یوم آزادی اور ہم

یوم آزادی کا موقع یعنی 14اگست ہو اور قائداعظم محمد علی جناح کا ذکر نہ ہو۔ یہ کیسے ممکن ہے؟ زندہ قومیں ہمیشہ زندگی کا ثبوت دیتی ہیں اور اپنے مشاہیر کے احسانات کو کبھی بھولتی نہیں۔آج ہم ان کے دو اقوال کا ذکر کرتے ہیں اور اپنے قار ئین کو یہ باور کرانے کی کوشش کریں گے کہ پاکستان کا مطلب کیا؟ جب بھی یہ الفاظ زبان پر آتے ہیں۔تو لامحالہ لاالہ الااللہ محمد رسول اللہ کے الفاظ۔ خود بخود زبان پر جاری ہو، جاتے ہیں۔
قائداعظم محمد علی جناح نے 1945ء میں حیدرآباد دکن میں ایک جلسہ عام سے خطاب کرتے ہوئے فرمایا ’’اگر ہم قرآن مجید کو اپنا آخری اور قطعی رہبر بنا کر شیوہ صبر و رضا پر کاربند ہوں اور اس ارشاد خداوندی کو کبھی فراموش نہ کریں کہ تمام مسلمان بھائی بھائی ہیں، تو ہمیں دنیا کی کوئی ایک طاقت یا کئی طاقتیں مل کر بھی مغلوب نہیں کر سکتیں ہم فتح یاب ہوں گے‘‘
آج کے دن پوری پاکستانی قوم اس عہد کی تجدید کر لے کہ ہم آپس میں اتفاق سے رہیں گے کیونکہ اتفاق میں ہی برکت ہے اور ایمان باللہ زندگی کا لازمی حصہ ہے۔ جتنا ایمان مضبوط اور اعلیٰ ہو گا اتنے ہی مضبوط (وزن دار) اور اعلیٰ اعمال جسم سے ادا ہوں گے۔ یہ ہے اصل بات، جس پر غور کرنے کی ضرورت ہے کہ کیا ہمارا قرآن پاک کے ساتھ ۔ تمسک ہے۔ کہ نہیں؟ کیا ہم نے قرآن حکیم کو اپنا مشعل راہ بنایا ہے؟ اگر نہیں بنایا… تو اس کو بالآخر ذمہ دار کس کو ٹھہرایا جائے؟ کیا حکمرانوں کو یا عوام؟ کیا ہم نے قرآن حکیم کو اپنا رہبر تسلیم کیا ہے۔ بنایا بھی ہے عملی طور پر کہ نہیں تو اس کا جواب حاصل کرنے کے لئے … ہمیں ’’آئین پاکستان‘‘ کی طرف رجوع کرنا ہوگا پھر معلوم ہوگا کہ کہاں تک ہم نے اپنی زندگی گزارنے کے لئے ، قرآن پاک ، سے رہنمائی لی ہے گو قرآن حکیم، کتاب ہدایت ہے تاہم قرآن حکیم ہمیں ایک مکمل اسلامی ضابطہ حیات بھی، مہیا کرتا ہے۔ گو آرٹیکل 2 کے تحت پاکستانی ریاست کا مذہب تو اسلام ہو گا اور ہے لیکن عملی طور پر۔ اس آرٹیکل 2 کو عملی جامہ پہنانے کے لئے اب تک کیا کیا اقدامات کئے گئے ہیں تو ہمیں واضح نظر آئے گا کہاں تک ہم قرآن حکیم کی تعلیمات پر عمل کرنے کے لئے مخلص اور عمل پیرا ہیں۔
ظاہر ہے اس کام کو سرانجام دینے کے لئے، آئین پاکستان میں ، مقننہ، جیسے ہم پارلیمنٹ کا نام دیتے ہیں۔ اس نے قانون سازی کرتے ہوئے۔ قرآن و سنت کو ملحوظ خاطر اکٹھے ہوئے۔ اس کی روشنی میں۔ قانون وضع کرنا ہے۔ جو اب تک نہیں کیا جا سکا۔ وجہ نامعلوم؟ شریعت کورٹ، اسلامی نظریاتی کونسل کی موجودگی میں وہ تمام قوانین۔ جو شریعت محمدیہ کے ساتھ مطابقت نہیں رکھتے۔ ان پر قانون سازی کرنے کے لئے اپنی سفارشات مرتب کرتا اس سارے نظام کا، جزو لاینفک ہے۔ یاد ہے! اسلامی نظریاتی کونسل میں بڑے جید علماء کرام اور بڑے بڑے قانون دان موجود ہیں۔
