قیام پاکستان کے مقاصد،ایک جائزہ

جس مقصد کیلئے جو چیز تخلیق کی جاتی ہے اگر اس سے انحراف کیا جائے تو نتائج منفی نکلتے ہیں مصائب وتکالیف کا سامنا کرنا پڑتاہے۔ آج پاکستان ستر سال کا ہونے جا رہا ہے اگر ہم اسکی تخلیق پر غور کریںکہ یہ کیسے معرض وجود میں آیا اسکے مقاصد کیا تھے اور جو ہم آج اسکے ساتھ سلوک کر رہے ہیں یہ مقاصد کے ساتھ کتنی مطابقت رکھتا ہے اور کس قدر انحراف کیا جارہا ہے تو اسکا جواب نفی میں ہو گا۔
ہندوﺅں کی تنگ نظری‘ منافقانہ رویہ اور انگریز کا ظلم دیکھ کر غلامی کی زنجیروں سے خود کو آزاد کرانے کے پختہ عزم کے بعد مسلمانان ہند کی لاکھوں قربانیوں کے نتیجے میں چودہ اگست1947کومسلمانوںکونظریہ پاکستان (لاالہ الاّ اللہ محمدرسول اللہ)کی بنیاد پر اپنا آزاد وطن اسلامی جمہوریہ پاکستان نصیب ہوا۔ اس کا بنیادی مقصد مذہبی آزادی اور دو قومی نظریہ تھا یہ بات معروف ہے کہ دنیا میں کلمہ طیبہ کے نام پر معرض وجود میں آنے والی دو ریاستیں ہیں ایک مدینہ منورہ اور دوسری پاکستان، پاکستان مسلمانان ہند کیلئے بنا تھا اور اسکے دو بنیادی مقاصد تھے۔ قائداعظم محمد علی جناح کی زیر قیادت چلنے والی تحریک میں یہ بات کہی گئی کہ مسلمانان ہند کو ایک ایسا خطہ ہم لے کر دینگے جس میں وہ آرزوﺅں، امنگوں، آدرشوں کے مطابق زندگی بسر کریں اور اپنے دین کیمطابق زندگی بسر کرنے کے قابل بنیں یہ بات عام آدمی تک پہنچائی گئی اور اس کا خلاصہ اس نعرے میں تھا کہ پاکستان کا مطلب کیا لاالہ الا اللہ لیکن اس کے ساتھ خواہ مخواہ اب اسے ایک مبحث بنا لیا گیا ہے جیسا کہ بعض لوگ کہتے ہیں کہ یہ ملک صرف مسلمانان ہند کے معاشی مسائل کے حل کیلئے بنایا گیا تھا اور اسکے برعکس بعض کہتے ہیں کہ یہ صرف اسلام کیلئے بنایا گیا تھا۔ حقیقت دونوں کے درمیان ہے اور دونوں چیزیں اپنی اپنی جگہ پر درست ہیں، دونوں نعرے لگے دونوں باتیں بھی آئیں یہ بھی درست ہے کہ مسلمانان ہندمتحدہ ہندوستان میں ہرلحاظ سے پسماندہ تھے اور ہر میدان میں ہندوﺅں او رغیرمسلموں سے پیچھے تھے تعلیم میں، معیشت میںکاروبار میں ملازمتوں میں اپنی آبادی کے تناسب کے لحاظ سے کہیں بھی انہیں نمائندگی حاصل نہیں تھی اور ملازمتیں یا کاروبارکےلئے جن مسلمانوں کو مواقع حاصل تھے وہ بھی بالعموم چھوٹے کاروبار اور چھوٹی ملازمتوں پر منحصر تھے۔ مسلمانوں کی معاشی ضروریات بھی تھیں اور ایک دینی جذبہ بھی تھاکہ ایک الگ ملک حاصل کرکے وہاں اپنے دین کے مطابق زندگی بسر کریں یہ دونوں باتیں تحریک پاکستان کی روح اور بنیاد میں کام کررہی تھیں۔
اب پاکستان بننے کے بعد جب ہم مڑ کر دیکھتے ہیں تو معاشی حوالے سے ایک زگ زیگ قسم کی ترقی تو ہوئی ہے لیکن مسلسل ترقی کا عمل جاری نہیں رہا لیکن اسکے باوجود جہاں سے ہم شروع ہوئے تھے، ہر لحاظ سے اس سے بہت آگے گئے ہیں یہاں پاکستان کو جو حصہ ہندوستان سے ملا اس میں صنعت نہ ہونے کے برابر تھی، فیکٹریاں، یونیورسٹیاں،کالج بہت کم تھے، اسی طرح ملازمت کے مواقع نہ ہونے کے برابر تھے تو یہ ملک ایک پسماندگی کی حالت میں ملا تھا جس وجہ سے فوری طور پر اسے ایک ملک کی حیثیت سے چلانا کوئی اتنا آسان نہیں تھا جیسا کہ معروف ہے کہ دفتروں میں بھی نہ کام کرنے کا ماحول تھا اور نہ افراد تھے اور نہ ہی اسی طرح وسائل تھے تو ان سب میں ترقی آہستہ آہستہ ہوئی اور دنیاوی اعتبار سے پاکستان اچھی پوزیشن پہ بھی آیا۔ پاکستان کو شروع سے مختلف قسم کے مسائل کا سامنا رہا ہے خاص طور اس دور میں دہشتگردی کا بہت سامنا رہا ہے، جس وجہ سے پاکستانی معیشت عروج سے زوال کی طرف آئی ہے لیکن اللہ کے فضل سے وہ بھی اب حالات بدل رہے ہیں اور امید کی جاسکتی ہے کہ امن وامان جب مزید بہتر ہوگا تو معاشی حالات بھی بہتر ہوجائیں گے۔ ان شاءاللہ۔
