آزادی کے ستر سال....ہم نے کیا کھویا کیا پایا

Aug 14, 2017

جنرل (ر) مرزا اسلم بیگ

نظریہ پاکستان کے تحت ہم نے 1947ءمیں پاکستان بنایا یعنی مسجد بنالی لیکن اس کی حفاظت نہ کر سکے اور یہ مسجد 1971ءمیں دو حصوں میں تقسیم ہو گئی۔ پھر بھی ہم نمازی نہ بن سکے لیکن ایک دانشمند لیڈر نے ہمیں 1973ءکا آئین دیا اور ہمارے مقصد حیات کا تعین کیا مگر ہم اپنے مقصد حیات کے تقدس کو بھی پامال ہونے سے نہ بچا سکے اور یہی وہ کشمکش ہے جو آج ہماری قومی سلامتی کا سنگین مسئلہ ہے۔ اس عرصے میں ہم نے کن کن محاذوں پر کامیابیاں حاصل کیں اور کہاں کہاں ہمیں ناکامیوں کا منہ دیکھنا پڑاہے’ اس کا تفصیلی جائزہ لینا ضروری ہے تاکہ مستقبل کی منصوبہ بندی موثر طور پر کی جا سکے۔
ان ستر سالوں میں مسلح افواج نے 35 سال حکمرانی کی ہے اور وطن عزیز کی سلامتی کو درپیش اندرونی و بیرونی خطرات سے نمٹنے کیلئے بے مثال قربانیاں دی ہیں جس سے بچہ بچہ واقف ہے۔ پاکستان کی تعمیر اور ترقی میں فوج کا کردار مثالی ہے لیکن چند اعلیٰ عسکری قائدین نے اپنی نااہلی کے سبب ان قربانیوں کو ضائع کر دیا اور ملک کو بڑا نقصان پہنچایا ۔ مثلاً قیام پاکستان کو دس سال بھی نہیں ہوئے تھے کہ جنرل ایوب خان نے امریکہ کو اپنا آقا بنا لیا اور جلد ہی اپنے اس فیصلے پر پچھتائے ،کتاب لکھ ڈالی لیکن ”اس کمبل“ نے آج تک ہماری جان نہیں چھوڑی۔ ایوب خان مایوس ہوئے تو اقتدار جنرل یحییٰ خان کے حوالے کر دیا جنہوں نے ایسی حکمت عملی اپنائی کہ ملک دولخت ہو گیا۔ 1971ءمیں جنرل نیازی نے سقوط ڈھاکہ کے معاہدے پر دستخط کرنے میں کوئی شرم محسوس نہیں کی۔ جنرل ضیاءالحق نے اپنے آقاﺅں کی خوشنودی میں منتخب وزیراعظم کو پھانسی دینے میں کسی ندامت کا اظہار نہیں کیا۔ جنرل پرویز مشرف نے ملکی سلامتی کو دا¶ پر لگا دیا،اور برادر پڑوسی ملک افغانستان کے خلاف امریکہ کی جنگ میں شامل ہونے سے نہ صرف پاکستان پر دہشت گردی کا عذاب نازل ہوا بلکہ افغانستان کے ساتھ ایک نیا محاذ بھی کھل گیا ہے۔ حیرت کی بات ہے کہ اس جرم میں ہماری عدلیہ ،انتظامیہ ،کچھ سیاسی و دینی جماعتیں اور اشرافیہ برابر کے شریک رہے ہیں۔
جنرل مشرف کی پالیسی کا نتیجہ ہے کہ ہماری فوج افغانستان کی جنگ آزادی سے لاتعلق ہو چکی ہے اور ہم یہ نہیں سوچتے کہ چار کروڑ پچاس لاکھ پختون ڈیورنڈ لائن کی دونوں جانب رہتے ہیں۔ ان میں سے ساٹھ فیصد پاکستان میں ہیں؛ چالیس فیصد افغانستان میں اور دس فیصد پاکستان کے دل یعنی کراچی میں آباد ہیں ،جنہوں نے گزشتہ تین دہائیوں میں دنیا کی بڑی بڑی قوتوں کو شکست سے دوچار کیا ۔ ان کی اس جدوجہد آزادی میں پاکستانی پختونوں نے ان کی بھرپور مدد کی اور یہ مدد اس وقت تک جاری رہے گی جب تک کہ وہ غاصب قوتوں سے اپنی آزادی چھین نہیں لیتے۔ ایک عرصہ سے پختون قوم کو تقسیم اور علیحدہ کرنے کی کوششیں جاری ہیں لیکن گزشتہ ایک سو پچیس سال سے ڈیورنڈ لائن اپنے مقاصد کے حصول میں ناکام رہی ہے۔ طاقت کا استعمال ہمیشہ ہمارے لئے نقصان دہ ثابت ہواہے اور اب قائد اعظم کے نظریے کو عملی جامہ پہنانے کاوقت آگیا ہے، قائد اعظم نے پختون قوم کو متحد رکھنے کیلئے پاکستان اور افغانستان کی سرحدوں سے فوج کو ہٹا لیاتھا اور اس کی نگرانی پختونوں کو سونپی تھی۔ قائداعظم کا وژن پختون قوم کی یکجہتی اور اس کے پھیلا¶ سے متعلق تھا جو ڈیورنڈ لائن سے آگے کوہ ہندوکش تک اور اس سے آگے آمو دریا تک پھیلی ہوئی ہے۔ یہی وہ حقیقت ہے جسے جھٹلانے کی کوشش میں ہم نے ان سرحدوں پر دوسرا محاذ کھول لیا ہے۔
ان تمام تر غلطیوں کے باوجود ہماری فوج نے 1980ء کی دہائی میں وہ صلاحیت حاصل کر لی کہ جس کے سبب اسے دنیا کی بہترین افواج میں شمار کیا جاتا ہے۔ اسی دور میں دو بڑی تبدیلیاں رونما ہوئیں جو ہمارے تجدیدی عمل کو آگے بڑھانے میں معاون ثابت ہوئیں۔ 1980کی دہائی میں Armed Forces War College کی بدولت ہماری عسکری قیادت اعلیٰ عسکری تعلیم سے آراستہ ہو چکی تھی اور فوجی فارمیشنوں،اداروں اور اکثر عسکری شعبوں کی سربراہی وار کالج کے فارغ التحصیل افسروں کے ہاتھوں میں تھی جنہوں نے بری فوج کے تمام نظام کو ترقی یافتہ بنانے کا جامع منصوبہ بنایا تاکہ مستقبل میں پیش آنے والے کثیرالجہتی خطرات سے احسن طریقے سے نمٹا جا سکے۔ دوسری بڑی تبدیلی چین کے ساتھ ہماری دفاعی شراکت مثالی ہونے کے ساتھ ساتھ منفرد حیثیت حاصل کر چکی تھی۔ اسی شراکت کی بدولت ہماری فوج 1971ءکی جنگ کے بعد اپنا کھویا ہوا مقام حاصل کرنے میں کامیاب ہوئی۔ ہماری عسکری قیادت اب اعلیٰ عسکری تعلیم سے مزین ہے اور ساتھ ہی ہمیں چین کی غیر مشروط مدد بھی حاصل ہے جسے ہم رحمت ایزدی سمجھتے ہیں۔ یہی دو اہم عوامل ہیں جن کی بدولت پاکستانی فوج ایک جدید ترین فوج بننے کے اہداف حاصل کر سکی ہے اور نوے فیصد تک خودانحصاری اور چالیس دنوں تک جنگ لڑنے کی صلاحیت بھی حاصل ہے۔ الحمد للہ
ہماری فوج کا ترویجی عمل ایک تذویراتی حقیقت ہے جو دشمنوں کے عزائم کے خلاف مضبوط چٹان کی مانند ہے، قومی سلامتی اور ترقی و کمال کی ضمانت بھی ہے۔ پاکستان اور چین کے درمیان اس اشتراک کی بدولت ہمارا تزویراتی محور (Strategic Pivot)قائم ہے۔ الحمدللہ ہم نے اب وہ صلاحیت حاصل کر لی ہے جس کی بدولت اپنی تزویراتی سوچ کوجنگی منصوبوں سے ہم آہنگ کیا ہے، یعنی پہلے حملہ کرنے ( Pre emption)اور جارحانہ دفاع کی صلاحیت ( Defense Offensive ) میں حقیقت کا رنگ بھرنے اور حریف قوت کے خلاف فیصلہ کن جنگ جیسے اہداف حاصل کئے ہیں۔ یہ ایسی صلاحیت ہے جو بذات خود ”مزاحمتDeterrence “ بھی ہے اور جنگ شروع ہونے سے پہلے ہی فتح یاب ہونے کی نویدبھی ہے۔ یہ امر باعث اطمینان ہے کہ جدوجہد کی اس گھڑی میں ہم تنہا نہیں ہیں، قوم ہمارے ساتھ ہے۔ یہ ہماری قوم ہی ہے جس نے انتہائی مشکل حالات کا نہ صرف مردانہ وار مقابلہ کیا ہے بلکہ عزت و وقار سے زندگی گزارنا بھی جانتی ہے۔ دوسری اہم بات جو ہمارے لئے انتہائی حوصلہ افزا ہے وہ ہماری مغربی سرحدوں کے پار افغانستان میں حریت پسندوں کی جدوجہد آزادی کی کامیابی ہے جواب اپنے منطقی انجام کے قریب ہے۔ سپر پاورز کے توسیع پسندانہ عزائم کے دن گزر چکے ہیں اور عنقریب افغانیوں کے غلبے کا سورج طلوع ہونے والا ہے۔
ہماری فوج کو اپنی ماضی کی غلطیوں کا احساس ہے اور اپنی قومی ذمہ داریوں کا بھی ادراک ہے لیکن ہماری سب سے بڑی کمزوری ہماری قوم کی پراگندہ سوچ ہے جوبے حد خطرناک ہے۔ اس خطرے سے ترکی کے صدر نے پاکستان کے دورے کے موقع پر قوم کو آگاہ کیا تھاکہ ”پاکستان کی سلامتی کو فتح اللہ گولن طرز کے خطرات کا سامنا ہے“ جس سے نمٹنے کیلئے ترجیحی بنیادوں پر اقدامات اٹھانے کی ضرورت ہے۔ پاکستان کی سیاسی و نظریاتی تفریق خطرناک ہوتی جا رہی ہے جو فوری تدارک کی متقاضی ہے۔ہماری نظریاتی تفریق اور نظریات سے عاری موجودہ سیاسی نظام ان مشکل حالات کا مقابلہ کرنے کی صلاحیت نہیں رکھتا جو ایک خطرناک صورت حال ہے۔ اللہ تعالیٰ نے ہمیں نظام حکومت منتخب کرنے کااختیاردیا ہے جس کی بنیاد قرآن و سنہ کے اصول ہیں۔ یہی ہمارا نظریہ حیات ہے جس کی تشریخ1973ء کے آئین میں ان الفاظ میں کی گئی ہے:
”پاکستان کا نظام حکومت جمہوری ہو گا جس کی بنیاد قرآن و سنہ کے اصولوں پر قائم ہو گی۔“
لیکن بدقسمتی سے ہم نے قرآن و سنہ کے اصولوں کو پس پشت ڈالتے ہوئے صرف جمہوریت کو ہی ترجیح دی ہے۔ نہ ماضی کی کسی حکومت کو’ نہ موجودہ حکومت کو اور نہ ہی متعدد مذہبی جماعتوں میں سے کسی کو یہ توفیق ہوئی ہے کہ وہ قوم کی نظریاتی شناخت کو محفوظ بنانے کی طرف توجہ دیتا۔ ہم اپنے بچوں کو مسلم شناخت دینے میں ناکام ہوئے ہیں کیونکہ ہمارا نظام تعلیم قرآن و سنہ کے اصولوں سے یکسر عاری ہے۔ ہماری سیاسی و نظریاتی تفریق کاسبب ہمارا برسراقتدار طبقہ ہے’ جس نے ہمارے معاشرے کولبرل، سیکولر، روشن خیال اور قوم پرست گروپوں میں تقسیم کر رکھا ہے۔ مذہبی طبقات نظراندازا ہونے کے سبب نمایاں سیاسی مقام نہیں رکھتے اور نہ ہی حکمرانی سے متعلق معاملات یا پالیسی سازی کے عمل میں ان کا کوئی عمل دخل ہے۔ وہ تو بذات خود زیادتی کا شکار ہیں اور ہمارے عوام انہیں ووٹ نہیں دیتے۔ ہماری دینی جماعتیں اپنی ظاہری اور باطنی کاوشوں کے باوجود، جن کا پرچار میڈیا پر دن رات ہوتا ہے، پاکستانی قوم کے رخ کو درست سمت میں رکھنے میں ناکام ہیں۔
