کانگریس سمیت ہندو جماعتوں کے چھوٹے بڑے رہنما تقسیم ہند، قیام پاکستان اور نظریہ پاکستان کی مخالفت پر کمر بستہ ہو گئے۔ ہندو لیڈروں کا کہنا تھا ’’نظریہ پاکستان کا مطلب ہے ایک ایسا ملک جہاں زندگی اور طرز حکومت قرآنی اصولوں کے مطابق ہو اور اسلامی حکومت قائم ہو۔ ہندو قوم خواہ کتنی ہی بزدل اور غیر منظم کیوں نہ ہو وہ کبھی برداشت نہیں کر سکتی کہ مسلمان اس قسم کی حکومت قائم کرلیں۔،، لیکن جب انگریزوں اور ہندئووں کی تمام تر مخالفت و عداوت کے باوجود پاکستان کا قیام یقینی ہو گیا تو ہندو نیتا آگ بگولا ہوگئے اور ان کے سینوں پر سانپ لوٹنے لگے یہاںتک کہ امن و آشتی اور اھنسا کے سب سے بڑے پرچارک گاندھی بھی غصے اور صدمے کی وجہ سے ہوش وحواس کھو بیٹھے اور کہنے لگے’’اگر سارا ہندوستان بھی جل کر راکھ ہو جائے ہم پھر بھی مطالبہِ پاکستان منظور نہیں کریںگے خواہ مسلمان اسے بزوِر شمشیر ہی کیوں نہ طلب کریں۔‘‘
قائداعظم محمد علی جناح نے ایک دفعہ کہا تھا ’’گاندھی کا وہ مقصد نہیں ہوتا جو وہ زبان سے کہتے ہیں اور جو ان کا درحقیقت مقصد ہوتا ہے اسے کبھی زبان پر نہیں لاتے۔‘‘ سو گاندھی کا یہ کہناکہ ’’مسلمان خواہ پاکستان بزور شمشیر ہی کیوںنہ طلب کریں‘‘کا یہی مطلب تھاکہ جواہر لال نہرو اور گاندھی سمیت تمام چیلے چانٹے بزور قوت اور بزوِر شمشیر قیام پاکستان کو ناممکن بنانے کے لئے تیار اور آمادہ پیکار ہو چکے تھے۔ اس مقصد کی خاطر انگریزوں کی سرپرستی ورہنمائی میں وسیع پیمانے پر مسلمانوں کے قتل عام کا منصوبہ تیار کر لیاگیا۔ قتل عام کی تیاریوں کا اندازہ اس سے کیا جاسکتا ہے کہ سکھ اور ہندو ریاستوں کی اسلحہ ساز فیکٹریوں میں تقسیم ہند سے چھ ماہ پہلے دھڑا دھڑ اسلحہ بننا شروع ہو گیا تھا۔ انگریز حکومت کی بیشتر سر کاری مشینری۔ بھارت کی وزارت داخلہ، بھارت کی فوج اور پولیس ہندوسکھ ریاستوں کے راجے مہاراجے اور ان کی فوج و پولیس راشڑیہ سیوک سنگھ، ہندو مہاسبھا، اکالی دل جیسی درجنوںجنونی ہندو تنظیموں کے ہزاروں رضاکار اور لاکھوں کی تعداد میں عام ہندئووں اور سکھوں نے مسلمانوں کا اعلانیہ قتل عام کیا۔ حملہ آور ہر طرح کے چھوٹے بڑے دیسی اور جدید اسلحہ سے مسلح ہاتھیوں اور گھوڑوں پر سوار قافلوں کی صورت میں مسلمانوں پر حملہ آور ہوتے۔ دوسری طرف برطانوی حکومت کے اہلکار اور چانکیہ کے پیروکار امن و شانتی کے بہانے اکثر مقامات پر مسلمانوں کو پہلے ہی غیر مسلح کر چکے تھے۔ اگر بھارت تقسیم ہند کا زخم نہیں بھولاتو ہم ایک کروڑ مسلمانوں کی ہجرت،30لاکھ شہدا کا خون اور ہزاروں مائوں بہنوں بیٹیوں کی عصمت دری کے المناک واقعات کیوں کر بھول سکتے ہیں۔ خاص کر ایسے حالات میں کہ جب بھارت کے پاکستان دشمن جذبات ماضی کی نسبت کئی گنا بڑھ چکے ہیں، سازشیں عروج پر ہیں، بلوچستان میں علیحدگی کی تحریک کو ہوا دینے کی کو ششیں ہیں، بم دھماکے،دہشت گردی اور تخریب کاری ہے۔ مودی حکومت کا سارا ایجنڈا ہی پاکستان دشمنی پر مبنی ہے۔ الیکشن میں مودی نے پاکستان کے حوالے سے جن ناپاک عزائم کا اظہار کیا انہیں پورا کرنے کے ارادے ہیں، ایل او سی اور ورکنگ بائونڈری پر آئے روز فائرنگ کا سلسلہ جاری ہے، فائرنگ سے شہادتیں ہو رہی ہیں اور بھارت نے پاکستان پر اعلانیہ جنگ مسلط کر رکھی ہے۔حقیقت یہ کہ اسلام اور پاکستان دشمنی بھارتی حکومت کی بنیاد بن چکی ہے۔ بھارت اور مقبوضہ جموں کشمیر میں بسنے والے مسلمانوں کو آج بھی پاکستان کے ساتھ محبت کی سزا دی جا رہی ہے۔ اللہ کے فضل سے پاکستان استحکام کی راہ پر گامزن ہو چکا ہے۔ ہمارے حکمرانوں اور افواج کی استحکامِ پاکستان کی کوششیں اپنی جگہ بجا لیکن سب سے زیادہ ضرورت نظریہ پاکستان کے احیاء وارتقاء کی ہے۔ اسی نظریہ کی بنیاد پر یہ ملک قائم ہوا اور اسی نظریہ کے ساتھ ہمارے ملک کا مقدر وابستہ ہے۔ اس لئے کہ احیائے نظریہ پاکستان ہی بقائے پاکستان ہے۔