دو قومی نظریہ کا ایک نہایت اہم تاریخی و تہذیبی پس منظر ہے۔ جو مختصریوں ہے کہ پانچویں صدی ہجری سے دسویں صدی ہجری تک مسلمان سلاطین کی حکومتوں کے دوران میں صوفیہ اور علماءنے دین اسلام کی نشرواشاعت میں نہایت جانفشانی سے کام کیا۔ اکبر نے اپنی حکومت کے استحکام کیلئے ہندوستان کی راجپوت قوت کا سہارا لینے کیلئے انکی مذہبی اور ثقافتی اقدار کو اپنایا۔ یہ عمل اسلامی اقدار اور روایات سے مکمل طور پر انحراف پر منتج ہوا۔ شیخ احمد سرہندی نے اس کیخلاف شدید ردعمل کا اظہار کیا۔ اسکی تعمیل اورنگزیب عالمگیر نے کی۔ اس عمل اور ردعمل سے ہندو اور مسلمان دونوں اقوام ایک دوسرے کے مقابل آگئیں۔ اٹھارویں صدی میں اس کا دوبارہ اظہار مرہٹوں کی بڑھتی ہوئی قوت سے ہوا جسے شاہ ولی اللہ کی تحریک سے احمد شاہ ابدالی نے ختم کیا۔ پھر بیسویں صدی میں علامہ اقبالؒ نے مسلمانوں کے دین اور جان و مال کے تحفظ کیلئے اسلامی قومیت کا تصور دیا جسے قائداعظمؒ نے اپنی بہترین قیادت سے جامہ¿ عمل پہنایا۔ قائداعظمؒ نے تصور کو حقیقت میں تبدیل کردیا۔
آل انڈیا مسلم لیگ 27 واں سالانہ اجلاس مارچ 1940ءکو لاہور میں ہوا۔ مسلمانان ہند کا ایک عظیم الشان اجتماع تھا جس کیلئے اقبالؒ اپنی زندگی کے آخری ایام میں نہایت آرزومند تھے۔ اس اجلاس میں بتاریخ 23 مارچ مسلمانان ہند کیلئے مستقل مملکت کی قرارداد منظور ہوئی۔ قائداعظمؒ نے 22 مارچ کے اجلاس میں اپنے صدارتی خطاب میں ہندو مسلم دونوں قوموں کے مختلف اور متضاد نظریات و روایات پر روشنی ڈالتے ہوئے فرمایا:
اسلام اور ہندومت حقیقت میں محض مذہب نہیں ہیں بلکہ ایک دوسرے سے مختلف دو معاشرتی نظام ہیں اور متحدہ قومیت ایک ایسا خواب ہے جو کبھی شرمندہ تعبیر نہیں ہوسکتا۔ ہندوستان میں ایک قوم کا غلط تصور حد اعتدال سے نکل گیا ہے اور آج ہماری بہت سی مشکلات کا باعث بن رہا ہے اور اگر ہم نے بروقت اپنے رجحانات کی اصلاح نہ کی تو یہ چیز ہندوستان کی بربادی پر منتج ہوگی۔ ہندو اور مسلمان الگ الگ فلسفہ مذہب سے تعلق رکھتے ہیں۔ دونوں کی معاشرت جدا جدا ہے۔ دونوں کا ادب ایک دوسرے سے مختلف ہے، ان میں باہمی شادیاں نہیں ہوتیں۔ وہ ایک دوسرے کے ساتھ کھانا بھی نہیں کھاتے، حقیقتاً وہ دو الگ الگ تہذیبوں سے تعلق رکھتے ہیں جن کی بنیادیں متضاد تصورات پر قائم ہیں۔ ان کا رویہ الگ ہے۔ انکے مشاہیر الگ ہیں اور وہ ایک دوسرے سے مختلف تاریخی سرمایہ رکھتے ہیں، عموماً ایسا ہوتا ہے کہ انکی فتح و شکست مختلف حیثیتیں رکھتی ہیں۔ وائسرائے لارڈویول نے گاندھی کے بارے میں لکھا: ”میرا تاثر یہ تھا کہ وہ وقتی طور پر دوستانہ جذبات کا اظہار کرتے تھے، مگر وہ کسی بھی وقت بات سے مکر بھی جاتے تھے، ان میں بزرگی یا مہاتما ہونے کا شائبہ تک نہیں۔
گاندھی نے دو قومی نظریے کی نفی کرتے ہوئے کہا: ”میری تمام روح اس خیال کے مقابلے میں بغاوت کرتی ہے کہ ہندو دھرم اور اسلام دو مخالف تہذیبوں اور عقیدوں کا نام ہے، ہمارے نام کچھ بھی ہوں ہم سب ایک ہی خدا کے بچے ہیں۔ میں یقینا اس خیال کے خلاف بغاوت کروں گا کہ کروڑوں ہندوستانی جو کل تک ہندو تھے، اپنا مذہب بدلنے کی وجہ سے اپنی قومیت بھی بدل سکتے ہیں۔“
