نظریہ اسلام ۔۔۔اساسِ پاکستان

Aug 14, 2019

عدنان عالم

14اگست 1947ء پاکستان کے عملی آئینی وجود کے آغاز کا دن تھا اس دن لارڈ مائونٹ بیٹن نے بر صغیر کے آخری وائسرائے کی حیثیت سے پاکسانی قوم کو مبارکباد دی اور نیک خواہشات کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ :آپ نے باہمی بات چیت سے آزادی حاصل کر کے دنیا بھر کے آزادی پسند عوام کے لئے ایک مثال قائم کر دی ہے، اپنی تقریر میں شہنشاہ جلال الدین اکبر کا ذکر کرتے ہوئے مائونٹ بیٹن نے کہا کہ مغل فرماں روا کی حکومت (کے دور) میں انتہائی سیاسی اور مذہبی رواداری تھی جس کی مثال پہلے یا بعد کے زمانے میں نہیں ملتی۔ میں دیانت داری سے محسوس کرتا ہوں کہ ہماری نسلیں اور انتظامیہ اس سے متاثر ہیں۔ اس کے جواب میںقائداعظمؒ نے اپنے خطاب میں کہا کہ: ’’ عظیم شہنشاہ اکبر نے تمام غیر مسلموں کے ساتھ رواداری اور حسن سلوک کا مظاہرہ کیا تھا ۔ یہ کوئی نئی بات نہیں تھی۔اس کی ابتداء ہمارے پیغمبر(حضرت محمد ﷺ )نے آج سے تیرہ سو برس پہلے کر دی تھی ۔آپ (ﷺ)نے صرف زبان ہی نہیں بلکہ اپنے عمل سے یہودو نصاریٰ پر فتح حاصل کرنے کے بعد (ان کے ساتھ)انتہائی اچھا سلوک کیا۔ ان کے عقائد کا احترام کیا اوررواداری کا رویہ اختیار کیا‘‘۔قائداعظمؒ نے یاد دلایا کہ ’’مسلمان حکمران (دنیا میں) جہاں کہیں بھی حکمران رہے، اسی طرح کا سلوک کرتے رہے ہیں۔اگر تاریخ دیکھی جائے تو وہ ایسی ہی انسانیت پروری اور ارفع ترین اصولوں کی مثالوں سے بھری پڑی ہے جن کی ہم سب کو تقلید کرنی چاہیئے۔‘‘(دی سٹار آف انڈیا 15اگست 1947)تاریخ کے اوراق بتاتے ہیں کہ 712ء میں محمد بن قاسم کی آمد کے بعد برصغیر میں اسلام کی روشنی پھیلنی شروع ہوئی۔حضرت علی ہجویری داتا گنج بخشؒ ،حضرت خواجہ معین الدین چشتی ؒ اور دوسرے صوفیا ئے کرام نے اس مشن کو آگے بڑھایا اور اس خطے کے لاکھوں افراد نے اسلام کو مکمل ضابطہ حیات تسلیم کر لیا ۔اس کی بنیادی وجہ یہ تھی کہ صوفیائے کرام نے دنیاداری کی ان حدود کو نہیں چھوا جہاں شخصیت پرستی ،لالچ ،جاہ و حشمت اور اقتدار کی ہوس انسان کو اپنی لپیٹ میں لے لیتی ہے ،وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ دین فطرت کے عملی پہلو مزیداجاگر ہو کر سامنے آئے او ربرصغیر میں مسلمانوں کی تعداد کروڑوں تک پہنچ گئی ۔ یہ صوفیائے کرام کے مشن کا نتیجہ تھا کہ شہاب الدین محمد غوری برصغیر میں مسلمانوں کی حکومت قائم کرنے کے میں کامیاب ہو گیا ۔ایک طرف اقتدار تھا اور دوسری طرف صوفیائے کرام کی تبلیغ ۔۔۔مگر صوفیائے کرام نے کبھی بھی اقتدار کے بل بوتے پر اشاعت اسلام کی کوشش نہیں کی ۔محسن انسانیت ،خاتم النبین حضرت محمد ﷺروشنی کا وہ پیغام لیکر آئے جس نے جہالت کے گھٹا ٹوپ اندھیروں میں اجالا کردیا ۔