اب دیر کس بات کی؟… کیا آج کے دن ہم اپنے عہد کی تجدید کرتے ہیں ہم اسلام میں پورے کے پورے داخل ہوں اور اپنے آئین کی روشنی میں ’’قرارداد مقاصد کو سامنے رکھتے ہوئے تمام قوانین (قرآن و سنت) کی بنیاد پر بنائیں گے۔ اور پوری کی پوری شریعت محمدؐیہ کو عمل میں لائیں گے۔ پھر دیکھئے گا کہ اللہ تعالیٰ کی غیبی نصرت اور تائید غیبی کا ظہور کس طرح ہوتا ہے! قائدؒ کی روح مبارک کو خوش کرنے کا ایک ہی طریقہ ہے اور وہ ہے قرآن و سنتہ نظام۔
دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ پوری پاکستانی قوم کی حفاظت فرمائے اور قائداعظمؒ کی مدبرانہ بصیرت کے مطابق، اسلامی قوانین (قرآن و سنت) بنانے اور ان پر عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین! یا رب العالمین!
آئین پاکستان کے آرٹیکل 2 میں دیا گیا ہے۔ کہ ریاست کا مذہب اسلام ہوگا۔ اس لئے اس آئین کا نام ’’اسلامی جمہوریہ پاکستان‘‘ رکھا گیا۔ یہ اس بات کی ضمانت دیتا ہے کہ اس آئین کے تحت، کوئی قانون قرآن و سنت کے خلاف نہیں بنایا جائے گا۔ بلکہ بات تمام قوانین، قران و سنت کی روشنی میں بنائے جائیں گے۔ یہ بہت ہی خوش آئندہ بات ہے۔ اور یہی تقاضا ہے۔ قرارداد مقاصد کا۔ جو آئین پاکستان کا حصہ ہے۔
اب دیکھنا یہ ہے کہ اس پر کسقدر عمل در آمد ہوا ہے؟ اگر نہیں ہوا تو کس کو ذمہ دار ٹھہرایا جائے گا؟ پارلیمنٹ (جو کہ قانون بنانے کا ادارہ ہے) یا عوام، جو پارلیمنٹ میں اپنے نمائندوں کا انتخاب کر کے بھیجتے ہیں۔
پیشتر اس کے کہ اس بات کو آگے بڑھایا جائے۔ قائداعظم محمد علی جناحؒ کے دوسرے قول کا ذکر کرتے ہیں جو انہوں نے عید کے موقع پر، پوری قوم کو خطاب کرتے ہوئے۔ ایک پیغام ’’پیغام عید‘‘ کے نام سے دیا۔ اس پیغام کے الفاظ ملاحظہ فرمائیں۔ قرآن مجید مسلمان کا ہمہ گیر ضابطہ حیات ہے، مذہبی، سیاسی، شہری کاروباری، فوجی، عدالتی، تعزیری اور قانونی ضابطہ حیات، مذہبی تقریبات سے لے کر روز مرہ زندگی کے معاملات تک روح کی نجات سے لے کر ایک فرد کے حقوق تک اخلاق سے لے کر جرم تک اس دنیا میں جزاو سزا سے لے کر اگلے جہاں تک کی جزا اور سزا کی حد بندی کرتا ہے۔
اس موقع پر پوری قوم کی توجہ اس جانب مبذول کرانا چاہتا ہوں کہ آئین پاکستان کے اندر اسلامی قوانین بنانے کے بارے آرٹیکلز موجود ہیں۔ لیکن قانون سازی ندارد؟ ذرا سوچئے۔

ای پیپر دی نیشن

میں نہ مانوں! 

خالدہ نازش میری سکول کی ایک دوست کو ڈائجسٹ پڑھنے کا بہت شوق تھا ، بلکہ نشہ تھا - نصاب کی کوئی کتاب وہ بے شک سکول بستے میں رکھنا ...