آزادی خدا تعالیٰ کی خاص نعمتوں میں سے ایک ہے اس کی قدرو منزلت کا احساس صرف اُس وقت ہوتا ہے جب یہ کسی سے چھین لی جائے اسی لیے زندہ قومیں ایسی آزادی کی دل و جان سے حفاظت کرتی ہیں اور اس کے لیے بڑی سے بڑی قربانی دینے سے بھی گریز نہیں کرتیں۔جب ہم پاکستان کے حصول کے لیے قربانیوں کی بات کرتے ہیں تو اس ضمن میں جناب قائداعظم کا نام سب سے پہلے آتا ہے۔ وہ اس طرح کہ1946 میں جب پاکستان کے حصول کی جدوجہد اپنے عروج پر تھی تو ہمارے پیارے قائد کے پھیپھڑوں کی تکلیف شدت اختیار کر گئی۔ اس سلسلے میں انہوں نے اپنے ایک بہت ہی مخلص اور دیرینہ پارسی ڈاکٹر سے رجوع کیا تو اُس نے جانچ پڑتال کے بعد اُن کو بتایا کہ وہ پھیپھڑوں کے مرض میں مبتلا ہیں اُس کا علاج فوری طورپر کرواناگزیر ہے ورنہ وہ جان سے بھی جا سکتے ہیں قائد نے اپنے دوست سے کہا کہ وہ اُن کاعلاج کرے لیکن اس نے ان کو بتایا کہ اُن کا علاج صرف انگلستان میں ممکن ہے اُس نے کہا کہ آپ کے پاس مال ودولت کی کمی نہیں آپ فوری طور پر علاج کے لیے انگلستان روانہ ہو جائیں۔ قائد نے اپنے ڈاکٹر دوست سے دریافت کیا کہ اُن کے علاج کے لیے کتنا عرصہ درکا رہو گا۔ ڈاکٹر نے کہا کہ کم از کم ایک سے ڈیڑھ سال ۔ یہ سن کر قائداعظم نے فرمایا کہ میں اگر اس وقت ملک سے باہر چلا گیا تو پاکستان کبھی نہ بن سکے گا۔ یہ بات حقیقت پر مبنی تھی کیونکہ انگریز ، ہندو اور بہت سے غدارمسلمان بھی اُن کی شدید مخالفت میں مصروف تھے۔ قائداعظم نے اپنے پارسی ڈاکٹر سے یہ وعدہ لیا کہ وہ اُن کی علالت کا ذکر کسی صورت میں کسی اور سے نہیں کرے گا۔ انہوں نے پاکستان کی خاطر سب سے پہلے اپنی جان نچاور کر دی میرے خیال میں وہ پاکستان کے پہلے شہید ہیں۔اس کے بعد جو کچھ ہوا اور جس طرح مسلمانوں کو ہندوئوں اور سکھوں نے مل کر قتل و غارت اور مظالم کا نشانہ بنایا وہ خون اور آنسوئوں کی درد بھری داستان ہے۔اُس وقت کے بہت سے واقعات کا میں چشم دید گواہ ہوں اور جو کچھ میں نے دیکھا وہ مجھے بہت اچھی طرح یا د ہے۔ 1946ء میں راقم اپنے چچا کے ساتھ امرتسر میں کڑا مہان سنگھ میں رہائش پذیر تھا۔ ہمارا فلیٹ کونے پر واقع تھا اورسامنے سے گزرنے والی بڑی سٹرک ہمیں صرف نظر آتی تھی۔ ہمارے سامنے والے دومنزلہ مکان میںایک مسلمان عبداللہ صاحب رہتے تھے۔ اُن کی ایک جوان بیٹی تھی اُن کی زوجہ کا انتقال ہو گیا تھا۔ ایک رات تقریباً 1 بجے کے قریب ہندو اور سکھوں نے اُن کے مکان کا محاصرہ کر لیا اور دروازے توڑ کر گھر میں داخل ہو گئے جب انہوں نے اُن کی بیٹی کو اغواء کر نے کی کوشش کی تو اُس نے اوپر والی منزل سے چھلانگ لگا دی اور وہ اللہ کو پیاری ہو گئی۔ اس نوعیت کے واقعات روز کا معمول بن گئے تھے۔ اُن دنوں پانی کے لیے گھروں میں زیادہ تر کنویں بنائے جاتے تھے۔
