آئین کو بچانے کی بات کرتے ہیں۔ سینکڑوں ترامیم کے بعد اس کا حلیہ بگڑ چکا ہے جسے جنرل ضیا نے ردی کا ٹکڑا کہا تھا۔ تب بھی محمود اچکزئی سیاست دان تھے وہ جنرل مشرف کے زمانے میں بھی اسمبلی میں تھے۔ تو کیا اس وقت آئین کے تحت ہی انہوں نے الیکشن لڑا تھا۔ انہوں نے اپنے بھائی کو گورنر بلوچستان بنوا لیا اور بھی کئی فائدے جمہوریت سے انہوں نے اٹھائے ہوں گے۔ خدا کی قسم اگر آئین کو چھیڑا گیا تو اس چھیڑے ہوئے آئین کے تحت الیکشن ہوئے تو بھی محمود اچکزئی اسمبلی میں ہوں گے۔ وہ مجھے اچھے لگتے ہیں۔ ان کی چادر قبائلی روایت کی علامت ہے۔ وہ جمہوریت کو بھی ایک قبائلی علامت سمجھیں۔ دونوں کو سمجھائیں مگر اب شاید سمجھتے سمجھانے کا وقت نکل چکا ہے۔ اللہ پاکستان کی خیر کرے۔ پاکستان آئین سے بہرحال بہت بڑا ہے۔ ہم پاکستانی آئین کی بات کرتے ہیں۔ ہم نے آئین کا بھی وہ حال کیا ہے جو پاکستان کا کیا ہے۔ پاکستان میں وہی کھیل کھیلا جانے والا ہے جو عراق تیونس لیبیا شام میں کھیلا گیا ہے۔ یہ عالمی ایجنڈے کے مطابق ہے پاکستان دوستی کے لئے ملک کے وقار اور اعتبار کو داﺅں پر لگانے والے سن لیں یہ جو کچھ مشرق وسطی میں اسرائیل نے کیا ہے وہی بھارت برصغیر میں کرے گا۔ اور یہاں مسلمان ملک پاکستان ہے افغانستان اور ایران ہے۔ ان دونوں ملکوں کی باری بھی آنے والی ہے۔ تو ان حالات میں چین کو اپنا کردار ادا کرنا چاہئے اور وہ کچھ نہ کچھ کر رہا ہے۔ مگر ہم بھی تو کچھ کریں۔
آپریشن ضرب عضب سے بیرونی قوتیں خوش نہیں ہیں جب کہ یہ کامیابی کے ساتھ ہو رہا ہے۔ پاکستان کے اندر بھی کئی لوگ اس آپریشن ضرب عضب کے خلاف ہیں۔ جبھی تو پاکستان کے اندر آپریشن ضرب عضب شروع کیا جا رہا ہے۔ انہیں معلوم ہو جائے گا کہ آپریشن اور پوسٹ مارٹم میں فرق ہوتا ہے۔ یہ سوال اپوزیشن اور حکومت دونوں سے ہے۔
عجیب بات ہے کہ نواز شریف اور عمران خان دونوں سپریم کورٹ پر یقین رکھتے ہیں۔ عمران کو پتہ ہے کہ ابھی چیف جسٹس ناصر الملک ریٹائر نہیں ہوئے؟ جسٹس افتخار چودھری کے لئے مجھے بھی بہت اختلافات ہیں۔ ان کااظہار میں نے کیا جب وہ چیف جسٹس تھے۔ عمران اگر سپریم کورٹ کی طرف سے توہین عدالت کو انقلابی طور پر ڈیل کرتے تو کوئی بات بنتی۔ عمران کا کوئی رویہ تحریکی نہیں ہے، تحریک انصاف کے مستقبل کے مطابق ہوتا ہے۔ وہ جو کچھ کرتا ہے اُسے لوگوں کے تجسس اور جنوں کا اندازہ ہونا چاہئے۔ لوگوں سے بے وفائی اُسے ہیرو سے زیرو بنا دے گی اور اس کا امکان زیادہ ہے۔ یہ نہ ہو کہ ایسی ہی کوئی تحریک اس کے خلاف چلانا پڑے، لوگ کبھی بھٹو کے دیوانے تھے اور پھر انہی کے خلاف تحریک چلائی جبکہ عمران بھٹو کے مقابلے کا تصور ہی نہیں کر سکتا۔ بھٹو کے خلاف بھی تحریک کی ”فوجی کامیابی“ کے بعد جو کچھ ہوا وہ سب جانتے ہیں مگر ہمارے عوام بہت معصوم، مظلوم اور محکوم ہیں۔ سیاستدان تو جنرل ضیاءکی کابینہ میں وزیر ہو گئے۔ حکمران اور سیاستدان خواہ کوئی ہو لوگ بدقسمت ہی رہتے ہیں۔ کہا گیا کہ زمانہ پاﺅں سے زنگ آلود بیڑیاں اتار کر نئی چمک دار بیڑیاں پہنا دیتا ہے تو لوگ اُسے آزادی سمجھ لیتے ہیں۔
ایک وضاحت بھی یہاں ضروری ہے کہ برادرم امیر حمزہ کے کالم کا عنوان غلط شائع ہو گیا ہے۔ عنوان بہت بامعنی ہے ”غزہ سے غزوہ تک“ غزوہ وہ لڑائی ہے جس میں رحمتِ عالم، محسن انسانیت، رسول کریم حضرت محمد براہِ راست شرکت فرماتے۔ ایک حدیث غزوہ ہند کے لئے بھی ہے۔ اس میں پاکستان کا کیا کردار بھی ہو گا؟ پاکستان اب کیا کر رہا ہے؟ یہ سب اشارے امیر حمزہ کے کالم میں موجود ہیں۔ یہ میرے اس خدشے کی بھی تصدیق ہے کہ پاکستان کو لیبیا اور شام بنانے کی سازش کی جا رہی ہے۔ ہمارے اپنے اس سازش کا شکار ہیں۔
جاوید ہاشمی کی آزادی مارچ کے خلاف بغاوت اس موقع پر مناسب نہ تھی۔ اب اس کی بغاوت مشکوک ہو گئی ہے۔ میں اُسے دوست رکھتا ہوں۔ وہ سیاسی پارٹیوں میں غنیمت شخص کی طرح ہے۔ شاہ محمود قریشی آخر کامیاب ہو گیا اور تحریک انصاف ایک جنوئن سیاستدان سے محروم ہو گئی۔ وہ خاموشی سے بھی ملتان جا سکتا تھا۔ یہ بیان کیا ضروری تھا۔ اس نے ٹھیک فیصلہ کیا ہو گا مگر؟ انعام اللہ نیازی کو تحریک انصاف سے نکالا گیا تو کیا جاوید ہاشمی کو بھی نکالا گیا ہے۔ کیا اُسے شہباز شریف کی اس بات سے اتفاق ہے کہ عمران کو لوگ چھوڑ کر جا رہے ہیں۔
اس آدمی سے سیاست کے میدان میں ڈرنے کی کیا ضرورت ہے جو کھیل کے میدان میں بھی مارشل لاءلگا کے رکھتا تھا۔ جس کے ذہن و دل میں آمریت سمائی ہوئی ہے وہ لوگو ںکو کیا دے گا؟ اس سے گھبرانے والے لوگ خود کیا ہیں۔ ایسے اقدامات نہ کئے جائیں جو غیر جمہوری ہوں اور غیر سیاسی ہوں۔ وہ یہ سوچیں کہ آخر اُن کے خلاف یہ سب کچھ کیوں ہو رہا ہے۔ عمران کے دل میں جو کچھ سے اُس سے اتفاق نہیں ہے مگر لوگوں کے دل میں کیا ہے؟ ہماری سیاست میں نفرت اور محبت گڈ مڈ ہو گئی ہے۔ میں نے حکمران اور لیڈر میں فرق بیان کیا تھا تو کرنل ضرار نے لیڈر کا ایک تعارف مجھے بھیجا ہے جو اگلے کسی کالم میں شامل کروں گا۔