72 سال پہلے جب پاکستان دنیا کے نقشے پر معرض وجود میں آیا تو حالات اتنے سازگار نہ تھے۔ مسلمانوں کا سانس لینا مشکل ہو چکا تھا۔ آہ و بقاء ، تکالیف ، مشکلات ہر ایک کا حصہ تھا کیونکہ دو مکار دشمن انگریز وں اور ہندوئوں سے واسطہ تھا۔ انگریز جنگ آزادی کا بدلہ چکانے اور ہندو برسوں کی غلامی کا قرض اتارنے کیلئے تیار بیٹھے تھے اور مل کر سازشوں کے جال بن رہے تھے۔ حضرت علامہ محمد اقبال ؒ کی دو قومی نظریے کی بلند آواز نے ان دونوں کو مزید اکٹھا کر دیا تھا۔ پھر ان کی توقع کے خلاف قائد اعظم محمد علی جناح کی ولولہ انگیز اور با اصول قیادت نے مشکل میں ڈال دیا۔ اس ماحول کو دیکھ کر کہیں مذہبی علماء کو بھی ہندوئوں نے ساتھ ملا لیا۔
مولانا ابو کلام آزاد اور مولانا مدنی جیسے ذہین لوگ بھی قیام پاکستان کی مخالفت پر تیار ہو گئے۔ اپنی دنیا اور آخرت غارت کر لی۔ قائد اعظم محمد علی جناح کی ولولہ انگیز قیادت اور ان کے ساتھیوں کا اعتماد ، اتحاد ، اتفاق معاملہ فہم ہونا بہت بڑی بات تھی۔ مولانا ابو الکلام آزاد اور بعض دیگر مسلمانوں کے مذہبی رہنمائوں کو بھی مستقبل کی سنگینی کا اندازہ نہ تھا۔ اس لئے وہ پاکستان کے مخالف تھے اور پھر منہ کی کھائی۔ صرف مسلمانوں کی اکثریت مبارک باد کی مستحق ہے کہ انہوں نے قائد اعظم کے سمجھ میں نہ آنے والے انگریزی خطاب کو ہی حکم اور زندگی کا مقصد بنا لیا۔ تحریک پاکستان نے جیلیں کاٹیں اپنی مائوں بہنوں کو ذلیل ہوتے ہوئے دیکھا۔ اپنی تعلیم اور کاروبار کو برباد کیا اور قائد اعظم کا ساتھ نہ چھوڑا۔ پھر جب پاکستان کے قیام کا اعلان ہوا تو ایک ہی دھن تھی کہ پاک زمین حاصل کرنی ہے۔ اور پاکستان پہنچنا ہے۔ بہنوں سے بھائی ، بیویوں سے شوہر، مائوں سے بیٹے اور ماں ، باپ کے سامنے معصوم بچوں کو روندا گیا۔ نوجوان اولاد کے سامنے ان کے بوڑھے ماں ، باپ کو شہید کیا گیا اپنے پیاروں کی قبروں اور لاشوں کو چھوڑا۔ جن علاقوں میں بچپن سے جوانی اور بڑھاپے تک پہنچے ان کو بے حسرت چھوڑ دیا۔ ہر طرف لاشوں کے انبار تھے۔ بیان کرتے ہوئے ایک بزرگ دانش اعوان نے بتایا کہ ہجرت کر کے آنے والوں کی پرانی نسلیں ختم ہو چکی ہیں اگر اس وقت جس کی عمر 12 سال کی ہو گی تو قیام پاکستان کے مناظر یاد کر کے زارو قطار روتے ہیں۔ اپنے پیاروں کو یاد کرتے ہیں کہ ہمارے خاندان کس طرح چھپتے چھپاتے پاکستان کی محبت میں پہنچے۔ وہ مناظر نا قابل بیان ہیں۔ آزادی کی داستان لہو سے رنگین ہے۔ لیکن آج پاکستان سے اتنی محبت کرتے ہیں لیکن افسوس اس کے ثمرات عام لوگوں تک نہ پہنچ سکے جو کہ شرمندگی ہے۔
یوم آزادی کے سلسلے میں اس سال بھی بہت بڑی تقریب جس کا اہتمام حاجی قیصر امین بٹ نے کیا ۔ کہتے ہیں کہ میرے خاندان کی تحریک پاکستان سے گہری وابستگی تھی اور جذبہ و جنون تھا۔ میرے والد حاجی امین بٹ کہتے تھے کہ مسلمانوں پر ایک ہی دھن سوار تھی کہ بٹ کے رہے گا ہندوستان لے کر رہیں گے اور بن کے رہے گا پاکستان۔ انہوں نے کہا کہ میرا خاندان مقبوضہ کشمیر کے ضلع جموں میں قحط کے زمانے میں ہجرت کر کے پنجاب کے ضلع گرداس پور میں قیام پذیر ہوا۔ میرے دادا اللہ بخش اور ان کے بھائی مولا بخش اور پورا خاندان اللہ تعالیٰ کی واحدانیت پر یقین رکھنے والا سچا عاشق رسول ؐ تھا۔ مسلمانوں کے علاوہ سکھوں سے بھی ہمارے سماجی رشتے قائم تھے۔ ہر کوئی ہمارے بزرگوں کا احترام کرتا تھا اور رہنمائی لیتا تھا۔ تجارت پیشہ تھا۔ بغیر لالچ کے سکھوں، ہندوئوں اور سب کی خدمت کا کام جاری تھا۔ خدمت ہی ہمارا مشن رہا ہے۔ میرے بزرگوں نے تحریک پاکستان میں عملی حصہ لیا۔ قائد اعظم سے عقیدت اور محبت تھی۔ امین بٹ کے چچا مولا بخش ، قائد اعظم کے قریبی ساتھیوں اور عہدیداروں میں شامل تھے۔ کئی بار قائد اعظم سے ملاقات اور بات چیت کا شرف حاصل تھا۔ قیام پاکستان کے وقت مسلمانوں کو پاکستان پہنچانے میں عملی کردار ادا کیا۔ میرے والد حاجی امین بٹ نے پاکستان آ کر اپنا کاروبار شروع کیا ۔ بعد ازاںاللہ تعالیٰ نے برکت عطا کی لیکن خدمت کا جذبہ جاری رہا۔ وہ کئی بار کونسلر اور ڈپٹی میئر بھی رہ چکے تھے۔ اس علاقہ میں حاجی مختار احمد بٹ اور دیگر ساتھیوں کے ساتھ مل کر احباب دستکاری سکول ، لائبریری اور ڈسپنسری قائم کی۔ اور بعد ازاں مولانا احمد علی روڈ پر ایک بڑا احباب ہسپتال قائم کیا۔ جو کافی عرصہ خدمت کرتا رہا۔ اب محسن پاکستان ڈاکٹر عبدالقدیر خان نے 2012ء میں اس کا باضابطہ افتتاح کیا۔ اب A.Q. خان کے نام سے ہسپتال قائم ہو چکا ہے۔ 9 منزلہ عمارت زیر تعمیر ہے۔ ڈائیلسز سینٹر سمیت مختلف شعبہ جات میں 24 گھنٹے مفت علاج اور خدمت جاری ہے۔