کہتے ہیں کہ غلامی حسن وزیبائی سے محرومی کا نام ہے،غلامی ذہنی صلاحیتوں کی زنگ آلودگی کو کہتے ہیں،غلامی ضمیر کی پژمردگی کو بولتے ہیں،غلامی اپنی خودی کا جھٹکا کرنے کا فعلِ قبیح ہے، غلامی اپنی اَنا کو فنا کے گھاٹ اُتارنے کا نام ہے، غلامی انسانیت کی ذلت اور نامرادی کا اعلان ہے، غلامی روزِ روشن میں شبِ تاریک کا تسلّط ہے، غلامی نوعِ بشر کو جانوروں سے بھی بدتر کرنے کا عمل ہے، غلامی دوسروں کی خوشی کے لیے اپنی مسرتیں پامال کرنے کی رسمِ قدیم ہے، غلامی آقائوں کی خوشنودی اور اپنی خود کشی کی مذموم حرکت ہے۔ اسی غلامی کے متعلق شاعرِ مشرق حضرت علامہ اقبالؒ نے اپنی ولولہ انگیز شاعری میں اس بات کی کیا خوب ترجمانی کی ہے کہ:
صفحہء دہر سے باطل کو مٹایا ہم نے
نوعِ انساں کو غلامی سے چھڑایا ہم نے
اسی طرح آزادی کے حوالے سے بھی کہا جاتا ہے کہ آزادی بلبل میں شاہیں کی ادائیں پیدا کرتی ہے،گدائوں کو شکوہ جم و پرویز عطا کرتی ہے، انسانی صلاحیتوں کو ایک نئی جلا بخشتی ہے، آزادی اپنے افکار اور نظریات کی اشاعت کا نام ہے اور غلامی اپنے افکار اور نظریات کا جنازہ اپنے کندھوں پر اٹھا کر زندہ درگور ہونے کا مجرمانہ فعل ہے، لہٰذا آزادی کی تعریف اور غلامی کی مذمت جتنی بھی کی جائے میرے خیال میں اتنی ہی کم ہے۔ اگر ہم آج سے 71 برس پیچھے کی طرف دھیان ڈالے تو ایک خوفناک خواب کی تعبیر ملتی ہے جس میں ہم لوگ ہندوستان کی غلامی کے سائے میں پل رہے تھے یہ ایسی غلامی تھی جس میں سانس لینا تو دور کی بات انسان زبانِ خلق سے کچھ بول نہیں سکتا تھا۔ وہیں ایک ایسا وقت بھی آیا کہ جب شاعرِ مشرق حضرت علامہ اقبالؒ جیسی شخصیت نے ایک الگ ریاست کا خواب دیکھا تو جس کی تعبیر قائداعظمؒ جیسی عظیم ہستی نے پوری کی۔کیونکہ اُس وقت ہندوستان میں صدیوں سے دو قومیں آباد تھیں ۔ برصغیر کے مسلمانوں کا ایک ساتھ زندگی گزارنا اس قدر کارِ دشوار ہو چکا تھا اور اس حوالے بانی پاکستان قائداعظمؒ اپنے خطبئہ صدارت میں آگے چل کر فرماتے ہیں کہ’’قومیت کی ہر تعریف کی رُو سے مسلمان ایک قوم ہیں اور چاہتے ہیں کہ اُن کے پاس قومی وطن ہو، اُن کا اپنا ملک ہو اور اپنی ریاست اور دولت ہو۔ ہماری یہ خواہش ہے کہ آزاد اور خود مختار قوم کی حیثیت سے اپنے ہمسایوں کے ساتھ باہمی امن اور اتحاد سے رہیں۔ ہم چاہتے ہیں کہ ہماری قوم اپنے تصورات اور مزاج کے مطابق اور جس طرح ہمارے خیال میں بہتر ہو، روحانی،ثقافتی، اقتصادی اور سیاسی زندگی میں ترقی کرے‘‘۔اس کے بعد قائد نے دونوں قوموں کے مذاہب کے فرق کو دیکھتے ہوئے دونوں کو ایک دوسرے کی تہذیبوں سے الگ کرنے کا فیصلہ کیا کیونکہ وہ جانتے تھے کہ ہمارا دین اسلامی اصولوں تک محدود نہیں بلکہ وہ ایک مکمل ضابطہ حیات ہے جو زندگی کے ہر شعبہ میں ہماری رہنمائی کرتا ہے اور ہم مسلمان ہونے کی حیثیت سے اپنی پوری زندگی اس ضابطہ حیات کے مطابق بسر کرنا چاہتے ہیں اور اسی مطالبہ پر قائداعظمؒ نے پاکستان کی بنیاد رکھی اور پاکستان بننے کی بعد 18 اگست 1947ء کو بحیثیت گورنر جنرل قائداعظم محمد علی جناحؒ نے قوم کے نام عید کا پیغام دیتے ہوئے فرمایا کہ ’’اس میں شک نہیں کہ ہم نے پاکستان حاصل کر لیا ہے، لیکن یہ تو محض آغاز ہے۔ اب بڑی ذمہ داریاں ہمارے کندھوں پر آپڑی ہیں اور جتنی ذمہ داریاں ہوں اتنا ہی بڑا ارادہ اتنی ہی عظیم جدوجہد کا جذبہ ہم میں پیدا ہونا چاہیے۔ پاکستان حاصل کرنے کے لیے جو قربانیاں دی گئی ہیں، جو کوششیں کی گئی ہیں۔ پاکستان کی تشکیل وتعمیر کے لیے بھی کم از کم اتنی ہی قربانیاں دنیا اور کوشش کرنا پڑیں گی۔ حقیقی معنوں میں ٹھوس کام کا وقت آپہنچا ہے اور مجھے پورا یقین ہے کہ مسلمانوں کی ذہانت وفطانت اس بار عظیم کو آسانی سے برداشت کرے گی اور اس بظاہر پیچیدہ اور دشوار گزار راستے کی تمام مشکلات کو آسانی سے جھیلے گی۔‘‘قائد کے اس فرمان کے مطابق آج پاکستان کو ہندوستان سے آزادی حاصل کیے 27 برس ہو گئے ہیں ان 27 سالوں میں ہم نے کیا کھویا اور کیا پایا تو اس کا جواب کون دیں گا۔ میںیہ سوال اس لیے کرنا ضروری سمجھتا ہوں کہ ہمارے ملک میں کئی وڈیروں نے حکومت کی مگر پاکستان میں نئی نسل کی قیادت کا مسئلہ ہی یہ ہے کہ خاندانی اعتبار سے وہ پاکستان مخالف پس منظر رکھتے ہیں اُن کی تعلیم ایسے اداروں میں ہوتی ہے جہاں مطالعہ پاکستان کا کوئی مضمون شالِ نصاب نہیں ہوتا،اُردو زبان سے وہ نابلد ہوتے ہیں،اُن کو کیا علم کہ جس پاکستان پر حکومت کرنا وہ اپنا پیدائشی حق سمجھتے ہیں اُس کی بنیادوں میں کس کس کا خون اور پسینہ جذب ہے۔ عوام پاکستان جانتے ہیں یہی وجہ ہے اور یہی پاکستان کا حقیقی معنوں میں المیہ ہے کہ پاکستان کے عوام کچھ اور سوچتے ہیں اور حکمرانوں کے اقدامات اُن کی سوچ کے برعکس کچھ اور ہوتے ہیں۔آخر میں شاعرِ مشرق حضرت علامہ اقبالؒ …؎
افراد کے ہاتھوں میں ہے اقوام کی تقدیر
ہر فرد ہے ملت کے مقدر کا ستارا