امرتسر میں ایک وقت ایسا بھی آیا کہ شہر میں وبا پھیلنے کا خدشہ پیدا ہوگیا کیونکہ جواں لڑکیاں اپنی عزت بچانے کے لیے کنوئوں میں چھلانگیں لگا دیتی تھیں۔ اسی طرح شہر کے باہر ایک نہر بہتی تھی۔ اُس میںجوان عورتیں اور لڑکیاں ڈوب کر اپنی عزت بچاتی تھیں۔ نیز مسلمان خاندان ہجرت کی غرض سے قافلوں کی صورت میں سفر کرتے تھے اُن پر ہندو اور سکھ حملے کرتے اور اُن کو لوٹ مار اور قتل و غارت کا نشانہ بناتے اور جوان لڑکیوں کو اغواء کر لیتے ۔
اس سلسلے میں ایک واقعہ قابل ذکر ہے میں1971ء میں لاہور بارڈ پر مقیم تھا جس جگہ میرا ٹینٹ لگا تھا اُس جگہ کا مالک ایک دن مجھے ملنے آیا گفتگو کے دوران اُنھوں نے مجھے بتایا کہ وہ چند سال پہلے تک اس علاقے کا سب سے بڑاسمگلر تھا لیکن وہ یہ کام ترک کر چکا ہے ۔ وجہ پوچھنے پر اُس نے بتایا کہ چند سال پہلے وہ سمگلنگ کے سلسلے میں سرحد پار گیا بھارت کی طرف ایک سکھ کو سامان دیا ابھی میں اُس کے گھر کے باہر ہی تھا تو بی ایس ایف کا چھاپہ پڑگیا سکھ مجھے چھپانے کے لیے اپنے گھر لے گیا اور ایک کمرے میں اپنی بیوی کے ساتھ بند کر دیا۔ اُس نے پی ایس ایف کے اہل کاروں کو کہا کہ اس کمرے میں میری بیٹی اور داماد سو رہے ہیں اور اُس اُن سے التجا کی وہاں تلاشی نہ لی جائے۔ اس دوران سکھ کی بیوی نے مجھ سے سوال کیا کہ تم ایک پاکستانی مسلمان ہو کر اپنے ملک سے دشمنی صرف پیسے کے لیے کررہے ہو میں یہ سن کر حیرت زدہ رہ گیا اُس نے میری کیفیت بھانپ کر مجھے بتایا کہ وہ مسلمان عورت ہے۔ اُسے یہ سکھ بٹوارے کے دوران اٹھا کر لے آیا تھا۔ پھر اُس نے کہا کہ تم کو اپنا ملک پیار نہیں؟ میں تو اُس حالت بھی پاکستان کے لیے دعائیں کرتی ہوں ۔ اس آنسو بھری آنکھوں سے مجھے دیکھا اور کہا میری جیسی ہزاروں تمہاری بہنیں بھارت میں کسمپرسی کی حالت میں زندگی گزار رہی ہیں۔ اُس دن کے بعد میں سمگلنگ سے توبہ کر لی۔
قارئین! ہم نے آزادی کی قیمت خون اور اپنی بہنوں اور بیٹیوں کی عصمت اور عزت سے ادا کی ۔ قائد نے اپنی جان دے دی مگر آزادی کے لیے اپنا علاج نہیں کروایا۔ کیا آج کوئی ایسا لیڈر ہے جو اس پایہ کا ہو۔ ہمارے لیڈز کے بچے بیرو ن ممالک میں کاروبار کر رہے ہیں۔ ہمارے اربوں ڈالر بیرونی ممالک میں جمع ہیں اور وہاں پر ہمارے سیاسی عمائدین کے مہنگے مہنگے محلات ہیں۔ کیا ان لیڈرز کے بارے میں کہا جا سکتا ہے کہ اُن کو اس ملک کی آزاد ی کے لیے دی جانے والی قربانیوں کا احساس ہے؟ دراصل اُن کا اس ملک سے تعلق صرف دولت کمانے اور باہر بھیجنے تک ہی محدود ہے۔ خدا ہمارے لیڈرز کو ہدایت دے اور ہم پر رحم کرے۔ آمین!