علامہ اقبال اور حضرت قائداعظم ہمارے عظیم رہنما ہیں۔ دونوں کے دینی، قومی اور سیاسی نظریات میں مکمل ہم آہنگی پائی جاتی ہے جس کی اصل وجہ یہ ہے کہ دونوں کے سامنے برصغیر کی تاریخ کا یہ اہم ترین مسئلہ تھا کہ اس وسیع و عریض خطے میں مسلمانوں کے جان و مال اور ان کی ہزار سالہ تہذیب و تمدن کی حفاظت کیلئے کیا طریق کار اختیار کیا جائے۔قائداعظم حالات و واقعات کے تناظر میں فیصلہ کرتے اور قدم اٹھاتے۔ علامہ اقبال اپنی خداداد بصیرت کی بنا پر حادثات کا قبل از وقت ادراک کرتے اور مسلمانوں کی بقا کیلئے مناسب راستہ متعین کرتے۔ چنانچہ اس راہ میں علامہ اقبال کو پیشرو کی حیثیت حاصل ہے جس کا اعتراف قائداعظم نے علامہ اقبال کے نام اپنے مجموعہ خطوط کے دیباچہ میں مندرجہ ذیل الفاظ میں کیا ہے۔
’’میرے نزدیک یہ خطوط بے حد تاریخی اہمیت کے حامل ہیں۔ بالخصوص وہ خطوط جن میں اقبال نے مسلم ہندوستان کے مستقبل کے بارے میں اپنے خیالات کا نہایت واضح الفاظ میں اظہار کیا ہے۔ انکے خیالات مجموعی طور پر میرے تصورات سے ہم آہنگ تھے۔ ہندوستان کو جو آئینی مسائل درپیش تھے انکے گہرے مطالعہ اور غورو خوض کے بعد میں بھی آخر کار ان نتائج تک پہنچا جن تک سر اقبال پہلے ہی پہنچ چکے تھے اور یہ خیالات وقت گزرنے کیساتھ ساتھ مسلمانان ہند کے متحدہ عزم کی شکل میں ظاہر ہوئے اور آل انڈیا مسلم لیگ کی اس قرار داد کی صورت میں ڈھل گئے جو 23 مارچ 1940ء کو منظور ہوئی اور جسے قرار داد پاکستان کے نام سے یاد کیا جاتا ہے‘‘۔
آغاز کار میں علامہ اقبال اور قائداعظم دونوں ہندو مسلم اتحاد کیلئے نہایت اخلاص کے ساتھ فکرو عمل کے میدان میں کوشاں رہے۔ اقبال نے ترانہ ہندی اور نیا شوالہ جیسی نظمیں لکھیں اور نقش دوئی مٹانے کی کوشش کی۔ قائداعظم ’’ہندو مسلم اتحاد کے سفیر‘‘ کے لقب سے پکارے جاتے تھے۔ جب مسلمانوں کیخلاف ہندوئوں کی تعصب اور تشدد پر مبنی تحریکیں زور پکڑتی گئیں تو واضح ہو گیا کہ ہندو صرف ہندو راج قائم کرنا چاہتے ہیں اور وہ مسلمانوں کے حقوق کو کسی طرح کا تحفظ دینے کے حق میں نہیں تو علامہ اقبال اسی شدت کے ساتھ اسلامی روایات کی نشرو اشاعت اور تہذیبی اقدار کی بازیابی کیلئے سرگرم ہوگئے۔ انہوں نے اپنے شعرو سخن کا رخ مکمل طور پر اسلام اور اسلامی قومیت کی طرف معطوف کردیا، ترانہ ہندی کی جگہ ترانہ ملی لکھا اور کہا:
چین و عرب ہمارا، ہندوستاں ہمارا
مسلم ہیں ہم، وطن ہے سارا جہاں ہمارا
1928ء میں مسلمانوں نے نہرو رپورٹ کو مسترد کردیا ور 1929ء میں ہندوئوں نے قائداعظم کے چودہ نکات کو مسترد کردیا۔ 1930ء میں علامہ اقبال نے اسلامی قومیت کے تصور کو خطبہ الہ آباد میں نہایت واضح الفاظ میں پیش کیا اور کہا، ایک سبق جو میں نے تاریخ اسلام سے سیکھا ہے یہ ہے کہ آڑے وقتوں میں اسلام ہی نے مسلمانوں کی زندگی کو قائم رکھا، مسلمانوں نے اسلام کی حفاظت نہیں کی۔ اگر آج آپ اپنی نگاہیں پھر اسلام پر جمادیں اور اسکے زندگی بخش تخیل سے متاثر ہوں تو آپ کی منتشر اور پراگندہ قوتیں ازسر نو جمع ہو جائیں گی اور آپ کا وجود ہلاکت و بربادی سے محفوظ ہو جائیگا‘‘۔
علامہ اقبال نے واضح اور واشگاف الفاظ میں ہندوستان کے اندر آزاد اسلامی ریاست کا مطالبہ کرتے ہوئے کہا کہ میری خواش ہے کہ پنجاب، صوبہ سرحد، سندھ اور بلوچستان کو ایک ہی ریاست میں ملا دیا جائے اور انہیں تو شمال مغربی ہندوستان کے مسلمانوں کو آخر ایک منظم اسلامی ریاست قائم کرنی پڑیگی۔ یہ آزاد اسلامی ریاست ہندوستان میں مسلمانوں کے وجود کیلئے ناگزیر ہے۔
