آزادی اور انقلاب مارچ کے شور شرابے میں وطنِ عزیز کے 68ویں یومِ آزادی سے ایک روز قبل شائع ہونیوالی ایک باکس آئٹم خبر نے تو میرے اوسان ہی خطا کر دئیے ہیں۔ پہلے میں پریشان تھا کہ بانیانِ پاکستان قائد اقبال نے جس جمہوری سوچ، طرزعمل اور نظام کے تحت اور جس جمہوری نظام کیلئے برصغیر کے مسلمانوں کی عظیم اور پُرامن جدوجہد کے نتیجہ میں ایک الگ آزادو خودمختار مملکت پاکستان کا قیام یقینی بنایا تھا اس کے 68ویں یومِ آزادی پر وطن عزیز کو اسی جمہوری نظام سے محروم کرنے کیلئے ایڑی چوٹی کا زور لگایا جا رہا ہے۔ خدا خیر کرے۔ میں عمران خان اور طاہرالقادری کی سوچ، طرزِعمل، پالیسی اور اقدامات کا جائزہ لیتا کڑھتا رہا کہ جمہوریت کا سواستیاناسکرنے کا ایجنڈہ ان کے ہاتھ تھمانے والے اس ارضِ وطن کو کہاں لے جانا چاہتے ہیں۔ پھر برصغیر کے مسلمانوں کیلئے الگ ارضِ وطن کی سوچ بیٹھے بٹھائے پیدا نہیں ہوئی تھی بلکہ استحصالی انگریزوں اور ہندوؤں کے ہاتھوں زندہ درگور ہونے والے مسلمانوں کی حالت زار نے بھی انہیں الگ وطن کے حصول کی راہ اختیار کرنے پر مجبور کیا تھا جس کا مقصد ہندو کے مسلط کردہ اسی استحصالی نظام سے نجات حاصل کرکے اسلامی اقدارو نظریات کے مطابق باوقار آزاد چلن اختیار کرنے کا تھا تاکہ مسلمانوں کو جہاں مذہبی آزادی حاصل ہو وہیں ہندو کی غلامی میں بسنے والے مسلمان اقتصادی طور پر بھی مستحکم ہو سکیں اور ان کے روٹی روزگار کے مسائل بھی میرٹ، شفافیت اور شرفِ انسانیت کے تقاضوں کے عین مطابق حل ہوتے رہیں۔ یہ مقصد پورا ہو پایا؟ وطنِ عزیز کے 68ویں یومِ آزادی پر یہ تصورہی مجھے کچوکے لگا رہا ہے کیونکہ مسلمانوں کی اقتصادی ترقی کی خاطر جس استحصالی نظام سے نجات الگ ارضِ وطن کا مطمع نظر تھا وہ استحصالی نظام برقرار ہی نہیں رہا بلکہ گھمبیر سے گھمبیر تر ہوتا گیا ہے۔ آج یومِ آزادی سے ایک روز قبل اخبارات میں گوگیرہ کے ایک بدنصیب شخص کی خبر پڑھی تو میری سوچ ماؤف ہو گئی۔ اس بدنصیب آدمی نے غربت سے تنگ آ کر اپنے پانچ بچوں سمیت دریائے راوی میں کود کر خودکشی کر لی۔ یہ خبر پڑھتے ہوئے شاید ہم اس بدنصیب آدمی کے کرب کا اندازہ نہ کر پائیں جبکہ استحصالی معاشرے میں مسلط کی گئی اقتصادی محرومیوں نے ایڑیاں رگڑتے، سسکتے، زندہ درگور ہوتے، مجبورومقہور انسانوں کیلئے زندگی کے چلن کا کوئی دوسرا راستہ چھوڑا ہی نہیں۔ سو گوگیرہ کے بدنصیب محمد ہاشم کے علاوہ اسی روز لیاقت پور میں بھی ایک بدنصیب ماں نے اپنے جگر گوشوں کو بھوک سے بلکتا دیکھ کر برداشت نہ کرتے ہوئے اپنے دونوں بچوں سمیت نہر میں چھلانگ لگا کر دنیاوی جھمیلوں اور مصائب سے نجات حاصل کر لی جس استحصالی نظام اور اس کی مسلط کردہ غربت سے نجات کے لئے قائداعظم نے اقبال کے تصور کے عین مطابق آزادوخودمختار مملکت کا حصول یقینی بنایا تھا۔ اس آزادوخودمختار مادرِ وطن میں لوگ آج بھی بھوک، اقتصادی بوجھ، بیروزگاری اور ناروا مہنگائی سے عاجز آ کر اپنے معصوم بچوں کے گلے میں برائے فروخت کے بینر لٹکائے ہوئے انہیں بازاروں اور چوراہوں میں لا رہے ہیں اور جو اپنی اناپرستی کے باعث کسی کے آگے ہاتھ نہیںپھیلا سکتے۔ وہ خودکشیاں اور خودسوزیاں کرنے کی راہ اختیار کرنے پر مجبور ہیں۔ اپنے بچوں سمیت خودکشی کی سوچ اس معاشرے کے دکھی انسانوں کی مایوسیوں کی انتہا کی غمازی کرتی ہے مگر آئے روز کے ایسے واقعات پر کتنوں کے دل پسیجتے ہیں اور اقتدار کے ایوانوں میں کتنی ہلچل پیدا ہوتی ہے، ان کی بے حسی تو بے بس و مجبور انسانوں کی بے بسی پر بھی حاوی ہوتی نظر آتی ہے۔ پھر آج یومِ آزادی پر تھوڑا سا غور تو کیجئے کہ ہندو اور انگریز سے آزادی اور آزادوخودمختار مملکت کے حصول کے بعد ہمارے اب تک کے قائدین نے بانیانِ پاکستان کے متعین کردہ قیامِ پاکستان کے مقاصد کی تکمیل کیلئے کوئی کام کیا ہے یا ان مقاصد کو مٹانے کیلئے ایڑی چوٹی کا زور لگاتے ہوئے بے کس و محبور انسانوں پر استحصالی نظام کا شکنجہ مزید سخت کیا ہے۔ مجھے تو بچوں سمیت ڈوب مرنے والے گوگیرہ اور لیاقت پور کے بدنصیب والدین نے قیامِ پاکستان کے مقاصد کا مفہوم بخوبی سمجھا دیا ہے۔ باقی مفہوم جشنِ آزادی کے موقع پر عمران خان اور طاہرالقادری جمہوریت کا مردہ خراب کرنے کیلئے ایڑی چوٹی کا زور لگا کر سمجھا رہے ہیں۔ رہے نام اللہ کا۔ اگر ہماری ایسی قیادتوں نے ہی قائدواقبال کے پاکستان کو ان کی آرزوؤں اور امنگوں کے مطابق چلانے کی ذمہ داری سنبھالنی ہے تو پھر ہم بھرپائے۔ ذرا اندازہ لگائیے اس سوچ کا کہ نام سسٹم کی اصلاح کا لیتے ہیں اور جب ان کی خواہش اور مطالبے کے عین مطابق اصلاح کیلئے قدم اٹھایا جاتا ہے تو وہ بدک جاتے ہیں اور اعلان فرماتے ہیں کہ ہمیں تو بس وزیراعظم اور الیکشن کمشن کا استعفیٰ چاہئے۔ پھر ان کی زبان سے ٹیکنو کریٹس کی حکومت کی مچلتی خواہش بھی ادا ہو جاتی ہے تو پس منظر میں موجود ساری کہانی کی سمجھ آ جاتی ہے کیونکہ عمران خان کی اس خواہش کے اظہار کے ساتھ ہی اسلام آباد کے کسی محفوظ مقام پر ’’ٹیکنو کریٹس‘‘ کے ناموں کی فہرست ترتیب دئیے جانے کی افواہیں بھی گردش کر رہی تھیں۔
طاہرالقادری صاحب تو سیدھا سیدھا فسطائی، تخریبی
