پاکستان کے مطالبے کے بعد مسلمانوں نے 1940ء سے لیکر 1947ء تک اپنی منزل کے حصول کیلئے اپنا تن من اور دھن دائو پر لگا دیا۔ انہوںنے آزادی کے دیپ اپنے لہو سے روشن کرنے کا عزم کیا اور میدان عمل میں پہلے سے زیادہ جنون اور جذبے سے مصروف عمل ہو گئے تب جا کر کہیں 14؍اگست 1947ء کو اپنی منزل پانے میں کامیاب ہو سکے لیکن!!! قیام پاکستان کے بعد تحریک پاکستان میں موجود تعمیری جذبات قیام پاکستان کے بعد منفی صورت میں تبدیل ہو گئے۔ وہی مسلمان جو کہ بھائی چارے کے جذبات سے لبریز تھے۔ منزل کے حصول کے بعد آپا دھاپی اور نفسا نفسی کی دوڑ میں اپنے ہی بھائیوں کے خلاف برسر پیکار ہو گئے۔ لوٹ مار اور کھینچا تانی کے ماحول میں اکثریت قیام پاکستان کے مقصد ہی کو بھول کر لالچ اور ہوس میں مبتلا ہو گئی۔ نتیجتاً وہی برائیاں اور غصہ جو پہلے غیروں کیلئے تھا۔ اب اس کا شکار اپنے ہونے لگے اور منزل کے حصول کے بعد خوشحالی کا سفر ہوتے ہی تحمل اور برداشت کے جذبات کی کمی کی بدولت ختم ہونے لگا اور پھر جب بھی کبھی پاکستان استحکام کی جانب بڑھنے لگا اس کیلئے مشکلات کھڑی کر دیں جاتیں تاکہ پاکستان مستحکم نہ ہو سکے۔ ان انمول، نایاب جذبہ جس کی کوئی قیمت نہ تھی رفتہ رفتہ ناپید ہونے لگا۔ اس نایاب جذبے کی جگہ حسد، بغض، کینے جیسے منفی جذبات کود کر پروان چڑھنے لگے۔ اعلیٰ اقدار کی جگہ منفی رویوں نے لے لیں۔ قیام پاکستان کو تقریباً 70سال ہونے کو ہیں لیکن آج کشمیری اپنی آزادی کیلئے تڑپ رہے ہیں ان پر ناقابل بیان مظالم انسانی حقوق کے علمبرداروں کیلئے باعث شرم ہے اور نیتوں کے فتور کی عکاسی واضح کرتی ہے کہ کس طرح اہل کشمیر کو انکے بنیادی حق سے کس طرح محروم رکھا جا رہا ہے۔آج ضرورت اس امر کی ہے کہ پاکستان جو ہم سب کا گھر ہے اس کو خوشحال اور خود مختار ملک بنانے کے لے سب سے پہلے خود احتسابی کے عمل سے جو اس کا استحکام چاہتا ہے گزرے پھر چاہے وہ جس شعبے سے وابستہ ہے اپنے اپنے میدان میں ایمانداری اور نیک نیتی سے پاکستان کی خدمت کا عزم کرے۔ آج پاکستان میں بسنے والے ہر فرد کا فرض ہے کہ خود احتسابی کے عمل سے گزر کر اپنی اصلاح کریں اور اس کیلئے ہر قربانی سے گزرنے کیلئے تیار رہیں۔ اس وطن کے گوشے گوشے کو بغیر کسی غرض، لالچ یا ذاتی مفاد کے نیک نیتی کے ساتھ بنانے سنوارنے میں اپنا تن من اور دھن قربان کرنے کیلئے ہر لمحے تیار رہیں اور اس پر کبھی آنچ نہ آنے دیں۔ آج مملکت خداداد کے مکینوں کی ذمہ داری ہے کہ وہ اس خطہ پاک کی حفاظت اور اسے ترقی یافتہ ممالک کی صف میں کھڑا کرنے کیلئے اپنے شب و روز ایک کر دیں تاکہ وہ استقبال کر سکیں ایک ایسے دور کا جس کا خواب دیکھتے تھے۔ قائد اور اقبال نے اور ان کے مجاہدوں اور غازیوں نے جنہوں نے اس خطہ پاک کے حصول کیلئے اپنا تن من اور دھن سب کچھ قربان کر دیا۔ اگرچہ آج پاکستان درست سمت سفر پر گامزن ہے لیکن ضرورت اس امر کی ہے کہ اس صورتحال میں اپوزیشن بھی اپنا حصہ ڈالے بجائے احتجاجی راستوں پر چلنے کے تنقید برائے تعمیر ہونا چاہیے تاکہ تنقید برائے تنقید کا راستہ چنا جائے جب پوری قوم متحد ہو کر پاکستان کیلئے ایک ہو کر تعمیر و ترقی کے راستے کا انتخاب کرے گی تو وہ دن دور نہیں جب پاکستان اہل عالم کے سامنے ایک قابل فخر اسلامی جمہوری فلاحی مملکت کے طور پر ابھرے گا۔ انشاء اللہ وہ وقت دور نہیں رہے گا جب 1947ء میں چلنے والا کارواں اپنی منزل کے حصول کیلئے چلا تھا۔ آج اسی جذبہ کے تحت، ایک جھنڈے تلے ایک بار پھر منزل کو پانے کیلئے ہم تگ و دو کریں۔