عرب کی سرزمین کو یہ اعزاز حاصل ہے کہ زندگی کے سنہرے اصولوں پر مبنی ضابطہ حیات یہی اتارا گیا۔عرب اسلام کا مرکز ہے ۔مرکز میں اقتدار کی جنگ شروع ہوئی تو اس نے صوبوں کو بھی اپنی لپیٹ میں لے لیا۔امیر المومنین کی رہائش مسجد کے فرش سے محلات کے قیمتی بستروں پر منتقل ہوگئی ۔سربراہِ مملکت اپنے فرائض کے لیے جوابد ہی کرنے کے بجائے اللہ تعالیٰ کا مقرر کردہ ایسانائب ہو گیا جسے کوئی عام آدمی مجلس میں یہ نہیں کہہ سکتا تھا کہ مالِ غنیمت سے ملنے والے کپڑے کے اتنے چھوٹے ٹکڑے سے تم جیسے لحیم شمیم آدمی کا کرتا کیسے بن گیا۔
اسلام کے مخالفین کے ساتھ جنگیں لڑی گیئں مگر فتح کے بعدیہ جنگیں ذاتی اقتدار کے تحفظ اور تو سیع کے لیے لڑی جانے لگیں ۔ اسلام کو صرف نماز ، روزہ ،حج ، زکوٰۃ اور کلمہ تک محدود کر دیا گیا ۔ اسلام اب ضابطہ حیات نہیں بلکہ صرف مذہبی عبادات کا نام تھا ۔ظہیرالدین بابر پہلا مسلمان حکمران تھا جس نے پورے برصغیر میں اقتدار قائم کرنے کے بارے میں سوچا،یہ اقتدار بھی خاندانی تھا ۔سلاطین کے بجائے اب شہنشاہ برسر اقتدار آگئے تھے ۔ اسلام کا صرف نعرہ با قی رہ گیا تھا ۔شیر شاہ سوری کا اقتدار ختم ہونے کے بعد جب جلال الدین محمد اکبر کو اپنی بادشاہت مضبوط کرنے کا موقعہ ملا تو ہندومت ، خاندانِ مغلیہ کی صفوں میں داخل ہو چکا تھا ۔ اگر سربراہِ سلطنت کی پیروی لازم ہوتی تو اس وقت اسلام کے نام پر کچھ اور ہی لوگوں کے حصے میں آتا ۔ جلال الدین محمد اکبر کے بعد اگر کسی حکمران نے خود اپنی ذات پر اسلام کے بنیادی اصول نافذ کرنے کی کوشش بھی کی تو تضادات اس شدت سے ابھرے کہاکہ وہ لوگوں کو اسلام کو مکمل ضابطہ حیات کی حیثیت سے پیش کرنے میں ناکام رہا۔اس طرح ساڑھے سات سو سال کی مدت کے طویل اقتدار کے باوجود برصغیر میں وہ نظام نافذ نہیں ہو سکاجو حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم لائے تھے۔ البتہ اس کی جھلک بعض درویش صفت حکمرانوں کے دور میں نظر آتی ہے۔
ان وجوہات کے باوجود برصغیر میں مسلمانوں کی تعداد میں اضافہ ہوتا رہا ، اس کا پس منظر یہ ہے کہ اس خطہ میں صوفیائے کرام کی آمدا وروجود سے اسلام کی اشاعت نہایت تیزی کے ساتھ ہوئی ۔اس کے علاوہ دوسرے علاقوں سے آنے والے جو مسلمان حکمران تختِ دہلی پر قابض ہوئے ،وہ یہیں آباد ہوگئے ۔ جب ان کا قیا م مستقل ٹھہرا تو ان کے ساتھ آنے والے دوسرے لوگ بھی برصغیر ہندوستان میں بس گئے ۔ اس طرح مسلمانوں کی تعداد میں اضافہ ہوتا رہا ۔ صوفیائے کرام نے تبلیغ کا مشن جاری رکھا مگر حکمرانوں کی بے عملی نے اس مشن کو فائدہ کے بجائے نقصان پہنچایا جس کے باعث اشاعت ِ اسلام کی رفتار پہلے جیسی نہ رہ سکی ۔ مسلمان حکمران سیاسی ، اقتصادی اور سماجی شعبوں میں قرآن وسنت پر عمل نہیں کر سکے ۔ (جاری)

مزیدخبریں