4 اگست پاکستان کا یوم آزادی ہے مگر اس بار یہ سیاستدانوں کی ’’آزادی‘‘ کا دن ہو گا اور ایام کی طرح 14 اگست بھی گزر جائے گا مگر اس کے بعد کیا ہو گا۔ اس سوال کا جواب یقیناً اہمیت کا حامل ہے۔ اس حوالے سے سیاسی صورتحال کا تجزیہ کرتے ہوئے عام خیال یہ تھا کہ علامہ طاہر القادری بھی جانب اسلام آباد پیشقدمی کریں گے۔ اس بنا پر تشویش کا پہلو بھی عیاں تھا۔ اگر عمران خان کے سونامی کے ہمراہ طاہر القادری کا طوفان بھی شامل ہو گیا تو کیا ہو گا؟ کیا دارالحکومت میں احتجاج کوئی عجیب مناظر پیش کرے گا۔ اب اس معاملے میں تو بظاہر اطمینان کی کیفیت پیدا ہوئی ہے۔
یوں بھی حکومت لاہور سے نہیں اسلام آباد سے خوفزدہ ہے۔ عمران خان کے حوالے سے صورتحال واضح ہے۔ اُن کی نظر بندی کے امکانات ہیں۔
سیاستدان کیا چاہتے ہیں سب کو پتہ ہے۔ مگر میاں نواز شریف اب تجربہ کار کھلاڑی ہیں۔ میاں نواز شریف کا مارچ اس لئے کامیاب ہوا کہ فوج درمیان میں آ گئی تھی۔ دیانتداری سے جائزہ لیجئے اب کیا صورتحال ہے۔ آپ فوج کو کیسے قائل کریں گے کہ محض ایک برس گزرنے کے بعد الیکشن کرائے جائیں۔ اس صورتحال میں جبکہ فوج خود شمالی وزیرستان میں مصروف ہے، مداخلت کا فیصلہ کیسے کر سکتی ہے۔ صاف بات ہے کہ فوج راضی نہ ہو تو اسلام آباد کا لانگ مارچ محض بیکار بات ہے۔ فوج عوام پر ہاتھ نہیں اٹھائے گی یہ سب کو پتہ ہے مگر فوج نواز حکومت کو بھی اٹھا کر پھینکنے پر آمادہ نہیں ہو گی۔
حقیقت یہ ہے کہ اسلام آباد کے مارچ کے حوالے سے عمران خان اور اُن کے ساتھیوں نے زمینی حقائق کو نظر انداز کر کے غلط فیصلہ کیا ہے۔ مارچ سے کوئی مقصد حاصل نہیں ہو گا۔ عمران خان جائیں گے اور واپس آ جائیں گے۔ لاہور کے وزیراعظم کو کیوں جلد رخصت کیا جائے۔ مصر میں جو ہوا اس کا نتیجہ خون خرابے اور قتل و غارت کی صورت میں ظاہر ہوا ہے۔ سامنے اخوان المسلمین جیسی جماعت ہے۔ یہ سیاست ہے کرکٹ نہیں ہے۔ عمران خان نے بظاہر عجلت اور ناتجربہ کاری کا مظاہرہ کیا ہے۔ 14 اگست کو میاں نواز شریف ’’مردِ بحران‘‘ بن کر ابھریں گے۔
14 اگست کے بعد؟
Aug 14, 2014