ہم حبس زدہ ماحول میں آج اپنا یوم آزادی منا رہے ہیں۔ آزاد ہوئے تو برسوں بیت گئے، لیکن ستانوے فیصد عوام آج بھی تین فیصد مافیا کی غلام ہے۔ ملک کو اندرونی و بیرونی طور پر بیپناہ مسائل اور مشکلات کا سامنا ہے۔ یہ جملے سنتے سنتے بچے جوان ہوئے، بوڑھے ہوئے اور دنیا سے گذر گئے لیکن آج بھی مسائل اور مشکلات اپنی جگہ موجود ہیں۔ ہر چودہ اگست پر تقریریں ہوتی ہیں،الفاظ کا تبادلہ ہوتا ہے، ارادے کی پختگی کا عہد کیا جاتا ہے اور آئندہ برس یہی سب دہرایا جاتا ہے۔ آپ نوائے وقت کے صفحات پر برسوں سے پاکستان بننے کے حوالے سے پڑھتے آ رہے ہیں آج ہم بھی کچھ حقائق آپ کے سامنے رکھیں گے۔ ایک ایسے شخص کی آپ بیتی جس نے پاکستان بنتے،بگڑتے اور ٹوٹتے دیکھا ہے۔ وہ شخص آج بھی وطن کی محبت میں صبح و شام دعائیں کرتا ہے۔ جوانی میں بیرون ملک کی پرکشش پیشکشوں کو ٹھکرا کر ملک کی خدمت کرتا رہا، اپنی ملازمت کے دوران مافیا کا مقابلہ کرتا رہا، اقبال کے خواب اور قائد کے پاکستان کے لیے کوششیں کرتا رہا لیکن ہزاروں لاکھوں پاکستانیوں کی طرح وہ بھی اقبال کے خواب کو تعبیر نہ دے سکا اور نہ ہی قائد کا پاکستان بنانے میں کامیاب ہو سکا۔ اس محب وطن پاکستانی کا نام ڈاکٹر مشتاق احمد ہے۔
قارئین کرام یوم آزادی کے موقع پر ڈاکٹر مشتاق احمد لکھتے ہیں کہ اکرم چودھری صاحب قیام پاکستان کے وقت میں تیسری جماعت کا طالب علم تھا ہمارا خاندان ہوشیار پور سے ہجرت کر کے پاکستان آیا تھا۔ ہمارے گاؤں کا نام شینکر گڑھ تھا۔۔تحریک پاکستان عروج پر تھی تو بچے بھی چھوٹے چھوٹے جلوس نکالتے تھے۔ ان جلوسوں میں نعرے لگتے تھے "بٹ کے رہے گا ہندوستان، لے کے رہیں گے پاکستان" "پاکستان کا مطلب کیا لا الہ الا اللہ" ہندو بچوں کے جلوسوں کو بھی مار کر بھگا دیتے تھے۔آج ہندوؤں اور سکھوں کی مسلمانوں سے دشمنی کو یاد کرتا ہوں تو جسم بے جان ہو جاتا ہے۔ قیام پاکستان کے اعلان کے بعد ہمارا خاندان سترہ یا اٹھارہ اگست کو فیروزپور کے کسی ریلوے اسٹیشن سے ٹرین پر سفر کرتے ہوئے لاہور پہنچاتھا۔ ہم گھر سے خالی ہاتھ گھر سے نکلے، خونخوار سکھوں اور ہندوؤں سے بچنے کے لیے مردوں نے ہندوؤں جیسی دھوتی اور خواتین سے ساڑھیاں پہنیں اور حلیہ بھی انہی جیسا بنا لیا تھا، ہمارے پاس ایک بڑا گلاس تھا جس پر مندر بنے ہوئے تھے۔ کیسے لاشوں بھری ٹرینیں، خون سے رنگین بوگیاں لاہور ریلوے سٹیشن پر پہنچتی رہیں وہ لمحات یاد کر کے آج بھی رونگٹے کھڑے ہو جاتے ہیں۔