لاہور (فرخ سعید خواجہ) پنجاب میں بچوں کے اغوا اور گمشدگی کے پے در پے واقعات کا میڈیا میں رپورٹ ہونے کا نوٹس لیتے ہوئے وزیراعلیٰ پنجاب محمد شہباز شریف نے محکمہ داخلہ پنجاب، پولیس اور انٹیلی یجنس اداروں کے ذریعے جو تحقیقات کروائی ہے اس کی رپورٹ سامنے آئی ہے۔ رپورٹ کے مطابق پنجاب میں بچوں کے اغوا یا گمشدگی کے واقعات میں کوئی منظم مافیا یا ”گینگ“ ملوث نہیں۔ ذرائع کے مطابق مختلف اداروں نے بازیاب ہونے والے 1808 بچوں سے حاصل ہونے والی معلومات کی روشنی میں یہ نتیجہ اخذ کیا ہے تاہم وزیراعلیٰ پنجاب محمد شہباز شریف کی ہدایت پر پنجاب حکومت نے وزیراعلیٰ کے مشیر اور سابق آئی جی پولیس رانا محمد مقبول کی سربراہی میں سٹیئرنگ کمیٹی قائم کر دی ہے جو جائزہ لے گی کہ گذشتہ پانچ سال کے دوران جو بچے بازیاب نہیں ہو سکے ان کا کیا کیا گیا۔ سٹینڈنگ کمیٹی دیکھے گی کہ یہ بچے کیوں نہیں ملے۔ 90 شاہراہ قائداعظم پر وزیر قانون پنجاب رانا ثنااللہ نے سینئر صحافیوں، اینکر پرسنز سے ملاقات کی اور اس مسئلہ پر روشنی ڈالی۔ اس موقع پر ہوم سیکرٹری پنجاب میجر (ر) عظیم سلیمان، ایڈیشنل آئی جی پولیس آپریشن کیپٹن (ر) عارف نواز، سی سی پی او لاہور کیپٹن (ر) امین وینس، چائلڈ پروٹیکشن بیورو کی چیئرپرسن صبا صادق ایم پی اے اور ڈائریکٹر جنرل فاطمہ سمیت دیگر حکام موجود تھے۔ ہوم سیکرٹری اور ایڈیشنل آئی جی پولیس نے اغوا کی وارداتوں کے حوالے سے صحافیوں کو بریفنگ دی۔ صبا صادق نے چائلڈ پروٹیکشن بیورو کی کارکردگی پر روشنی ڈالی۔ کوہاٹ، پشاور اور چیچہ وطنی سے بھاگ کر لاہور آنے والے تین بچے بھی میڈیا کے سامنے پیش کیے گئے۔ جو چائلڈ پروٹیکشن بیورو کی تحویل میں ہیں۔ صبا صادق نے انکشاف کیا کہ افغانستان سے لائے گئے۔ 11 بچے پولیس نے شاہدرہ کے ایک مدرسے سے برآمد کر کے چائلڈ پروٹیکشن بیورو کے حوالے کئے جنہیں افغانستان حکومت سے بات چیت کر کے افغانستان کے حوالے کر دیا گیا۔ ہوم سیکرٹری اور پولیس حکام کی بریفنگ کے مطابق بچوں کے اغوا کے واقعات اکا دکا گمشدگی کے واقعات زیادہ ہیں۔ گمشدہ بچوں کی اکثریت پولیس کی مختلف بیان کردہ وجوہات کے تحت گھروں سے بھاگ نکلتی ہے اغوا کے واقعات میں خاندانی دشمنی بھی ایک اہم عنصر ہے۔ اس سوال پر کہ پنجاب میں سب کچھ ٹھیک ہو رہا ہے تو پھر سپریم کورٹ نے اغوا کی وارداتوں کا نوٹس کیوں لیا ہے جس کے بعد پنجاب حکومت نے تیزی دکھائی۔ رانا ثنااللہ نے کہا کہ ہماری تیزی سپریم کورٹ سے منسلک نہیں بلکہ میڈیا نے جب یہ معاملہ اٹھایا کہ اغوا کا وارداتوں کو کوئی بڑا اغوا کرنے والا گینگ آپریٹ کر رہا ہے۔ ہم نے ڈیٹا اکھٹا کروایا اور اب تک کی شہادتوں کے مطابق ایسی بات نہیں نکلی جہاں تک سپریم کورٹ کے نوٹس لینے کا تعلق ہے یہ ان کا اپنا عمل ہے۔ پنجاب کے اداروں نے بڑی ایکسرسائز کی جس کے نتیجہ میں معلوم ہوا ہے کہ کوئی ”گینگ“ یا ”مافیا“ نہیں ہے۔ اغوا کر کے اعضا نکالنے کی بات درست ثابت نہیں ہوئی۔ اگر کسی کا دعویٰ ہے کہ ایسا ہے تو ثبوت پیش کرے۔ پنجاب کے چوٹی کے ڈاکٹروں کا اجلاس بلایا گیا جس میں ڈاکٹروں نے کہا کہ ایسا ممکن نہیں کسی ایک فرد کا گردہ دوسرے شخص کو لگانے کے لیے ٹشو میچنگ ضروری ہوتی ہے۔ 5 سال سے کم بچے کا گردہ کی کو لگایا ہی نہیں جا سکتا۔ نیشنل ایکشن پلان پر پنجاب مکمل طور پر عملدرآمد نہ کیے جانے کے حوالے سے سوال کے جواب میں رانا ثنااللہ نے کہا کہ ایک معزز ہستی کی طرف سے یہ بات کی گئی ہے ان کی رائے سے متفق نہیں ہے۔ پنجاب کی حد تک یہ بات درست نہیں۔ نیشنل ایکشن پلان کوئی گاڑی نہیں ہے جسے سرپٹ چھوڑا جائے۔ اس کے 20 نکات میں 3 کراچی اور فاٹا سے متعلقہ ہیں باقی 17 کا تعلق تمام صوبوں کے ساتھ ہے۔ انہوں نے اس موقع پر پنجاب کے مدارس کی اے سے زیڈ سرچ کی اور اعداد و شمار پیش کیے۔ انہوں نے کومبنگ آپریشن شروع کیے جانے کے حوالے سے میڈیا پر خبر کا ذکر کرتے ہوئے اسے غلط قرار دیتے ہوئے کہا کہ پچھلے دو سال سے کومبنگ آپریشن جاری ہے۔ کومبنگ آپریشن وہاں ہوتا ہے جس علاقے پر شبہ ہو اس علاقے کا محاصرہ کیا جاتا ہے۔ پولیس گھر گھر تلاشی لیتی ہے۔ وہاں لوگوں کے شناختی کارڈ چیک کیے جاتے ہیں جن پر شبہ ہو ان کی نادرا سے تصدیق کروائی جاتی ہے۔ غیرتصدیق شدہ شناختی کارڈ کے حامل کو گرفتار کیا جاتا ہے۔ پچھلے چار ماہ میں پنجاب میں 1089 آپریشن ہوئے۔ ان میں 190 جوائنٹ آپریشن تھے۔ 898 پولیس نے دیگر اداروں کے ساتھ مل کر کیے۔ 345 ناجائز ہتھیار برآمد کئے گئے اور 67 افراد نظر بند کیے گئے۔
رانا ثنا
بچوں کے اغواءمیں منظم گینگ ملوث ہے‘ نہ نیشنل ایکشن پلان گاڑی جو سرپٹ دوڑا دیں : رانا ثناء
Aug 14, 2016