لاہور + اسلام آباد (وقائع نگار خصوصی + وقائع نگار) لاہور ہائیکورٹ کے فل بنچ نے تحریک انصاف اور عوامی تحریک کو اسلام آباد میں کسی بھی غیر آئینی آزادی مارچ اور انقلاب مارچ یا دھرنے سے روک دیا ہے۔ فل بنچ نے مختصر فیصلے میں قرار دیا کہ ملک کی غیر یقینی صورتحال، انتشار اور یوم آزادی کے تقدس کے پیش نظر فاضل عدالت نے یہ فیصلہ دیا۔ فل بنچ نے سماعت کا آغاز کیا تو تحریک انصاف کے وکیل سے کہا کہ اگر عمران خان کو اسلام آباد میں مخصوص مقام پر احتجاج کے لئے دس یوم دے کر پولیس کو کارروائی سے روک دیا جائے تو کیا وہ اس پیش کش سے فائدہ اٹھانے کے لئے تیار ہیں۔ عدالت نے وکیل کو ہدایات لے کر دوبارہ پیش ہونے کا حکم دیا۔ احمد اویس نے عدالت کو آگاہ کیا کہ انکی عمران خان سے بات ہوئی ہے وہ بیان حلفی دینے کو تیار ہیں کہ زیرو پوائنٹ سے کشمیر چوک تک جانے دیا جائے آزادی مارچ میں امن و امان کے مسائل پیدا نہیں کریں گے۔ جعلی مینڈیٹ سے آنے والی حکومت کو تسلیم نہیں کرتے وزیر اعظم کے استعفی کے بغیر شفاف انکوائری ممکن نہیں ہے۔ اٹارنی جنرل نے کہا کہ ملک حالت جنگ میں ہے ان حالات میں آزادی مارچ ملکی سلامتی کو دائو پر لگا سکتا ہے۔ عمران خان نے وزیر اعظم کے خطاب کے بعد میڈیا سے گفتگو میں باغیانہ خیالات کا اظہار کیا، تحریک انصاف کسی الیکشن کمشن، سپریم کورٹ اور ہائیکورٹ پر یقین نہیں رکھتی، عمران خان کہتے ہیں جو میں کہتا ہوں بس وہی ٹھیک ہے۔ جس پر عدالت نے عمران خان کی تین مئی کو نجی چینل پر نشر ہونے والے انٹرویو کا ریکارڈ اور گذشتہ روز میڈیا سے ہونے والی گفتگو کا ریکارڈ بھی طلب کر لیا۔ اے کے ڈوگر نے کہا کہ لندن میں ہائیڈ پارک میں لوگ احتجاج کرتے ہیں مگر ہمارے یہاں احتجاج کے نام پر سڑکیں بند کر دی جاتی ہیں۔ جسٹس خالد محمود نے کہا کہ کیا حکومت آزادی مارچ کے شرکا کو لاہور یا راولپنڈی کے کسی سٹیڈیم میں جگہ فراہم کر سکتی ہے۔ اٹارنی جنرل نے کہا کہ اس حوالے سے تحریک انصاف نے حکومت کو کوئی درخواست نہیں دی۔ جسٹس شاہد حمید ڈار نے کہا کہ وزیر اعظم نے اپنی تقریر میں کمشن بنانے کی اتنی بڑی پیشکش کی اس سے کیوں فائدہ نہیں اٹھایا جا رہا۔ عمران خان کے وکیل احمد اویس نے کہا کہ دھاندلی کے ذریعے آنے والی حکومت جب تک موجود ہے کسی کمشن کی کوئی حیثیت نہیں ہے۔ مسٹر جسٹس خالد محمود خان نے کہا کہ عمران خان یہ تو بتائیں کہ اسلام آباد میں کتنے دن اور کہاں پڑائو کرنا ہے۔ اگر مارچ میں طالبان گھس گئے تو کون ذمہ دار ہے۔ عدالت نے ریمارکس میں کہا ہے کہ احتجاج ضرور کریں مگر اسے وزیر اعظم اور پارلیمنٹ ختم کرنے سے مشروط نہ کیا جائے۔ اٹارنی جنرل نے کہا کہ عدالت آزادی مارچ کو روکنے کا حتمی حکم صادر کرے، حکومت کا آدھا بجٹ اس وقت حفاظتی اور انتظامی معاملات پر خرچ ہو رہا ہے۔ تحریک انصاف مصر کی طرح ملک میں خون خرابہ کرنا چاہتی ہے۔ عدالتی حکم پر وزیر اعظم کے گذشتہ روز قوم سے ہونے والی تقریر اور عمران خان کے نجی چینل پر نشر ہونے والے انٹرویو کو پروجیکٹر کے ذریعے فل بنچ کو دکھایا گیا۔ اے کے ڈوگر نے کہا کہ انہیں راولپنڈی یا اسلام آباد کے سپورٹس سٹیڈیم تک جانے کی اجازت دے دی جائے۔ جسٹس خالد محمود نے کہا کہ ایک طرف سپریم کورٹ کے ججز پر مشتمل کمشن بنانے کا مطالبہ کیا جاتا ہے اور دوسری طرف اسے تسلیم نہیں کیا جاتا یہ سپریم کورٹ کے خلاف توہین عدالت کے مترداف ہے۔ جسٹس شاہد حمید ڈار نے کہا کہ اگر تحریک انصاف کو وزیر اعظم پر اعتماد نہیں تو اسمبلی میں عدم اعتماد کی تحریک کیوں نہیں لاتے، ایک طرف آپ آزادی مارچ کی بات کرتے ہیں اور دوسری طرف اسمبلیوں سے تنخواہیں اور مراعات لے رہے ہیں مگر استعفے تک دینے کو تیار نہیں ہیں۔ مصر میں بھی آزادی مارچ والے تحریر چوک کو اب خونی چوک کے نام سے یاد کیا جاتا ہے۔ دوسری جانب جسٹس محمود احمد بھٹی کی سربراہی میں تین رکنی فل بنچ نے صوبہ بھر میں لگائے گئے کنٹینرز فوری طور پر ہٹانے، پٹرول کی فراہمی یقینی بنانے اور سیاسی کارکنوں کی غیرقانونی گرفتاریوں سے روکنے کا حکم دیتے ہوئے قرار دیا کہ پرامن احتجاج ہر شہری کا آئینی حق ہے جس پر محض الزامات کی بنیاد پر پابندی نہیں لگائی جا سکتی۔ ملک کا آئین چیخ چیخ کر کہہ رہا ہے کہ مجھ پر عمل کرنا بھی ہے کہ نہیں؟ ایک شخص کے بیانات کی بنیاد پر پورا شہر بند کر دیا گیا۔ عدالتیں شہریوں کے بنیادی حقوق کی محافظ ہیں۔ سکیورٹی کے نام پر شہریوں کے بنیادی حقوق متاثر ہونے دیں گے نہ انہیں سلب کرنے کی اجازت دی جا سکتی ہے۔ فاضل عدالت نے سی سی پی او کے سکیورٹی پلان کو کالعدم قرار دیتے ہوئے کہا کہ شہر کو کسی تحریری آرڈر کے بغیر سیل کرنے کی اجازت نہیں دی جا سکتی۔ عدالت نے تحریک انصاف کی درخواستیں منظور کرتے ہوئے بین الاضلاعی داخلی اور خارجی راستوں پر رکھے گئے کنٹینرز بھی ہٹانے کا حکم دے دیا۔ فاضل عدالت نے قرار دیا کہ انتظامیہ یہ بتانے میں ناکام رہی ہے کہ کس قانون کی بنیاد پر شہروں کو سیل کر دیا گیا۔ آئی جی پنجاب کنٹینرز کا حکم دینے کے سوال کا جواب دینے میں ناکام رہے اور یہ بھی کہا کہ ان کو مختلف اضلاع میں کنٹینرز کی تعداد کا علم نہیں ہے۔ عدالت نے قرار دیا کہ آپ کس طرح کے لا علم آئی جی ہیں جس کو کنٹینرز کی تعداد کا بھی علم نہیں۔ حکومت نے ایسے آئی جی کو کیسے تعینات کر دیا جس کی کوئی کوآرڈینیشن ہی نہیں۔ اس پر آئی جی نے کہا کہ 200 کے قریب افسر اور اہلکار زخمی ہوئے اسی لئے ہر ضلع کی پولیس نے پرتشدد واقعات کے بعد حفاظت کیلئے اقدامات کئے۔ عدالت نے آئی جی کے جواب پر حیرت ظاہر کرتے ہوئے قرار دیا کہ اگر انہوں نے کوئی سخت بات کی تو وہ میڈیا کے ہاتھ میں آ جائے گی۔ اس پر آئی جی نے انتہائی پریشانی کے عالم میں کہا کہ اگر اس کی کارکردگی سے حکومت مطمئن نہیں توکوئی اور آئی جی لگا دیا جائے۔ عدالت کے حکم پر سی سی پی او نے اخبارات میں شائع سکیورٹی اشتہار پیش کئے مگر فاضل عدالت کو یہ بتانے میں ناکام رہے کہ کس کے حکم پر کنٹینرز کھڑے کئے گئے۔ آئی جی نے جب عدالت سے کہا کہ شہریوں کیلئے آمدورفت کا کوئی مسئلہ نہیں تو عدالت نے قرار دیا کہ آپ آئی جی ہیں آپ کو تو کوئی مسئلہ نہیں مگر شہری بیچارے رینگنے پر مجبور ہیں۔ جب ملک کے چیف ایگزیکٹو کہہ رہے ہیں کہ ان کو پرامن احتجاج پر اعتراض نہیں تو سڑکیں کیوں بند کی گئیں۔ یہ معاملہ اتنا اہم ہے کہ اس کو نظرانداز نہیں کیا جا سکتا۔ عدالت نے ایڈووکیٹ جنرل سے استفسار کیا کہ کیا صوبے میں ایمرجنسی کا نفاذ ہو گیا ہے۔ ایڈووکیٹ جنرل نے اس سے انکار کیا۔ ہائی کورٹ کے فل بنچ نے پنجاب حکومت کی طرف سے کنٹینر ہٹانے کے فیصلے کے خلاف دائر نظرثانی کی درخواست میں 15 اگست کیلئے فریقین کو نوٹس جاری کرتے ہوئے سماعت ملتوی کردی۔ اسلام آباد ہائی کورٹ نے وفاقی دارالحکومت میں احتجاج اور دھرنوں کے لئے علیحدہ جگہ مختص کرنے کے حوالے سے دائر درخواست پر وزارت داخلہ سے جواب طلب کرلیا ہے جبکہ راستوں کی بندش کے خلاف تحریک انصاف کی درخواست پر سیکرٹری داخلہ، آئی جی اور چیف کمشنر اسلام آباد سے کمنٹس طلب کرلئے ہیں۔
ہائیکورٹ/ مارچ