اِس 14 اگست کو؟

ملک میں ہر سال 14 اگست روایتی جوش و خروش اور پورے تزک و احتشام سے منایا جاتا ہے۔ قومی ترانے گائے جاتے ہیں اور سبز پرچموں کی بہار سی آ جاتی ہے۔ لوگ  سجدہ شکر بجا لاتے ہیں کہ اقبال کی فکری رہنمائی اور قائداعظم کی ولولہ انگیز قیادت میں انہیں ایک آزاد مملکت کا حصول نصیب ہوا تاہم اس 14 اگست کو ماحول میں ایک تلخی سی گھلی محسوس ہوتی ہے۔ سیاست میں ارتعاش پیدا ہو رہا ہے۔ افراتفری اور بھگدڑ سی مچی ہوئی ہے۔
 ملکی حالات کسی بھونچال کی زد میں لگتے ہیں۔ پکڑ دھکڑ، دھینگا مشتی اور دھکم اپیل اپنے عروج پر ہے۔ وفاقی دارالحکومت، پنجاب خصوصاً لاہور کو سیل کیا جا چکا ہے۔ لاہور میں حکمرانوں کی آبائی بستی ماڈل ٹائون ’’سب جیل‘‘ کا درجہ قرار پا چکی ہے۔ کنٹینروں اور خاردار تاروں کے ذریعے اسے مکمل طور پر بند کیا جا چکا ہے نہ کوئی اندر سے باہر جا سکتا ہے اور نہ ہی باہر سے اندر آنا ممکن رہا ہے۔ یہ سارے ’’انتظامات‘‘ طاہر القادری اور عمران خان کے اعلان کردہ ممکنہ لانگ مارچ کو روکنے کیلئے کئے گئے ہیں جن کو ہر دو حضرات گرامی نے ’’انقلاب‘‘ اور ’’آزادی‘‘ کے ناموں سے موسوم کر رکھا ہے۔ عمران خان کو حکومت اور ’’انتظامیہ‘‘ سے شکایت ہے کہ انہوں نے انتخابات میں زبردست دھاندلی اور دھونس سے کام لیا اور ایک غیر نمائندہ جماعت کو اقتدار ’’نواز‘‘ دیا گیا۔ پہلے پہل وہ چار حلقوں کو کھلونے کا مطالبہ کرتے رہے جو بعد ازاں دس، بیس حلقوں سے ہوتا ہوا۔ پورے انتخابات پر محیط ہو گیا اب وہ پورے انتخابی عمل کو مشکوک اور جعلی قرار دیتے ہوئے دوبارہ اسی عمل کو دہرانے پر مُصر ہیں اور اس کیلئے اپنا احتجاج بذریعہ لانگ مارچ ریکارڈ کروانا چاہ رہے ہیں جبکہ طاہر القادری اس سارے سیاسی اور انتخابی عمل بھی کو ماننے سے انکاری ہیں اور ایک ایسے انقلاب کے داعی بن کے سامنے آئے ہیں جو اس بوسیدہ اور ازکار رفتہ سیاسی اور سماجی عمل کو مکمل طور پر لپیٹ کے رکھ دے اور بقول اُن کے ایک ایسا ’’نظامِ نو‘‘  وضع کیا جانا چاہئے جس میں جاگیر داروں، سرمایہ داروں، مذہبی اجارہ داروں اور کرپشن مافیا کے لوگوں کیلئے کوئی جگہ نہ ہو جبکہ عام لوگوں، مزدوروں اور کمزوروں کو روزگار اور تحفظ کی ضمانت اس نظام کی اولین خوبی ہو۔ اب سوال یہ ہے کہ یہ سب کچھ کیسے ہو گا۔ کسی قانون اور قاعدے کے تحت کہنہ نظام کو تلپٹ کیا جائے اور ’’نظامِ نو‘‘ کو وضع کیا جائے گا۔
 لگتا ہے کہ شاید اس ضمن میں قادری صاحب بھی ’’کلیئر‘‘ نہیں ہیں تاہم یہ بھی غنیمت ہے کہ کسی نے اس بوسیدہ، فرسودہ اور استحصالی نظام سے جان چھڑانے کی بات تو کی۔ اب سوال یہ ہے کہ یہ سارا احتجاج اور لانگ مارچ پُرامن ہونا اور رہنا چاہئے۔ ورنہ یہ انقلاب کی جگہ انارکی اور بدامنی پھیلانے کا سبب بنے گا مشتعل ’’ہاکس‘‘ نے حکومت کو ’’پوائنٹ آف نو ریٹرن‘‘ پر لا کھڑا کیا ہے وگرنہ کم از کم عمران کے مطالبات تو بروقت تسلیم کئے جا سکتے تھے اور کم از کم وہ تو اس 14 اگست کو آمادہ جنگ نظر نہ آتے اور باقی رہے طاہر القادری تو انہیں بھی جائے اشتعال دلانے کے ’’سمجھایا بجھایا‘‘ جا سکتا تھا تاہم بُرا ہو حکومتی ’’عقابوں‘‘ کا جنہوں نے ایسا نہ ہونے دیا اور یوں اس 14 اگست کو بدمزہ اور داغدار کر دیا۔

ای پیپر دی نیشن