دوسرا اصل یا بنیادی پہلو اور مقصد جس نے مسلمانان ہند کو تحریک پاکستان کا ساتھ دینے اور اس کو قوت دینے کےلیے اکٹھا کیا اور اسکے ساتھ چلنے کےلئے اکٹھا کیا وہ تو یہ تھاکہ پاکستان میں اسلام کا نفاذ ہوگا، دین کے مطابق مسلمان زندگی بسرکرینگے لیکن اس حوالے سے ہر آنیوالے دن کے ساتھ ہم پیچھے ہی گئے ہیں اس میں بہت سے لوگوں کا قصور ہے سب سے پہلے حکومتوں کا ہے اور حکومتوں میں بھی بیوروکریسی کا ہے جو اپنی انگریزی اور مغربی تہذیب میں رنگے ہونے یا اس ترتیب کے حامل ہونے کی وجہ سے جو دل سے نہیں چاہتے کہ یہاں اسلام نافذ ہو پاکستان بننے سے پہلے کوئی بات نہیں تھی، سب کا ایک ہی نعرہ تھا، لیکن جوں ہی پاکستان بنا تو جلد یہ بات شروع ہوگئی کہ چلیں اسلام نافذ کرتے ہیں تو کون سا کریں؟یہ بات ان کی فضول تھی اور فضول ہے۔کیونکہ پاکستان بننے کے کچھ ہی سال بعد ابھی دستور نہیں بنا تھا تو مختلف جماعتوں کے جید علماءکرام اکٹھے ہوئے جو 31علماءکے 22 نکات مشہور ہیں انہوں نے بنائے اور ہرطبقے کے لوگ اس میں شامل تھے جنہوں نے کہا کہ دستوری اور قانونی حوالے سے ان نکات پر ہم اکٹھے ہیں اور سب کے یہ نکات متفقہ ہیں اسکے مطابق آپ قانون اور دستور بنائیں ہم سب متفق ہیں لیکن سیکولرطبقہ نے اپنے بڑوں کی مدد سے ان نکات کی جان نکال دی جس وجہ سے پہلے دن سے ہی اسلامی حوالے سے پاکستان کا جو مقصد تھا وہ پیچھے ہی جاتا رہا بہرحال حکومتوں اور افسرشاہی کی رکاوٹوں کی وجہ سے اسلام نافذ نہ ہوسکا اسکے بعد دینی جماعتیں اس نعرے پہ اور بعد میں تو متفق رہیں کہ اسلام آنا چاہیے لیکن پھر جو انکے دوسرے معاملات میں اختلاف ہیں اسکی وجہ سے حکومت اور افسرشاہی او راس طرح کی طاقتیں فائدہ اٹھاتی رہیں جس وجہ سے اسلام نافذ ہونے کا عمل پاکستان میں آگے کے بجائے پیچھے سے پیچھے جاتا رہا۔
ہمیں ایک دفعہ پھر تحریک پاکستان اور نظریہ پاکستان کی بنیادوں اور پھر اس نعرے پر کہ پاکستان کا مطلب کیا لا الہ الا اللہ کی طرف لوٹنا چاہیے اور اسے عملاً زندگی کے ہرشعبوں میں نافذ کرنے کیلئے تمام دینی وسیاسی جماعتوں کو کوشش کرنی چاہیے اس وقت ملک کا سب سے بڑا مسئلہ دہشتگردی ہے۔جس نے ہماری بنیادوں کو ہلا کر رکھ دیا ہے اس کا تدارک ہماری اولین ترجیح ہونی چاہیے۔ پاکستان کے ارد گرد اسکے دشمن جمع ہو چکے ہیں۔ بھارت جس نے دلی طور آج تک پاکستان کو تسلیم نہیں کیا کی طرف سے پاکستان کو غیر مستحکم کرنے کی سازشیں شروع دن سے جاری ہیں۔ دوسرے ہمسایہ ممالک کی سرحد سے بھی آئے روز مداخلت ہو رہی ہے۔ سیکورٹی اہلکاروں کو نشانہ بنایا جا رہا ہے۔ سانحہ کوئٹہ نے تو حد ہی کردی ہے ان حالات میں قومی یکجہتی کی اشد ضرورت ہے تمام اکائیوں کو سیاسی و مذہبی جماعتوں کو باہمی اختلافات بھلا کرقومی مفاد کر ترجیح دینا ہو گی پاک فوج اور انٹیلی جنس اداروں کی حوصلہ افزائی کرنا ہو گی ہر ادارے کو اپنی آئینی دائرہ کار میں رہ کر وطن عزیز کی سلامتی، ترقی اور خوشحالی کیلئے اپنا اپنا حصہ ڈالنا ہو گا بالکل وہی تحریک پاکستان والاجذبہ، آج بقائے اور تحفظ پاکستان کی تحریک میں بدلنا ہو گا۔ تب ہی حقیقی معنوں میں ہم اپنی نظریاتی اساس کی حفاظت کرسکیں گے۔

ای پیپر دی نیشن

آج کی شخصیت۔۔۔۔ جبار مرزا 

جب آپ کبھی کسی کے لیے بہت کچھ کہنا چاہ رہے ہوتے ہیں لفظ کہیں بھاگ جاتے ہیں ہمیں کوئی ایسے الفظ ملتے ہی نہیں جو اس شخصیت پر کہہ ...