ہماری ٹرین چوبیس گھنٹے میں لاہور ریلوے سٹیشن پر پہنچی یہ جاننا مشکل نہیں کہ چند گھنٹوں کا یہ سفر اتنا طویل کیوں ہوا، ڈرائیور کا ٹرین سست رفتار میں چلانے کا واضح مقصد سکھوں اور ہندوؤں کے جتھوں کو مسلمانوں کے قتل عام کا موقع دینا تھا۔ سکھ گھوڑوں پر سوار ٹریک کے ساتھ سفر کرتے نعرے لگاتے، فائرنگ کرتے تھے ٹرین کی چھت پر بیٹھے افراد میں سے شاید ہی کوئی زندہ بچا ہو جبکہ بوگیوں میں مہاجرین نے ایک دوسرے کے اوپر لیٹ کر جان بچائی یہاں بھی نہتے مہاجرین لاشوں کے اوپر لیٹے ہوئے تھے۔ ہر جگہ خون بکھرا ہوا تھا، ایسی بدحواسی، بے بسی، لاچاری، خوف اور دہشت میں نے کبھی نہیں دیکھی۔ وقتا فوقتاً سکھوں کے جتھے حملہ آور ہوتے، خواتین کو اٹھا کر بھاگ جاتے، بچوں کو اچھالتے اور برچھی پر لٹکا دیتے۔ ہوتے ہیں۔ جیسے تیسے لاہور پہنچے، خوش قسمت تھے کہ والد علی محمد مرحوم محکمہ انہار میں افسر تھے لاہور ریلوے سٹیشن پر چیف انجینئر سے ملاقات ہوئی، ایک رات ان کے گھر قیام کیا پھر ہمیں لاہور سے فیصل آباد روانہ کر دیا گیا، یہاں پہنچ کر ایک سرکاری گھر الاٹ ہوا، ہمارے سامنے اہلکار نے ایک گھر کا تالا توڑا، مکان میں موجود گھر کا سامان نکال کر نیلام کیا اور وہ مکان ہمارے حوالے کر دیا۔ یہاں فیصل آباد کی جناح کالونی میں ایک مہاجر کیمپ لگا ہوا تھا میرے والد علی محمد مرحوم کئی روز تک اس مہاجر کیمپ میں جاتے اپنے جان پہچان کے لوگوں کو گھر لے آتے پھر جیسے تیسے کہیں ان کا بندوبست کرتے اور روانہ کر دیتے۔ فیصل آباد سے ہم نے کئی سکھوں اور ہندوؤں کو پیدل بھارت جاتے دیکھا لیکن کسی نے ان پر حملہ کیا نہ ہی کوئی نقصان پہنچانے کی کوشش کی۔ انیس سو اڑتالیس میں تیسری جماعت میں دوبارہ داخل ہوا، اسی سال میں بابائے قوم قائد اعظم محمد علی جناح کا انتقال ہوا سکول سے واپس آتا تو چلتے چلتے سوچتا رہتا کہ ہمارا کیا بنے گا جس نے ملک بنایا وہی انتقال کر گئے۔ قیام پاکستان کے بعد کافی دیر تک بالخصوص خواتین یہی سمجھتی رہتی تھیں کہ انگریز نکل جائے گا اور ہم واپس اپنے وطن چلے جائیں گے۔ پڑھتے پڑھتے پنجاب یونیورسٹی سے ایم ایس سی کیمسٹری میں ٹاپ کیا، پھر میں پی ایچ ڈی کرنے انگلینڈ چلا گیا وہاں سے واپسی پر حج کرتے ہوئے پاکستان واپس آیا، پھر روزگار کی تلاش میں کراچی جا پہنچا، یہاں پاکستان سیکیورٹی پرنٹنگ کارپوریشن میں اہم عہدے پر پچیس برس خدمات انجام دیں۔ پہلے ہجرت کرتے ہوئے سکھوں اور ہندوؤں کے مظالم۔دیکھے اس ادارے میں قومی اثاثوں کا تحفظ کرتے ہوئے بے پناہ مصائب کا سامنا کرنا پڑا۔ بھارت سے صرف ایک مرتبہ ہجرت کرتے ہوئے تکلیف برداشت کی تو سروس کے دوران کئی مرتبہ دھمکیوں کی وجہ سے ممکنہ حملوں سے بچنے کے لیے اہلخانہ کے ساتھ راتیں کراچی کی سڑکوں پر گاڑی دوڑاتے گذاری ہیں۔ ملک کو نقصان اپنوں نے پہنچایا ہے، اسے اپنوں نے لوٹا ہے۔ یہ باتیں پھر کبھی آپکو لکھ کر بھیجوں گا۔ قیام پاکستان کے فوراً بعد ہی بدانتظامی، ناانصافی، میرٹ کے قتل عام اور اپنوں کو نوازنے کے واقعات اتنی تیزی سے ہوئے کہ لوگوں انگریزوں کو یاد کرتے نظر آتے کہ کم از کم ان کے دور میں میرٹ اور ناانصافی نہیں ہوتی تھی۔ پھر ان آنکھوں نے سقوط ڈھاکہ بھی دیکھا ہے۔ پاکستان ٹوٹنے کا سانحہ نے سب کو رلایا ہے کراچی کی ایک مسجد میں قاری تنزیل الرحمن نے رو رو کر اللہ سے معافی مانگی کہ یا اللہ ہمیں معاف فرما دے ہم اپنے بھائیوں کا خیال نہیں رکھ سکے، ہم ناکام ہو گئے، ہم نے ان کے حقوق ادا نہیں کیے۔ دعا میں ایسا درد، ایسی تکلیف کبھی نہیں سنی، ان دنوں کراچی میں سب کو بہت رنجیدہ دیکھا۔ بالخصوص ہجرت کر کے آنے والوں کی تکلیف ناقابل بیان تھی۔ یہ بات الگ ہے کہ قیام پاکستان سے سقوط ڈھاکہ تک حکومت میں رہنے والے یا اس کے بعد حکومت بنانے والے سب اس سانحے میں برابر کے شریک ہیں۔ تاریخ کا مطالعہ کریں، حقائق کا غیر جانبداری سے جائزہ لیں سمجھ آئے گی کہ اداروں کو باقاعدہ منصوبہ بندی کے ساتھ سازش کے تحت تباہ و برباد کیا گیا ہے۔ جس نسل نے پاکستان بنتے دیکھا ہے بد قسمتی سے اس نسل نے ملک کو بگڑتے، ٹوٹتے اور لٹتے دیکھا ہے۔ وہ نسل خوش قسمت ہے کہ آزاد و خودمختار ملک حاصل کرنے میں کامیاب ہوئی، وہ نسل بدقسمت بھی ہے کہ آج بھی اقبال اور قائد کے پاکستان کو ڈھونڈ رہی ہے۔ اللہ میرے وطن کا حامی و ناصر ہو۔ شکریہ
قارئین کرام ڈاکٹر مشتاق احمد کی آپ بیتی لفظ بہ لفظ آپ تک پہنچا دی ہے۔ جس بنیاد پر ہمارے آباؤ اجداد نے الگ وطن کے حصول کی تحریک شروع کی تھی آج بھی ہم اس بنیاد سے محروم ہیں۔ ہم نے اپنی مذہبی بنیاد کو یکسر فراموش کیا ہے تو ہم نے قیام پاکستان کے مقصد کو بھی بھلا دیا ہے۔ ہمارے بزرگ نہتے تھے لیکن وہ الگ ملک حاصل کرنے میں کامیاب ہو گئے، ہم ہتھیاروں سے لیس ہیں، وسائل سے مالا مال ہیں لیکن پھر بھی اپنی منزل سے بہت دور ہیں، شاید ابھی منزل کی طرف سفر ہی شروع نہیں کر سکے۔ آج ہمیں علامہ محمد اقبال کی ضرورت ہے، آج بھی محمد علی جناح کی ضرورت ہے۔ دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ ہمارے بزرگوں کے خون کے صدقے، ان معصوم بچوں کے خون کے صدقے ان عصمتوں کی وجہ سے ہماری مشکلوں کو آسان کر دے اور حکمرانوں کو بابائے قوم جیسی محبت عطا کر دے۔ آمین ثم آمین!!!!