گاندھی کی ان گمراہ کن تحریروں نے بہت سے کانگریسی ذہنیت کے حامل ان علمائے کرام کو متاثر کیا جو قائداعظمؒ کے سیاسی مخالف تھے اور ملت کی اساس اسلام کی بجائے ہندوستانی قومیت کو قرار دیتے تھے۔ علامہ محمد اقبالؒ نے اس موضوع پر نظم و نثر میں بکثرت لکھا اور احکام قرآنی کی روشنی میں یہ ثابت کیا کہ مسلمان معاشرے کی بنیاد وطنی قومیت نہیں بلکہ صرف اسلام ہے، چنانچہ اسی بنیاد پر نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے قریش مکہ سے جو آپ کے ہم زبان، ہم قبیلہ اور ہم وطن تھے سخت اختلاف کیا اور حتیٰ کہ جنگیں لڑیں۔ علامہ محمد اقبالؒ کی اس دینی وضات کو برصغیر کے اکثر و بیشتر مسلمانوں نے ایک حقیقت سمجھ کر قبول کیا۔ سب سے بڑھ کر حضرت قائداعظمؒ نے جو نکتہ فہمی میں بے مثال تھے، علامہ اقبالؒ کی اس توجیہ کو سمجھتے ہوئے اپنی سیاست کی بنیاد وطنی قومیت کی بجائے اسلام پر رکھی اور اسی پر انہوں نے انگریزوں، ہندوﺅں اور کانگریسی علمائے سے محاذ آرائی کی جو قطعی دلائل پر مبنی تھی۔مہاتما گاندھی نے قائداعظمؒ کو لکھا: ”آپ کا علیحدہ قوم ہونے کا دعویٰ فتح کی وجہ سے نہیں، بلکہ لوگوں کے قبول اسلام کی وجہ سے ہے، کیا اگر ہندوستان کے سب لوگ اسلام قبول کرلیں تو دونوں قومیں ایک ہوجائیں گی؟“
قائداعظم محمد علی جناحؒ نے دو روز بعد خط کا جواب دیا: ”ہم اس نقطہ نظر پر قائم ہیں کہ مسلمان اور ہندو ہر لحاظ سے اور ہر اعتبار سے دو بڑی قومیں ہیں۔ ہم دس کروڑ افراد پر مشتمل ایک قوم ہیں۔ مزید برآں ہم اپنی مخصوص تہذیب اور تمدن ، زبان اور ادب ، فن اور معماری، نام اور القاب، اقدار اور تناسب، قوانین اور اخلاق، رسوم اور تقویم، تاریخ اور روایات، رجحانات اور خواہشات کی حامل قوم ہیں۔ مختصر یہ کہ زندگی اور اس سے متعلق تمام بین الاقوامی قوانین کی رو سے ہم ایک قوم ہیں۔“
گاندھی جب قائداعظمؒ کے مضبوط دلائل کے سامنے بے بس ہوگئے تو اپنے ہر اصول کو چھوڑ کر تشدد کے ذریعے اسلامی تحریک کو کچلنے پر اترآئے۔
4اپریل 1946ءکو قائداعظمؒ نے برطانوی کیبنٹ مشن سے ملاقات کی اور ہندوستان میں خودمختار اسلامی مملکت کی تشکیل کو ناگزیر قرار دیا۔ مگر کیبنٹ مشن اور کانگریس ایک جان ہوکر تشکیل پاکستان کی راہ میں قدم قدم پر رکاوٹیں پیدا کرتے رہے، لیکن قائداعظمؒ اپنے ایمان راسخ اور دلائل قطعی کےساتھ ایک پہاڑ کی طرح اپنے موقف پر قائم رہے یہاں تک کہ تمام سرکش اور مخالف طاقتیں انکے سامنے جھک گئیں۔ انگریزوں اور ہندوﺅں نے مطالبہ پاکستان تعلیم کیا۔ 3 جون 1947ءکو لارڈ ماﺅنٹ بیٹن نے برصغیر کی آزادی اور پاکستان کے قیام کا واضح اعلان کیا۔ 7 اگست کو قائداعظمؒ دہلی سے کراچی پہنچے جہاں ہزاروں افرادنے ان کا استقبال کیا۔ 10 اگست کو کراچی میں نومنتخب دستور ساز اسمبلی کا پہلا اجلاس ہوا۔ 11 اگست 1947ءکو پاکستان دستور ساز اسمبلی کا دوسرا اجلاس ہوا۔ قائداعظمؒ نے اپنی صدارتی تقریر میں فرمایا:
”....آپ آزاد ہیں۔ آپ آزادانہ اپنے مندروں میں جاسکتے ہیں۔ آپ آزادانہ اپنی مسجدوں میں جاسکتے ہیں، مملکت پاکستان میں کسی بھی عبادت گاہ میں جاسکتے ہیں، آپ کا تعلق کسی بھی مذہب، ذات یا فرقہ سے ہو، اس کا امور مملکت سے کوئی تعلق نہیں۔“ ....”آج آپ ازروئے انصاف کہہ سکتے ہیں کہ برطانیہ میں رومن کیتھولکس اور پروٹسٹنٹس کا کوئی وجود نہیں ۔ جو حقیقت آج ہے وہ یہ ہے کہ ہر آدمی برطانیہ کا ایک شہری ہے۔ یکساں درجے کا شہری ہے اور وہ سب ایک قوم کے افراد ہیں۔“
”اب میرا خیال ہے کہ ہم اسی نقطہ نظر کو اپنے سامنے رکھےں کہ بتدریج ہندو ہندو نہیں رہیں گے اور مسلمان مسلمان نہیں رہیں گے۔ مذہبی نقطہ نظر سے نہیں، کیونکہ مذہب تو ہر فرد کا ذاتی ایمان ہے بلکہ سیاسی نقطہ نظر سے وہ ریاست کے شہری متصور ہوں گے۔“
بتاریخ 14 اگست 1947ءنصف شب تائید الٰہی سے پاکستان قائم ہوا۔ یہ شب 26 رمضان المبارک کی شب تھی، شب قدر اور صبح15 اگست جمعتہ الوداع کامبارک دن تھا: (جاری)