حقیقت اور سچ کو جانیئے جھوٹ کو پہچانیئے

الیکشن 2013ءمیں عوام کی بھاری اکثریت نے محمد نواز شریف کو اپنا وزیراعظم منتخب کیا۔ پاکستان مسلم لیگ (ن) کے منشور میں انرجی، اکانومی، ایکسٹریمیزم اور ایجوکیشن پر مشتمل (فور ایز)کو ترجیحات میں رکھا گیا۔ حکومت میں آتے ہی تیز رفتاری کیساتھ ان وعدوں کی تکمیل کیلئے کام شروع کر دیا گیا اور ایک سال کے قلیل عرصے میں ہی قوم کے سامنے مثبت نتائج آنا شروع ہوئے۔ مفاد پرست لوگوں کی آنکھوں میں مسلم لیگ (ن) کی یہ کامیاب پیش رفت کھٹکنے لگی۔ انہیں اندازہ ہو گیا کہ اگر ترقی کا سفر یونہی جاری رہا تو قوم کے اعتماد میں اضافہ ہوتا رہے گا۔ ان ترقیاتی منصوبوں کی تکمیل کے بعد کوئی دوسری جماعت مسلم لیگ (ن) کو شکست نہیں دے سکتی۔
عمران خان کی جماعت کو خیبر پختونخواہ میں اکثریت حاصل ہوئی مگر وہ کوئی قابل ذکر کارکردگی نہ دکھا سکی۔اس ہزیمت کو چھپانے کیلئے انہوں نے سیاسی ہنگامہ آرائی کا سہارا لیا۔تاکہ وفاقی حکومت کی توجہ ترقیاتی منصوبوں سے ہٹ کر سیاسی ماحول کو بہتر بنانے میں لگ جائے۔ترقیاتی کام رک جائیں اور قوم ان کے ثمرات سے محروم رہے۔
کینیڈا سے آنیوالے مہمان محترم جنہیں پاکستان کے عوام نے پارلیمنٹ میں نمائندگی کا موقع نہیں دیا۔ خود ساختہ نمائندہ بن کر مطالبات پیش کررہے ہیں۔اور شدت پسندی کیساتھ اپنے کارکنوں کو حکومت اور مملکت کیخلاف اکسا رہے ہیں۔ان کے خیال میں پورے نظام کو جڑ سے اکھاڑ کر پھینک دینا چاہیے ۔اس کے بعد کیا ہوگا وہ خود بھی نہیں جانتے۔عوام کو گمراہ کرکے وہ کس کی خدمت کر رہے ہیں۔ یہ سوال حل طلب ہے؟
جہاں تک انتخابی اصلاحات لانے کا معاملہ ہے تو یہ بات ریکارڈ پر موجود ہے کہ سب سے پہلے مسلم لیگ (ن) کے راہنمااسحق ڈار نے یہ معاملہ اٹھایا تھا اور اس سلسلے میں انہوں نے قابل عمل تجاویز تیار کررکھی ہیں۔مگر عمران خان صاحب حقیقت سے ہٹ کر خودساختہ مفروضوں پر عوام کو گمراہ کرنے کی کوشش کررہے ہیں۔اس لیے عوام کی توجہ کیلئے کچھ حقائق پیش کیے جاتے ہیں۔
٭غیر جانبدار عالمی اداروں کی رپورٹ کے مطابق الیکشن 2002ءاور 2008ء کے مقابلے میںالیکشن 2013ءزیادہ شفاف تھے۔
٭پاکستان مسلم لیگ (ن)یا عدلیہ بطور ادارہ کسی بھی دھاندلی میں ملوث نہ تھی۔
٭الیکشن ٹربیونل نے 410 پٹیشن میں سے 292 (73 فیصد) کا فیصلہ کر دیا ہے۔ تحریک انصاف کی 58 پٹیشنوں میں سے صرف 19 پٹیشن کا فیصلہ زیر سماعت ہے۔ جبکہ 39 کا فیصلہ ہو چکا ہے۔
٭تحریک انصاف کے حلقہ 110 سیالکوٹ (Petition 344) خواجہ آصف vs عثمان ڈار میں مدعی (پٹیشنز) عثمان ڈار امیدوار تحریک انصاف متواتر عدالتی کارروائی سے غیر حاضر رہا۔ اور ہر بار‘ امریکہ میں ہونے کا جواز بنا کے دھاندلی کا کوئی بھی ثبوت پیش کرنے سے قاصر رہا۔ اور کیس خارج کروا دیا۔
٭ کراچی کے صوبائی حلقہ نمبر93 PS سے حفیظ الرحمن ممبر صوبائی اسمبلی سندھ‘ امیدوار تحریک انصاف‘ دھاندلی میں ملوث ہونے کی وجہ سے صوبائی ممبر کی سیٹ سے نااہل ہوئے۔ عمران خان ان کے خلاف کارروائی کیوں نہیں کرتے؟
٭ دھاندلی کے الزامات‘ مگر حقیقت کوئی نہیں ثبوت کوئی نہیں، تحریک انصاف کی بیشترپٹیشنز 58) میں سے (39 ثبوت نہ ہونے کے سبب خارج ہوئیں ۔تحریک انصاف ثبوت لیکر سپریم کورٹ جانے کی بجائے سڑکوں پر آکر ملکی سلامتی کو خطرے سے دوچار کرنے کے عمل میں مولانا طاہر القادری ،چوہدری شجاعت،پرویز الہٰی،شیخ رشیداور مشرف کی ٹیم کا آلہ کار کیوں بن رہی ہے۔