ایجنڈہ لے کر پاکستان وارد ہوئے ہیں جن کی اولین خواہش ملک اور عوام کو جمہوریت سے نجات دلانے کی ہے۔ یہ مقصد بھلا پاکستان دشمنوں کے سوا اور کسی کا ہو سکتا ہے کہ قیامِ پاکستان کا پس منظر اور اس کے مقاصد ہی گہنا دئیے جائیں۔ یہ تو سیدھی سیدھی ریاست اور اس میں رائج آئین و نظام سے بغاوت ہے۔ اگر کوئی پوری دیدہ دلیری کے ساتھ اس بغاوت کی راہ اپنا رہا ہے اور دوسروں کو اس راہ پر چلنے کیلئے اکسا رہا ہے تو دفعہ 6 کے پھندے میں صرف مشرف کی گردن ہی کیو؟۔ حکمران کمزوری دکھائیں گے، جیسا کہ وہ اب تک دکھا رہے ہیں تو ریاست سے بغاوت کی ترغیب دینے والوں کو تقویت پہنچائیں گے۔ یہ معاملہ ریاستی اتھارٹی کو چیلنج کرنے والے دہشت گردوں سے بھی زیادہ گھمبیر ہے اس لئے اب آپریشن والے گومگو کو قادری کیس پر لاگو نہ کریں ورنہ آپ کی کمزوری ریاستی اتھارٹی کی کمزوری بن جائے گی۔ رہا معاملہ عمران خان کا تو وہ اصلاح کی ہر تجویز پر میں نہ مانوں کی رٹ لگا کر اپنے اصل عزائم کو خود ہی بے نقاب کر رہے ہیں۔ اگر وہ ایک ماہ قبل مختلف ٹی وی چینلوں کو انٹرویو دیتے ہوئے خود یہ مطالبہ کر رہے تھے کہ چیف جسٹس ناصرالملک کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے تین یا چار ججوں کا جوڈیشل کمشن تشکیل دے کر انتخابی دھاندلی کی تحقیقات کرائی جائیں تو اب وزیراعظم نواز شریف کی جانب سے ان کا یہ تقاضا تسلیم کئے جانے پر تو انہیں مطمئن ہو جانا چاہئے تھا کہ یہ ان کی سیاست کی کامیابی ہے مگر انہوں نے تو چھلانگ لگاتے ہوئے جوڈیشل کمشن کی تشکیل سے پہلے وزیراعظم اور الیکشن کمشن کے استعفوں کا تقاضا کر دیا گویا وہ جرم کا سرزد ہونا انصاف کی عملداری کے بغیر ہی ثابت کر دینا چاہتے ہیں۔ پھر جوڈیشل کمشن کی تشکیل کی کیا ضرورت رہے گی۔ ان کی اس ضد نے تو ساری گیم پلان ہی طشت ازبام کر دی ہے جو جمہوریت کی اس گاڑی کو پٹڑی سے اتروانے کی ہے جس کے ذریعے اور جس کیلئے یہ وطنِ عزیز حاصل کیا گیا تھا۔ ان کی اس سوچ نے ہی ان کی حکومتی حلیف جماعت اسلامی کو ان سے دور کیا ہے اور ان کی پارٹی کے صدر مخدوم جاوید ہاشمی بھی بدک کر گھر جا بیٹھے ہیں تو پھر اے بندۂ خدا آپ یومِ آزادی کے موقع پر قوم کو کیا پیغام دینا چاہتے ہو۔ اگر ہمارے خودغرض سیاسی قائدین وطنِ عزیز کو ایک ایک کرکے اس کے مقاصد سے دور لے جاتے رہے تو وہ ملک کے ان دشمنوں کے آلہ کار کا ہی کردار ادا کریں گے جو آج بھی آزادوخودمختار پاکستان کو ایک حقیقت کے طور پر قبول کرنے پر آمادہ نہیں۔ خدارا اب اس ارضِ وطن کو گدِھوں کی طرح نوچنے کا سلسلہ ترک کر دیا جائے۔ آپ سیاست اس ملک کے نام پر کر رہے ہیں تو کدالیں اٹھا کر اس کی بنیادیں ہلانے میں کیوں لگے ہوئے ہیں۔ خدارا اس وطنِ عزیز کے باسیوں کو آزادی کی ٹھنڈی ہوا کا جھونکا بھی آنے دو ورنہ دم گھٹتے اس معاشرے پر قبرستان کا گمان ہو گا۔ پھر ذرا آپ سوچ لیجئے، کیا آپ قبرستان کے مجاور بننا چاہتے ہیں؟
ارضِ وطن کی آزادی اور قبرستان کے مجاور
Aug 14, 2014