اسلام آباد ( محمد نواز رضا+ وقائع نگار خصوصی) باخبر ذرائع سے معلوم ہوا ہے پارلےمانی جماعتوں نے فیصلہ کیا ہے کہ ایم کیو ایم کے استعفے منظور نہ کئے جائیں اور اسے قومی دھارے مےں رکھنے کی کو شش کی جائے۔ اجلاس مےں مصالحتی کر دار ادا کرنے کی ذمہ داری مولانا فضل الرحمن، سید خورشید احمد شاہ اور محمد اسحاق ڈار، محمود خان اچکزئی کو سونپی گئی۔ وہ ایم کیو ایم کی قیادت سے رابطے کرکے ان کے تحفظات دور کر کے انہیں استعفے واپس لینے پر آمادہ کریں گے۔ ذرائع کے مطابق مولانا فضل الرحمن استعفوں کی واپسی کے معاملہ پر اےم کےو اےم کے قائد الطاف حسےن سے ٹےلی فون پر رابطہ قائم کرےں گے۔ وزیر داخلہ چوہدری نثار ایم کیو ایم کے تحفظات دور کرانے کےلئے ڈی جی رینجرز سندھ سے بات کریں گے۔ تاہم وزےر اعظم محمد نواز شرےف نے دوٹوک الفاظ مےں کہا ہے کہ جہاں تک کراچی کی صورت حا ل کا تعلق ہے اےم کےو اےم کے تحفظات ہےں انہےں دور کےا جائے گا لےکن کراچی آپرےشن جو کہ مجرموں کے خلاف ہے اس پر کوئی کمپرومائز نہےں کےا جا ئے گا آپرےشن کسی اےک جماعت کے خلاف نہےں۔ وزیراعظم کی صدارت میں پارلیمانی رہنماﺅں کا اجلاس پارلیمنٹ ہاﺅس میں منعقد ہوا۔ ایم کیو ایم کے استعفوں سے پیدا ہونے والی صورتحال پر غور کےا گےا۔ سید خورشید احمد شاہ، مولانا فضل الرحمن، چوہدری نثار، اسحاق ڈار، پرویز رشید، خواجہ سعد رفیق، اکرم درانی، حاجی غلام احمد بلور، جی جی جمال، غوث بخش مہر، آفتاب شیرپاﺅ، صاحبزادہ طارق اﷲ اور دیگر رہنماﺅں نے شرکت کی۔ مولانا فضل الرحمن نے کہا ہے کہ وزیراعظم اور اپوزیشن لیڈر نے مجھے ایم کیو ایم سے استعفے واپس لینے کی بات کرنے کی ذمہ داری سونپی ہے تاہم انہوں نے واضح کیا کہ استعفوں کے بارے میں ان کا وہی مو¿قف ہے جو تحریک انصاف کے ارکان کے استعفوں سے متعلق تھا تاہم اگر کوئی درمیانی راستہ تلاش کیا جاسکتا ہے تو میں ضرور کردار ادا کروں گا۔ انہوں نے کہا کہ ایک بار استعفیٰ سپیکر قومی و صوبائی اسمبلی یا چیئرمین سینٹ کی میز پر پہنچ جاتا ہے تو وہ واپس نہیں لیا جا سکتا۔ بی بی سی کے مطابق حکومت نے متحدہ قومی موومنٹ کے استعفے قبول نہ کرنے اور اس مسئلے کا سیاسی حل تلاش کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ فیصلہ وزیراعظم کی سربراہی میں ہونے والے مشاورتی اجلاس میں کیا گیا۔ مشاورتی اجلاس میں فیصلہ کیا گیا کہ کراچی کو کسی طور پر بھی ملک کے دیگر حصوں سے الگ نہیں کیا جائے گا اور وہاں کامینڈیٹ رکھنے والی کسی بھی جماعت کو سیاسی دھارے سے الگ نہیں کیا جائے گا۔ حکومت ایم کیو ایم کے کراچی سے متعلق تحفظات دور کرنے کی کوشش کرے گی تاہم کراچی آپریشن کو کسی طور پر بھی بند نہیں کیا جائے گا۔ دریں اثناءشاہ محمود قریشی نے کہا کہ پارلیمانی قیادت کے اجلاس میں تحریک انصاف کو مدعو ہی نہیں کیا گیا۔ دریں اثناءمولانا فضل الرحمن نے ایم کیو ایم کے استعفوں کے حوالے سے قانونی ماہرین کے ساتھ رابطوں کیلئے پارٹی رہنما و سپریم کورٹ کے سابق صدر کامران مرتضیٰ کی ذمہ داری لگا دی۔ حافظ حسین احمد کو فوری اسلام آباد طلب کرلیا استعفوں کے معاملے پر وفاقی وزیر اکرم خان درانی کی سربراہی میں تین رکنی کمیٹی بھی قائم کردی گئی ہے۔ دریں اثناءمولانا فضل الرحمن نے وزیر داخلہ چودھری نثار کو ٹیلی فون کرکے ایم کیو ایم کے استعفوں کے معاملے پر بات چیت کی۔ ذرائع کے مطابق مولانا فضل الرحمن نے کہا کہ حکومت استعفوں کے معاملے پر جلد بازی کا مظاہرہ نہ کرے۔ دریں اثناءوزیر خزانہ اسحق ڈار نے ڈاکٹر فاروق ستار کو فون کیا دونوں رہنماﺅں نے استعفوں کے معاملے پر گفتگو کی۔ ڈاکٹر فاروق ستار نے کہا الطاف حسین کے براہ راست خطاب پر پابندی کا خاتمہ کیا جائے زیرحراست افراد کو عدالتوں میں پیش کیا جائے کہ معاملات پر مانیٹرنگ کمیٹی قائم کی جائے۔ الطاف حسین نے کبھی نہیں کہا کہ کراچی آپریشن بند کیا جائے۔ وزیر خزانہ نے کہا کہ ایم کیو ایم کا مانیٹرنگ کمیٹی کا مطالبہ جائز ہے۔ پاکستان کی بہتری کیلئے معاملہ سلجھانے کی کوشش کررہے ہیں۔ ہمیں متحد ہوکر چیلنجز کا سامنا کرنا چاہیے۔ متحدہ نے آپریشن کراچی ختم کرنے کی بات نہیں کی۔ ان کا دعویٰ ہے کہ ماورائے عدالت لوگ اٹھائے جارہے ہیں اور لاپتہ ہیں۔ ریاستی ادارے وضاحت کرتے ہیں کہ ہم نے کبھی غیرآئینی اور غیرقانونی قدم نہیں اٹھایا۔ ہم ریاستی اداروں کے ساتھ ایک پیج پر ہیں۔ پارلیمانی رہنماﺅں کے اجلاس میں اس بات پر اتفاق ہوا کہ پاکستان اس وقت جس عمل سے گزر رہا ہے اسے استحکام کی ضرورت ہے۔ یہ بھی ایک ملک کا اہم مسئلہ ہے مجھے یقین ہے کہ وزیراعظم کی عسکری قیادت سے اس بات پر ہوگی۔
لاہور (فرخ سعید خواجہ) متحدہ قومی موومنٹ کے استعفوں نے ملک میں نئے سیاسی بحران کو جنم دیا۔ وزیراعظم نواز شریف، قومی اسمبلی اور سینٹ میں قائد حزب اختلاف خورشید شاہ اور اعتزاز احسن سمیت پارلیمنٹ میں موجود بیشتر جماعتوں کے رہنماﺅں میں اتفاق رائے ہے کہ جس طرح تحریک انصاف کے مستعفی ارکان اسمبلی کو ”سسٹم“ کے اندر رکھنے کے لئے آئینی و قانونی تقاضوں سے چشم پوشی کی گئی تھی اسی طرح سندھ کی اہم جماعت متحدہ کو بھی رعایت دینی چاہئے۔ متحدہ کو کراچی آپریشن کے حوالے سے رینجرز سے جو شکایات ہیں ان کو مکمل طور پر نظر انداز کیا جانا مناسب نہیں لہٰذا متحدہ کے تحفظات دور کرنے کے لئے حکومت کو کردار ادا کرنا چاہئے۔ سیاسی رہنماﺅں نے وزیراعظم کی ہنگامی طور پر پارلیمانی لیڈروں کی میٹنگ بلانے کو سراہا بالخصوص میٹنگ میں ”متحدہ“ کے تحفظات دور کرنے کے لئے وفاقی وزیر داخلہ چوہدری نثار کی ڈیوٹی لگائے جانے کو مثبت اقدام قرار دیا ہے۔ میٹنگ میں وزیراعظم اور قائد حزب اختلاف کا ہم آہنگ ہو کر مسئلے کے حل کے لئے فضل الرحمن کو کردار ادا کرنے کی دعوت دینے سے ”متحدہ“ کے ممبران کے استعفے واپس کرانے میں مدد ملے گی۔ معلوم ہوا ہے چوہدری نثار اور فضل الرحمن نہ صرف رینجرز کے ذمہ داران سے بات چیت کریں گے بلکہ الطاف حسین سے بھی بات چیت کر کے استعفوں کی واپسی کو یقینی بنائیں گے۔ حکومت کے ذمہ دار ذرائع کے مطابق اس بات پر اتفاق رائے ہے متحدہ کے تحفظات دور کئے جائیں تاہم کراچی میں جاری آپریشن پر کوئی سمجھوتہ نہیں کیا جائے گا۔
سیاسی بحران