الحمدللہ پاکستان اپنی زندگی کے انہترویں سال میں داخل ہوچکا ہے۔ اللہ تبارک و تعالیٰ کا جتنا بھی شکر ادا کریں کم ہے۔ پاکستان آج جن حالات سے گزر رہا ہے قیامِ پاکستان سے لے کر اب تک ایسے ہی حالات چلے آ رہے ہیں۔ ہماری نئی نسل کو یہ پتا ہی نہیں ہے کہ یہ ملک جسے مملکتِ خداداد بھی کہا جاتا ہے کتنی قربانیوں اور قائداعظم محمد علی جناح کی شب و روز جدوجہد کے بعد معرضِ وجود میں آیا ہے۔ برصغیر کے تمام مسلمان اگر اس وقت قائداعظم کا ساتھ دیتے تو آج برصغیر کا نقشہ مختلف ہوتا۔ گاندھی، نہرو اور کانگریس کے دیگر سرکردہ ہندو رہنمائوں نے متحدہ ہندوستان اور سیکولر ازم کو بنیاد بنا کر مسلمانوں کو تقسیم کیا جب کہ ہندو انتہا پسند تنظیمیں اور جماعتیں بھی اُس وقت کانگریس کے ساتھ تھیں۔ اُن کو سمجھانے اور ساتھ لے کر چلنے کیلئے یہ بات کافی تھی کہ ایک دفعہ ملک کو آزاد کرا لیا جائے تو پھر جمہوریت میں اکثریت کی حکومت ہوتی ہے اور اکثریت ہمیشہ ہندوئوں ہی کی رہے گی۔ متحدہ ہندوستان اور سیکولر ازم کے نام پر ابوالکلام آزاد اور دوسرے سیاسی و مذہبی رہنما بھی مسلم لیگ کے علیحدہ وطن کے مطالبے کی شدید مخالفت کرتے نظر آئے۔ قائداعظم پر قاتلا نہ حملہ بھی ایک مسلما ن خاکسار نے ہی کیا تھا۔ مائونٹ بیٹن وائسرائے ہند تھے لیکن مائونٹ بیٹن کی بیوی کے نہرو کے ساتھ خصوصی تعلقات تھے۔ انگریز اور ہندو سازش کی وجہ سے تقسیم کے طے شدہ نقشے میں بائونڈری کمیشن نے جو تبدیلیاں کیں اس کی وجہ سے مسلمانوں کو بھاری نقصان اٹھانا پڑا اور پڑ رہا ہے۔ ان سازشوں کی تفصیل کتابوں میں شائع ہوچکی ہیں۔ مولانا ابوالکلام آزاد کی تقریروں کا ایک مجموعہ (موج رفتہ) جانباز مرزا نے ترتیب دیا تھا جو کلاسیک نے شائع کیا تھا۔ اس میں مولانا کی ایک تقریر ’’دہلی کی جامع مسجد میں مسلمانوں سے خطاب‘‘ موجود ہے۔ اس تقریر میں مولانا نے مسلمانوں سے کہا تھا کہ اب پاکستان بن چکا ہے اس کے طاقتور اور مضبوط ملک بننے کی دُعا کریں اور اس کے خلاف کوئی بات نہ کریں۔ مولانا نے اپنی عمر کے آخری حصے میں ’’آزادیٔ ہند‘‘ کے نام سے ایک کتاب لکھی جو ان کی وفات کے بعد شائع کی گئی اس کا انگریزی ترجمہ ڈاکٹر اجمل نے کیا جو ابوالکلام آزاد کے سیکرٹری تھے۔ اس کتاب کے پچھتر صفحات یہ کہہ کر شائع نہیں ہونے دیئے گئے کہ مولانا کی خواہش تھی کہ انہیں 25 سال بعد شائع کیا جائے۔ 25 سال گزر جانے کے بعد کہا گیا کہ یہ صفحات جو کلکتہ میوزیم میں محفوظ تھے وہاں سے چوری ہوگئے ہیں۔
برصغیر کی آزادی کے چند روز بعد ہی پنڈت نہرو نے یہ کہہ دیا تھا کہ پاکستان بن تو گیا ہے لیکن مسلمانوں سے نہیں چلے گا۔ آنے والے دنوں میں ہمارے قدموں میں پڑا ہوگا۔ وہ دن اور آج کا دن بھارت نے ایک لمحہ کے لئے بھی پاکستان کو سُکھ کا سانس نہیں لینے دیا۔ وہ مسلسل سازشوں میں مصروف ہے اور چاہتا ہے کہ کسی بھی طرح اکھنڈ بھارت بن جائے۔ بھارت کی خفیہ ایجنسی را بہت بڑے پیمانے پر پاکستان کے اندر تخریب کاری میں ملوث ہے۔ کراچی، بلوچستان، جنوبی وزیرستان اور افغانستان میں بیٹھ کر تخریبی سرگرمیوں پر بے تحاشا پیسہ، اسلحہ اور تربیت فراہم کی جا رہی ہے۔ اُسکے نتیجہ میں پیدا ہونیوالے واقعات اور مستقبل کیلئے بھارت کی منصوبہ بندی کو جاننا اور سمجھنا ضروری ہے۔ کیا اس بات میں کوئی شبہ ہے کہ بھارت نے اربوں نہیں کھربوں روپے کا جدید ترین اسلحہ کس مقصد سے خریدا ہے؟ ظاہر ہے چین پر حملے کا تو وہ سوچ بھی نہیں سکتا۔ مشرقی پاکستان کی مثال سامنے ہے جسے بنگلہ دیش بنانے کے بعد سے اب تک نام نہاد آزادی کے نام پر بدترین بھارتی غلامی کا مشرقی پاکستان کے عوام کو سامنا ہے حسینہ واجد جیسے غداروں کی یہاں بھی کمی نہیں ہے بلکہ یہ کہا جائے تو غلط نہ ہوگا مہاجر الطاف حسین کی طرح کے بہت سے مقامی اس وقت بھارت کی گڈ بُک میں موجود ہیں۔ مشرقی پاکستان کے المیہ سے ذرا پہلے مولانا مفتی محمود صاحب کی یہ بات کون بھول سکتا ہے کہ ’’اللہ کا شکر ہے کہ پاکستان بنانے کے گناہ میں ہم شامل نہیں تھے‘‘
پاکستان کے انہترویں (69) سالگرہ
Aug 14, 2015