اسلام آباد (محمد نواز رضا ؍ وقائع نگار خصوصی) پاکستان کی پندرہویں قومی اسمبلی میں متحارب سیاسی جماعتوں کی اعلیٰ قیادت کی طرف سے ایک دوسرے کے بارے میں معاندانہ رویہ اختیار کرنے کے بجائے مصافحوں کے ساتھ مسکراہٹوں کے تبادلے سے جمہوریت کے استحکام کی طرف قدم بڑھایا ۔ متحدہ اپوزیشن نے قومی اسمبلی کے افتتاحی اجلاس میں احتجاج نہ کر کے تحریک انصاف کی پانچ روز بعد بننے والی حکومت کو مفاہمت کا پیغام دیا ہے۔ تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان کا مسلم لیگ (ن) کے صدر میاں شہباز شریف ، پیپلز پارٹی پارلیمنٹرین کے صدر آصف علی زرداری اور پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری سے مصافحہ، مسکراہٹوں کا تبادلہ انکے سیاسی طرزعمل میں تبدیلی کی نشاندہی کرتا ہے تاہم اجلاس کی کاروائی کا افسوس ناک پہلو یہ تھا کہ متحدہ اپوزیشن میں شامل مسلم لیگ ن کے صدر اور پیپلز پارٹی پارلیمنٹرین کے سربراہ آصف علی زرداری کے درمیان کوئی مصافحہ ہوا اور نہ ہی علیک سلیک ہوئی۔ پاکستان کے موجودہ جمہوری نظام کو کسی غیر جمہوری ’’واردات‘‘ سے بچانے کی سب سے زیادہ ذمہ داری عمران خان پر عائد ہوتی ہے ۔ ذرائع کے مطابق پیر کو متحدہ اپوزیشن نے تحریک انصاف کو ’’گنجائش‘‘ دی ہے۔ اگرچہ عمران خان، میاں شہباز شریف ، آصف زرداری، بلاول بھٹو زرداری کے روسٹر آف رجسٹر پر دستخط کرنے کے موقع پر تینوں جماعتوں نے اپنی اپنی قیادت کے حق میں نعرے لگائے لیکن تینوں جانب سے ایک دوسرے کے خلاف کوئی نعرہ نہیں لگا۔ ذرائع کے مطابق غیر مرئی قوتوں کی درپردہ کوششوں سے ممکنہ حکومت اور اپوزیشن کے درمیان غیر اعلانیہ مفاہمت کرانے کی کوشش کی گئی ہے۔ میاں شہباز شریف نے اپنی پارلیمانی پارٹی کے اجلاس میں قومی اسمبلی کے ارکان کی حلف برداری اور سپیکر و ڈپٹی سپیکر کے انتخاب کے موقع پر ذمہ دارانہ طرز عمل کی وضاحت کرتے ہوئے کہا ہے کہ ہم نے احتجاج کا راستہ ترک نہیں کیا۔ لیکن مناسب وقت پر بھرپور احتجاج کیا جائے گا۔ ذرائع کے مطابق میاں شہباز شریف اور آصف علی زرداری کی جانب سے عمران خان کو بین السطور یہ پیغام دیا گیا ہے کہ ’’جیو اور جینے دو‘‘ کی پالیسی اختیار کر کے وہ آگے بڑھ سکتے ہیں۔ بصورت دیگر پاکستان کی تاریخ کی سب سے بڑی اپوزیشن کی موجودگی ان کے لئے سوہانِ روح بنی رہے گی۔ تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان جو کہ اس وقت اقتدار کی جدوجہد میں کامیاب ہونے کو ہیں، اپنے طرز عمل سے سیاسی جماعتوں کو مثبت پیغام دینے کی کوشش کر رہے ہیں لیکن اگر انھوں نے آنے والے دنوں میں اپنے آپ کو اپوزیشن کی سطح پر لے جانے کی کوشش کی تو آئے روز پارلیمنٹ میں ’’دما دم مست قلندر‘‘ ہوسکتا ہے۔ متحدہ اپوزیشن میں متحدہ مجلس عمل کے ارکان قومی اسمبلی پارلیمنٹ میں احتجاج کو موخر کرنے پر خاصے برہم دکھائی دیتے ہیں۔ اگر آنے والے دنوں میں مسلم لیگ ن اور پیپلز پارٹی نے مفاہمانہ طرز عمل اختیار کر کے فرینڈلی اپوزیشن کا کردار ادا کیا تو پارلیمنٹ کے اندر 15 ارکان پر مشتمل متحدہ مجلس عمل اور پارلیمنٹ کے باہر ’’زخم خوردہ‘‘ مولانا فضل الرحمٰن ،عمران خان کو سکھ کا سانس نہیں لینے دیں گے۔