ہمارے قومی نظریہ حیات کے دونوں عناصر کے مابین توازن پیدا کرنے کا ایک ہی راستہ ہے یعنی جمہوریت ہمارا نظام حکمرانی ہو گا اور قرآن و سنہ اس نظام کو نظریاتی تحفظ فراہم کرے لیکن ہماری بدقسمتی ہے کہ ہمارے ارباب اختیار جنہوں نے”اسلامی جمہوریہ پاکستان کے آئین کی قسم کے مطابق آئین کے تحفظ اور دفاع کا حلف اٹھا رکھا ہے “وہ قومی نظریہ حیات کے تقدس کو تحفظ فراہم کرنے میں ناکام ہیں۔ لہٰذا موجودہ ابتر صورت حال کے تدارک کی ذمہ داری جہاں ارباب اختیار پر عائد ہوتی ہے وہاں سیاسی اور دینی جماعتوں کی بھی اولین ذمہ داری ہے کیونکہ لبرل اور سیکولر عناصر ملکی معاملات سے مذہب کو الگ کر دینا چاہتے ہیں۔ ان کی دانست میں ”انسانی بقا کا محور اللہ تعالیٰ کی ذات کی بجائے ترقی پسندانہ نظام ہے جو شخصی خودمختاری کا قائل ہے۔ اولیت اللہ تعالیٰ کی ذات کو نہیں بلکہ انسان کو حاصل ہے“۔ نعوذ باللہ۔ بنگلہ دیش اس امر کی واضح مثال ہے لیکن پاکستان کا معاملہ اس سے بہت مختلف ہے۔ خدانخواستہ اگر ویسی صورت حال پیدا ہوئی تو پاکستان ایک طوفان میں گھر جائے گا۔ کچھ ایسے ہی حالات 1965-66 میں انڈونیشیا کو درپیش تھے جب سوشلزم اور کیمونزم کی تبلیغ کی جا رہی تھی جس کے خلاف وسیع پیمانے پر احتجاجی تحریک چلی اور خانہ جنگی ہوئی جو ڈیڑھ ملین عوام کی موت کا سبب بنی اور آخر کار صدر سہارتو نے اقتدار سنبھالا۔ خدانخواستہ اگر ہم اس گرتی ہوئی صورت حال کا تدارک کرنے میں ناکام رہے تو ہمیں تباہ کن خطرات کا سامنا ہو گا کیونکہ پاکستان انڈونیشیا کی طرح جزیرہ نہیں ہے۔ ہمارے پڑوس میں انقلابی ایران اور افغانستان جیسے جہادی ممالک ہیں جو خاموش نہیں بیٹھیں گے ایک طوفان اٹھ کھڑا ہو گا جسے سنبھالنے والا کوئی نہیں ہو گا۔
آج ہم اس مقام پر ہیں جہاں ہماری افواج اپنی جغرافیائی سرحدوں کے تحفظ کی بھرپور صلاحیت رکھتی ہیں لیکن ہماری سیاسی و مذہبی قیادت اپنی نظریاتی سرحدوں کو تحفظ دینے میں ناکام ہیں۔ ہمارا نظریہ حیات کمزور ہو چکا ہے اور جب نظریہ حیات کمزور ہو جائے تو قوم باوقار زندگی گزارنے کے حق سے محروم ہو جاتی ہے۔ آج جو سیاسی منظر نامہ ہمارے سامنے ہے وہ ہم سب کیلئے اور خصوصاً ہمارے قائدین کیلئے لمحہ فکریہ ہے۔ ایک جانب عدلیہ اور ملکی سلامتی کے محافظ اداروں پر تنقید کے نشتر چلائے جا رہے ہیں تو دوسری جانب انسانیت و اخلاقیات کے تمام تر تقاضوں کو بالائے طاق رکھتے ہوئے انتہائی بھونڈے طریقوں سے ایک دوسرے کی کردار کشی کی جا رہی ہے۔ عام آدمی سوچنے پر مجبور ہے کہ کیا یہی جمہوریت ہے اور یہی اس کے ثمرات ہیں ہمارے ایک دانشور کے بقول ”ہماری قوم آج ان مسائل کی بجائے اپنے آپ سے برسرپیکار ہے جو ایک تباہ کن شغف ہے۔ اس میں جیت ہی ہماری سب سے بڑی ہار ثابت ہوگی“۔ ان الفاظ میں ایک واضح پیغام بھی ہے کہ اگر ہماری سیاسی و دینی جماعتیں اپنے فکر و عمل سے اپنی استعداد اور کارکردگی کا معیار عسکری اداروں کے برابر نہیں لا سکتے تو جمہوری قوتوں کو کبھی بھی استحکام حاصل نہیں ہو گا، ایک خوف طاری رہے گا جس کے سبب حکومتیں اعصابی دباﺅ میں رہ کر غیر اخلاقی حرکتوں کی مرتکب ہوتی رہیں گی۔ ایسی حرکتیں جو پاکستانی قوم کی پہچان ہرگز نہیں ہیں۔

مزیدخبریں