٭ 35 حلقے جن میں پی ٹی آئی 5000 ووٹ کے کم فرق کی جیت پر پنکچر لگانے کا الزام لگاتی ہے، اُسکی حقیقت خود عمران خان کے جھوٹ کو ثابت کرتی ہے۔ اِن 35 میں سے 9 حلقے مختلف جماعتوں/ آزاد اُمیدواروں نے اور 7 خود عمران خان کی پی ٹی آئی نے جیتے ہیں۔
 ٭ عمران خان بڑی تعداد میں ووٹ مسترد کئے جانے کو اپنی شکست کی کئی وجوہات میں سے ایک وجہ بتاتے ہیں۔ انتخابات کی نگرانی کرنے والے غیر سرکاری ادارہ فری اینڈ فیئر الیکشن نیٹ ورک (فافین) کی رپورٹ کے مطابق بلوچستان میں مسترد کئے جانے والے ووٹوں کی تعداد کل ڈالے گئے ووٹوں کی تعداد کے لحاظ سے سب سے زیادہ تھی جہاں پر 5.9فیصد ووٹ مسترد ہوئے اس کے بعد سندھ میں 3.9فیصد ¾ خیبر پختوانخوا میں 3.2 فیصدووٹ مسترد ہوئے جبکہ پنجاب میں کل ڈالے جانے والے ووٹوں میں سے سب سے کم ووٹ مسترد ہوئے جہاں پر مسترد ہونے والے ووٹوں کی تعداد 2.9فیصد تھی ۔ اس سے عمران خان کے مسترد شدہ ووٹوں کے باعث انتخابات میں دھاندلی اور جعلسازی کی دلیل جھوٹی اور غلط ثابت ہو جاتی ہے ۔
٭عبوری حکومتیں‘ سابقہ حکومت پاکستان پیپلز پارٹی (PPP) کی منتخب کردہ تھیں جن کو دیگر پارٹیوں کے مشورے سے مقررکیا گیا تھا۔ پنجاب میں عبوری حکومت قائم ہوتے ہی تمام سرکاری اہل کار بد ل دیئے گئے تھے۔ چیف سیکریٹری سے لیکر ایس ایچ او / پٹواری تک، پی ایم ایل (ن) کے مخالف لگائے گئے۔
٭چیف الیکشن کمشنر (فخرو بھائی) کا تقرر عمران خان کے مشورے سے ہوا۔
٭عمران خان نے الیکشن 2013ءکے نتائج تسلیم کرنے کا اعلان کیا۔ پی ایم ایل (ن) نے آزاد اُمیدوارں اور جے یو آئی (ف) کو حکومت بنانے سے منع کیا اور پی ٹی آئی کے مینڈٹ کا احترام کیا۔
٭پاکستان مسلم لیگ (ن) کسی قسم کی دھاندلی میں شریک نہیں۔ وہ صرف شفاف عمل کو سپورٹ کرتی ہے اور اعلیٰ عدلیہ‘ الیکشن کمیشن ،تمام سیاسی پارٹیوں اوردیگر اداروں کے ہر ایسے اقدام کی پوری حمایت کرتی ہے جس سے الیکشن اور انصاف کا عمل بہتر سے بہتر ہو سکے۔
٭Reforms Electoral کے لئے 33 رکنی کمیٹی بنا دی گئی ہے اور اس میں تمام جماعتوں کی نمائندگی یقینی بنائی جائے گی۔ اب تک 22 نشستوں کے نام آچکے ہیں۔ جبکہ 11 نشستوں کے نام آنے ہیں۔ اس کمیٹی میں 3 نشستیں تحریک انصاف کی ہیں۔ اس کمیٹی کا قیام انتخابی اصلاحات کو بروئے کار لانا ہے اور 2013ءکے انتخابات کو صاف اور شفاف بنانا ہے۔
٭ آج ہمارے ملک کو قومی اتحاد اور سیاسی استحکام کی سب سے زیادہ ضرورت ہے۔ تاکہ ملک سے دہشتگردی کا مکمل خاتمہ ہو، معاشی ترقی ہو اور عوام کی بہتری کیلئے اقدامات جاری رہ سکیں۔ مگر عمران خان اور طاہر القادری سیاسی مہم جوئی کے ذریعے انتشار پھیلانا چاہتے ہیں۔ جس سے قومی مفادات کو نقصان کا خدشہ ہے اور پاکستان کا امیج دنیا میں خراب ہو رہا ہے۔ آئیے 14 اگست کے دن علامہ اقبال اور قائداعظم کے پاکستان کی تعمیرو ترقی کے لئے اپنی صلاحتیں بروئے کار لانے کا عہد کریں۔ پاکستان کو مضبوط اور پرامن بنائیں۔ وطن عزیز کی حفاظت کے لیے افواج پاکستان کے کندھے سے کندھا ملا کر اظہار یکجہتی کریں۔ اور اپنے شہیدوں کو سلام پیش کریں ۔جن کے لہو سے آزادی کا سورج طلوع ہوا۔ آئیے پاکستانی عوام کو خوشیاں دیں۔ بجلی، مہنگائی،بے روزگاری کے مسائل حل کریں۔اور پاکستان کومتحدہ جدوجہد سے امن کا گہوارہ بنائیں۔

ای پیپر دی نیشن