1937ء کے انتخابات کے بعد کانگرسی حکومت کے جابرانہ رویے نے آزاد اسلامی ریاست کے تصور کو مسلمانوں کیلئے ایک قطعی نصب العین کی شکل دے دی چنانچہ علامہ اقبال نے اپنی زندگی کے آخری دوسالوں میں قائداعظم کو 13 خطوط تحریر کئے اور ان میں اپنی 1930ء کی تجویز یعنی آزادی اسلامی ریاست کے مطالبے کے اعلان کیلئے ان سے اصرار کیا۔
23 مارچ 1940ء کو قرار داد پاکستان کے اعلان کے بعد قائداعظم نے فرمایا کہ آج ہم نے بعینہ وہ کردیا ہے جسکا مطالبہ ہم سے علامہ اقبال نے کیا تھا۔ یہاں علامہ اقبال اور قائداعظم کے بعض بیانات کے اقتباسات پیش کئے جاتے ہیں جن سے دونوں عظیم الشان رہنمائوں میں مکمل ہم آہنگی اور توافق فکری کا واضح اظہار ہوتا ہے۔ ان بیانات کے بنیادی موضوعات اسلام، قومیت اور جمہوریت ہیں۔اسلامی حکومت کی وضاحت کرتے ہوئے علامہ اقبال نے کہا ’’اسلام بحیثیت ایک نظام سیاست کے اصول توحید کو انسانوں کی جذباتی اور ذہنی زندگی میں ایک زندہ عنصر بنانے کا عملی طریقہ ہے اس کا مطالبہ وفاداری خدا کیلئے ہے نہ کے تخت و تاج کیلئے ‘‘۔
ریاست کے اسی موضوع پر قائداعظم نے فرمایا ’’اسلامی حکومت کہ تصور کا یہ امتیاز پیش نظر رہنا چاہئے کہ اس میں اطاعت ار وفا کیشی کا مرجع خدا کی ذات ہے جس کی تعمیل کا عملی ذریعہ قرآن مجید کے احکام اور اصول ہیں۔ اسلام میں اصلاًنہ کسی بادشاہ کی اطاعت ہے، نہ پارلیمنٹ کی، نہ کسی شخص اور ادارے کی۔ قرآن کریم کے احکام ہی سیاست و معاشرت میں ہماری آزادی کی حدود متعین کرسکتے ہیں۔ دوسرے الفاظ میں اسلامی حکومت قرآن کے اصول و احکام کی حکومت ہے۔
علامہ اقبال نے اسلامی قومیت کے تصور کو مسلمانوں کے ذہن نشین کرنے کیلئے اسے اپنے کلام کا خاص موضوع بنایا۔ انہوں نے کہا ’’مسلمان اور دنیا کی دوسری قوموں میں اصولی فرق یہ ہے کہ قومیت کا اسلامی تصور دوسری اقوام کے تصور سے بالکل مختلف ہے ہماری قومیت کا اصول نہ اشتراک زبان ہے، نہ اشتراک وطن، نہ اشتراک اغراض اقتصادی، بلکہ ہم لوگ اس برادری میں جو جناب رسالت مآبؐ نے قائم فرمائی تھی اس لئے شریک ہیں کہ مظاہر کائنات کے متعلق ہم سب کے معتقدات کا سرچشمہ ایک ہے۔ علامہ کا یہ شعر ؎
اپنی ملت پر قیاس اقوام مغرب سے نہ کر
خاص ہے، ترکیب میں قوم رسول ہاشمیؐ
قائداعظم نے مسلم قومیت کی اساس کی وضاحت کرتے ہوئے 8 مارچ 1944ء کو فرمایا: مسلمانوں کی قومیت کی بنیاد صرف کلمہ توحید ہے، نہ وطن نہ نسل۔ ہندوستان کا پہلا فرد جب مسلمان ہوا تھا تو وہ پہلی قوم کا فرد نہیں رہا تھا۔ وہ ایک الگ قوم کا فرد بن گیا تھا۔
علامہ اقبال کا کلام اول و آخر قوت کا پیغام ہے۔ وہ قوت و شوکت کے عظیم مبلغ و مفسر ہیں انہوں نے کہا ’’کشت حیات کا حاصل صرف طاقت و باطل کی رمز کی تشریح بھی صرف طاقت سے ممکن ہے۔ اگر مدعی طاقتور ہے تو اس کے دعویٰ کو دلیل کی ضرورت نہیں ہوتی۔ گر باطل کو طاقت حاصل ہو جائے تو وہ اپنے آپ کو حق کی صورت میں پیش کرتا ہے اور حق کی تکذیب کر کے اپنے آپ کو حق بتاتا ہے۔زندگی کی اس بنیادی قدر اور کامیابی کی اس کلیدے کے بارے میں قائداعظم نے کہا ’’کمزور فریق کی جانب سے امن و صلح کی پیشکش کا مطلب ہمیشہ کمزوری کا اعتراف ور جارحیت کو حملہ کرنے کی ترغیب ہوتا ہے۔ تمام تحفظات اور معاہدات اگر ان کی پشت پر طاقت نہ ہو تو وہ محض کاغذ کے پرزے ہوتے ہیں۔