پاکستان کو معرض وجود میں آئے 70 برس ہوچکے، ان 70 برسوں میں 70ہزار سے زائد ایسے واقعات ہیں جو ہمیں ایک قوم ہونے کا ثبوت فراہم نہیں کرتے۔ آج ہم ایک بار پھر 70برس قبل اسی مقام پر کھڑے ہیں جہاں سے تحریک پاکستان کا آغاز ہوا۔ وہی گروہ بندیاں، دھڑے بندیاں، مخالفتیں، نفرتیں، سیاسی، مذہبی، گروہی دھڑوں میں بٹے ہوئے لوگ، جو کسی بھی اعتبار سے قوم ہونے کا نقشہ پیش نہیں کرتے ہم نے جن مقاصد کے حصول کے لئے جانوں و عصمتوں کے نذرانے دیئے وہ تمام تر مقاصد ہم قطعی طور پر فراموش کرچکے۔ قومی مفادات کی جگہ ذاتی مفادات نے ہمارے اندر سے حب الوطنی جیسے عظیم جذبے کو نابود کردیا۔ سیاست جو حقوق العباد کا دوسرا نام ہے، محض کاروبار اور ذاتیات تک محدود ہو کر رہ گئی ہر جائز و ناجائز طریقے سے حکمرانی حاصل کرنا اور پھر سیاسی مخالفین کو کچل ڈالنا سیاست کی معراج ٹھہرا۔ سیاست یا جمہوریت کے نام پر ملک وقوم کے ساتھ آج جو کچھ ہو رہا ہے، پوری دُنیا کے سامنے ذلت ورُسوائی کے سوا اور کچھ نہیں۔ حقیقت تو یہ ہے کہ بحیثیت قوم ہم جانتے ہی نہیں کہ قوم کے معنی کیا ہیں۔ قوم کے معنی سے نابلد افراد کا یہ ہجوم ایک ایسے مادر پدر آزاد اُبلتے ہوئے لاوے کی مانند ہے جو جہاں سے گزرتا ہے، ہر شے کو راکھ کا ڈھیر بناتا چلا جاتا ہے۔ اس ملک کے اندر جس قدر وسائل کی فراوانی ہے اور جس قدر قدرتی وسائل کے ذخائر ہیں، کاش کوئی ایک بھی محب وطن قیادت اس ملک کو نصیب ہو جاتی تو آج یہ سرزمین وطن جو راکھ کا ڈھیر بنی دکھائی دیتی ہے، سونا اُگلتی دکھائی دیتی۔ جس ملک کے اندر سونا، چاندی، تانبا، کوئلہ، نمک، جپسم اور ہیرے جواہرات جیسے قیمتی ذخائر موجود ہوں اور اس کے عوام بھوک، ننگ اور غربت وافلاس کی بھٹی میں جل رہے ہوں تو پھر کسی قوم کی اس سے بڑی بدقسمتی اور کیا ہوسکتی ہے۔ بھوک، ننگ، لاقانونیت، حق تلفی اور ناانصافیوں کی بھینٹ چڑھی یہ قوم اپنا 70واں یوم آزادی منا رہی ہے۔ وہ یومِ آزادی جسے آزادی جیسی نعمت کا کچھ معلوم نہیں کہ آزادی کہتے کسے ہیں؟ پاکستان کے ان حالات کی ذمہ دار کوئی ایک سیاسی جماعت نہیں اور نہ ہی کوئی فرد واحد ہے اس لیے کسی ایک کو ذمہ دار ٹھہرانا زیادتی ہوگی.... ملک پر ستر ارب سے ڈالر کے قرضے ہیں جو کم از کم ہماری زندگی میں تو اُتر نہیں سکتے۔ آج بجلی پر900 ارب روپے کے گردشی قرضے ہوچکے ہیں ۔
آج بجلی، گیس غائب، پانی ناپید، گرمی اگست میں بھی زوروں پر ہے، ، صحت کے لیے لوگ دربدر خوار، ہسپتال گورستان بن گئے، تعلیم کے لیے ایک دو لاکھ نہیں کروڑوں بچے ماں باپ اور حکومت کو منہ چڑا رہے ہیں۔ بچے گھر کا چولھا جلانے، دو وقت کی روٹی کھانے کے لیے ٹکے ٹکے کی نوکریاں کرنے پر مجبور، یہی وہ بچے ہیں جو شدید قسم کا احساس محرومی لے کر بڑے ہوئے ہیں اور ہو رہے ہیں جب حکومت ان کے مستقبل سے مجرمانہ غفلت برتے گی تو یہ کہنا غلط نہ ہوگا کہ دیدہ دانستہ ایسے حالات پیدا کئے جا رہے ہیں کہ ملک میں افراتفری مچے اور دشمن اس سے فائدہ اٹھائے آپ خود سوچئے کہ پہلے تو ورلڈ بنک، آئی ایم ایف وغیرہ قرضہ دینے سے پہلے سخت شرائط رکھتے تھے، اب یہ حال ہے کہ روزانہ کے حساب سے قرضہ دیا جا رہا ہے تاکہ ملک ڈیفالٹر ہو اور دشمنوں کے عزائم کو پورا کرنے کے راستے میں کوئی رکاوٹ نہ رہے دشمن کون کون ہے؟ سب جانتے ہیں اور دشمن بھی برملا یہ اعلان کر رہا ہے کہ ہم جلد ہی پاکستان کو خدانخواستہ خدانخواسہ تتر بتر کر دیں گے۔ پاکستان زندہ باد کا نعرہ لگانے والو کیا یہ ہے قائد اعظم کا پاکستان ،کیا ہم نے ان عظیم لوگوں کی قربانیوں کا صلہ یہاں چوربازاری، رشوت، کرپشن اور نا انصافی کی صورت میں دیا ہے۔ آج اگر ہم اپنی تقدیر کو سنوارنے کے لئے بیدار و متحرک نہ ہوئے تو شاید ہماری تقدیر کسی غیر کے ہاتھوں میں لکھی جائے۔ ایک سوچی سمجھی منظم سازش کے تحت اسلام دشمن طاقتوں نے اپنے من پسند افراد کو حکومتی مسندوں پر بٹھا رکھا ہے ان کٹھ پتلیوں سے ایسے فیصلے کروائے جا رہے ہیں جن سے پاکستان کی سالمیت خطرے میں ہے۔ بانی پاکستان نے انہی حالات پر دور رس نگاہوں سے دیکھتے ہوئے فرمایا تھا ”مسلمانوں کی تقدیر ان کے اپنے ہاتھوں میں ہے وہ منظم طاقت سے ہر خطرے اور مصیبت کا مقابلہ کر سکتے ہیں،مسلمانو تمھارے ہاتھوں میں ساحرانہ قوت موجود ہے کسی بھی فیصلے پر پہنچنے سے پہلے ایک ہزار مرتبہ غور کرو لیکن جب کوئی فیصلہ کر لو تو اس پر سیسہ پلائی دیوار کی طرح ڈٹ جاو¿“(مسلم یونیورسٹی علی گڑھ 05فروری 1938)
یقین محکم ، عمل پیہم،محبت فاتح عالم
جہاد زندگانی میں ہیں مردوں کی شمشیریں
یہ قائداعظمؒ کی فولادی اور باکردار قیادت ہی کا نتیجہ تھا کہ پاکستان بغیر کسی جنگ کے معرضِ وجود میں آگیا۔ تحریک پاکستان کے کارکن اور ممتاز دانشور وادیب خواجہ افتخار احمد لکھتے ہیں کہ ”جب اللہ تعالیٰ کو کسی قوم پر رحم آجائے تو وہ اس قوم میں محمد علی جناحؒ جیسی ہستی پیدا کردیتا ہے“۔ اس میں کچھ شک نہیں کہ پاکستان بننے سے قبل مسلمانوں کی حالت واقعی قابلِ رحم تھی۔ اس قوم کا کوئی پُرسانِ حال نہ تھا۔ ظلم وجبر اور حق تلفیوں وناانصافیوں میں پسی ہوئی قوم جسے کوئی راستہ کوئی منزل دکھائی نہ دیتی تھی، مختلف ٹولیوں اور گروہوں میں تقسیم ہوچکی تھی جسے دو بڑے دُشمن چکّی کے دو پاٹوں میں پیس رہے تھے۔ مسلم قائدین اپنی اپنی دُکانداری چمکا رہے تھے۔ تقسیم شدہ قوم کے اذہان اور عقل وشعور کچھ بھی سمجھنے سے قاصر تھے کہ کون صحیح ہے اور کون غلط، لہٰذا مسلمانوں کی حالت جب حد سے زیادہ قابلِ رحم ہوئی تو قدرت نے ایک چٹان نمودار کی جس سے ٹکرا کر ہر قوت پارہ پارہ ہو گئی۔ لارڈ ماﺅنٹ بیٹن اپنی کتاب میں لکھتا ہے کہ ”مجھے ہندوستان بھیجا ہی اس لےے گیا تھا کہ میں ہندوستان کو تقسیم ہونے سے بچاﺅں مگر میرے مقاصد کی راہ میں ایک چٹان حائل تھی اور وہ چٹان تھی، محمد علی جناحؒ“کیا ہم نے محمد علی جناحؒ کے پاکستان کی کوئی قدر کی؟ اسے کوئی اہمیت دی؟ ان قربانیوں پر کبھی غور کیا؟ ان حالات کو کبھی دیکھا؟ نہیں! شاید کبھی نہیں۔ اسی لیے آج ہم نے کچھ نہیں پایا بلکہ سب کچھ کھویا ہے۔ ہم متحدہ پاکستان کو سنبھال نہیں پائے، ہم نے اپنے قائد کے احکامات کو من وعن تسلیم نہیں کیا، ہم 70سال میں ترقی نہیں کرپائے.... ہماری فصلوں کو پورا پانی نہیں مل رہا.... تھر کے لوگوں کی بھوک اور پیاس نہیں مٹ رہی؟ اُن کے بچے اور جانورمررہے ہیں....پاور پراجیکٹس مکمل نہیں ہو پارہے.... جشن آزاد ی پاکستان کے موقع پر آج عوام حکمرانوں سے یہ سوال پوچھ رہی ہے کہ 16دسمبر 1971ءکا ڈھاکہ فال کیوں ہوا؟ بھٹو،مجیب اور یحییٰ کتنوں کو ہم موردِالزام ٹھہرائیں گے اور اس کا اب فائدہ کیا ہو گا؟ کیا جہالت اور غربت مٹ گئی؟ ہماری معیشت کس طرف جارہی ہے؟ ہماری خارجہ پالیسی کے مقاصد کیا ہیں؟ کیا صوبے مطمئن ہیں؟اگر ان سب سوالوں کا جواب نہیں میں ہے تو ہمیں یہ خود سے پوچھنے کی ضرورت ہے کہ آج ہم کہاں کھڑے ہیں اور ہم اس ملک کے لیے کیا کر رہے ہیں، ضرورت اس امر کی ہے کہ ہم سب کو مل کر اس ملک کو بچانا ہے، ورنہ قائد کا خواب کبھی شرمندہ تعبیر نہیں ہوسکے گا۔