آزادی ہمارا جانا پہچانا لفظ ہے۔ ہم میں سے ہر شخص اس لفظ کا اپنا ذاتی ڈکشن اور فلسفہ رکھتا ہے۔ میرے ناچیزمشاہدے کے مطابق ہماری انفرادی اور اجتماعی آزادی اس وقفے کا نام ہے جو قربانی کے بکرے کو ذبح ہونے سے عین چند لمحے قبل اتفاقاً رسی کھل جانے سے نصیب ہو جاتی ہے۔ اگر اس حالت میں بکرے سے آزادی کا مفہوم پوچھا جائے تو وہ یقیناً یہی کہے گا جناب آزادی کا مطلب یہی دو چار کدکڑے ہیں جو میں نے ابھی لگائے ہیں۔ آپ ان معانی میں اپنی قوت خرید کے مطابق وسعت پیدا کرلیں اور بکرے کی جگہ سانڈ‘ بیل یا اونٹ کا تصور باندھ لیں۔ بعض اوقات تو قربانی کا بیل مالک اور اس کے ساتھیوں کو سینگوں پر اٹھا کر زمین پر پٹخ دیتا ہے گویا آزادی کا جشن گاڑھا ہو کر مہلک بھی ہو جاتا ہے۔ مگر میرا خیال ہے ہم یہاں آزادی کے مجرد حیوانی تصور سے ذرا اونچی سطح پر گفتگو کرنے بیٹھے ہیں کیونکہ علم و دانش کے دریائوں اور سمندروں میں غوطہ زن ہو جانے کے بعد ہماری کھال پر سے بے حسی کے زیادہ تر بال جھڑ گئے ہیں اور چمڑی کچھ حساس ہو گئی ہے۔ ظاہر ہے ہمارا تصور آزادی کچھ ارفع و اعلیٰ ہو جانا چاہئے۔ علامہ اقبالؒ کے جدید نوجوانوں کا شیوہ یوں ہے کہ جھنڈا لگے موٹر سائیکل سے سائلنسر نکال کر ون ویلنگ کی جائے اور ستاروں پر کمند ڈالی جائے چاہے ستارے آسمان پر ہوں یا زمین پر چل پھر رہے ہوں۔ نگاہ اور ٹونے ٹوٹکے کے دھاگے کی کمندر سے لے کر پولیس کی ہتھ کڑی تک سب کمندیں جشن آزادی کا حصہ ہیں اس جشن کی خوشی میں دیسی گھی کی مٹھائی‘ کڑاہی گوشت اور دیگر لمحیاتی و تبخیری مشروبات اور اقوام جن میں بلند فشار خون‘ ذیابیطس ‘ ہیپی ٹائیٹس یرقان ہر قسم کے وافر امکانات ہوتے ہیں کا اہتمام کرنے کے لئے جن اضافی فنڈز کی ضرورت پڑتی ہے اس کے لئے روٹین کی آمدنی سے علیحدہ ذرائع کا انتظام کرنا پڑتا ہے۔ ملاوٹ‘ سمگلنگ ‘ فراڈ اور دیگر دو نمبر کاروبار کرنے والے اس تقریب سعید کیلئے اپنی شایان شان شوشاپر جو کثیر اخراجات کرتے ہیں ان مدات کا ذکر یہاں رنگ میں بھنگ کے مترادف ہو گا۔ ابھی چند روز قبل ٹی وی پر آئی ڈی پیز کے بارے میں رپوتاژ دکھائی گئی۔ ایک مہاجر اپنی تین زندہ ہشاش بیویوں اور چوتھی کی حسرت زندہ اور پینتیس چالیس بچوں کے ہمراہ مارچ پاسٹ کرتا دکھائی دیا۔ موصوف نے ٹافیوں کا پیکٹ تقسیم کرنے کے بجائے چھٹا دے دیا جسے دیکھ کر درگاہوں پر میلے کا سماں آنکھوں میں گھوم گیا۔ سو جشن آزادی تو اسی قسم کا میلہ ہی ہے۔ شاید آپ اپنے ذہن میں مجھ ناچیز کے بارے شک اور الزام باندھ رہے ہوں کہ اتنے بڑے موقع پر یہ عمومی سی گفتگو کر کے بندہ ٹرخانے کی جسارت کر رہا ہے اور جشن آزادی کی اہمیت اجاگر کرنے کاحق ادا نہیں کر رہا۔ یا کسی عالمانہ لچھے وار گفتگو کے ذریعہ سامعین کے جوش و جذبہ میں نفسیاتی مدھانی گھما کر روحانی انگڑائیوں کا پرلطف سماں نہیں باندھ رہا۔ تو اس ضمن میں اتنا عرض کروں گا اقبالؒ نے فرمایا تھا۔
دیار عشق میں اپنا مقام پیدا کر
نیا زمانہ نئے صبح و شام پیدا کر
خدا اگر دل فطرت شناس دے تجھ کو
سکوت لالہ و گل سے کلام پیدا کر
جناب عالی! آخر میں… قائداعظم کی بات! انہوں نے فرمایا ہندوستان کی تقسیم اس خدشہ کے سبب ضروری ہو گئی تھی کہ مسلمان انگریزوں کی غلامی سے نکل کر ہندو اکثریت کی غلامی میں آ جاتے۔
تاریخ گواہ ہے قائد‘ … ہندوستان کو اکٹھا رکھنے پر تیار تھے۔ ان پر دھرتی ماتا کی تقسیم کا الزام بے بنیاد ہے۔ اس نکتہ پر توانہوں نے ہندو لیڈروں سے زیادہ کام کیا۔ چونکہ بہت بڑے ماہر قانون تھے اس لئے انہوں نے مسلمانوں کے حقوق کے تحفظ کے لئے ناقابل ترمیم و شکست آئینی ضمانت کے طور پر کم از کم ایک تہائی سیاسی نمائندگی کا مطالبہ کیا۔ یہ بھی تاریخی حقیقت ہے کہ گاندھی نے یہ مطالبہ منظور کر لیا لیکن نہرو‘ پٹیل اور ان جیسے دیگر ہندو انتہا پسندوں نے اس گتھی میں ملفوف مسلمانوں کی بقا کو کڑوی گولی کہہ کر مسترد کر دیا۔ پھر ایک طویل جدوجہد کے نتیجے میں پاکستان بنا۔لاکھوں لوگ شہید ہوئے کروڑوں بے گھر ہوئے۔ آج ستر سال بعد تیسری اور چوتھی نسل کو یہ حقائق بتانے والے بھی گزرگئے۔ قائداعظم نے کہا تھا پاکستان دنیا بھر کے مسلمانوں کے تحفظ کی ضمانت ہوگا۔ مگر امن و امان اور حفاظت تو اس کے اندر بھی ناپید ہے ایسے حالات میں کیا ہم اقبالؒ اور قائداعظمؒ کے بنائے آئینے میں اپنا چہرہ دیکھنے کے قابل ہیں شاید نہیں۔
اگست کی شام جب ہم آزادی کے ہلوں گلوں اور چکا چوند سے تھک ہار جائیں تو چند لمحوں کے لئے اس آئینے میں ضرور اپنا چہرہ دیکھیں!
(یہ مضمون جشن آزادی کے سیمینار میں پڑھا گیا)