مصطفی کمال پاشا
قائد اعظم نے کہا کہ کشمیر پاکستان کی شہ رگ ہے ، یہ جملہ جذباتی نہیں تھا زمینی حقائق کا اظہار ہے۔1948 میں ورلڈ بینک کے صدر یو جن بلیک نے پاک بھارت پانی کا مسئلہ حل کرنے کے لئے اپنی خدمات پیش کیں کیو نکہ ہندوستان آزادی کے آغاز میںہی سنٹرل باری دو آب کی نہروں کا پاکستان کی طرف بہتا پانی بیجائی کے موسم میں روک لیتا تھا جس سے پاکستان کی زرعی معیشت کو نقصان اُٹھانا پڑتا تھا۔ پھر 1960میں دونوں ممالک نے سندھ طاس معا ہدے پر دستحط کئے جس کے تحت تینوں دریائوں جہلم، چناب اور انڈس پر پاکستان اور تین مشرقی دریائوں ستلج، راوی اور بیاس پر ہندوستان کو اختیارات سونپ دیئے گئے۔ اس معاہدے کے تحت بھارت اپنے زیرِ انتظام دریائوں کے بہائو کو اسطرح کنٹرول نہیں کرے گا کہ جس کے نتیجے میں پاکستان کو مشکلات کا سامنا کرنا پڑے۔ اپنے زیرِ انتظا م دریائوںکے بہائو کو بھارت ( پاکستانی مفا دات کے خلاف) استعمال نہیں کرے گا۔ لیکن ہندوستان نے اس معاہدے کی خلاف ورزی کرتے ہوئے کئی ڈیم تعمیرکئے جن کے نتیجے میں پاکستان کی طرف آنے والے پانی کے بہائو میں بتدریج کمی آئی اور پاکستان کودستیاب پانی میں خوفناک حد تک کمی آچکی ہے جس کے باعث پاکستان کی معاشی مشکلات میں اضافہ ہو گیا ہے۔گزرے 60 سالوں کے دوران بھارت کی آبی جارحیت کے نتیجے میں پاکستان میں فی ایکڑ دستیاب پانی کی مقدار میں خوفناک حد تک کمی آ چکی ہے اور آنے والے دنوں میں اس آبی بحران میں مزید اضافہ ہو گا۔ 1947 میں بر صغیر پاک و ہند 562 ریاستوں پر مشتمل ایک بر طانوی نو آبا دی تھی جس میں ریاست جموں کشمیر مسلم اکثریت والی سب سے بڑی ریاست تھی جس پر مہاراجہ ہری سنگھ کی حکومت تھی۔ ـ" انڈین انڈیپنڈ نس ایکٹ آف 1947ــ" کے مطابق ان ریا ستوں پر شہنشا ہ ِمعظم کی حکومت کے خاتمے کے ساتھ ہی ہندوستان اور پاکستان کے نام سے دو آزاد ریاستیں معر ض وجود میں آئیںاور ان 562ریا ستوں کو اختیار دیا گیا کہ وہ جس نئی ریاست کو چا ہیں جوائن کر لیں۔ تقسیمِ ہند کے طے شدہ اصول اور زمینی حقا ئق کے مطا بق کشمیر کا پاکستان سے الحاق اظہر ِ من الشمس تھا۔کیو نکہ یہاں نہ صرف مسلم اکثریت تھی بلکہ جغرافیائی طور پر بھی کشمیر پاکستان کے ساتھ ملحق تھا اس لئے اسکا پاکستان کے ساتھ ملنا فطری اور قانونی تقاضہ تھا لیکن مہاراجہ کشمیر کا شروع میں خیال تھا کہ کوئی بھی فیصلہ کرنے میں تا خیر کے ذریعے وہ اپنی آزادانہ حیثیت بر قرار رکھ سکیں گے لیکن تا خیر کے با عث کشمیری مسلمانوں کے درمیان اُبھرتے ہوئے باغیانہ جذبات اور ریاست کی مغربی سر حدوں سے مسلمان قبا ئلی لشکریوں کی آمد کے با عث مہاراجہ نے 25اکتوبر 1947کو غیر قانونی اور غیر اخلاقی طور پر الحاق ہندوستان کی ایک دستاویز پر دستحط کر دیئے۔اسطرح پاکستان اور ہندوستان کے درمیان اس تنا زع کی ایک بنیاد قائم ہوئی جسے مسئلہ کشمیر کہتے ہیں۔پاکستان سمجھتا تھا کہ آزادی کی دستاویز کے مطابق کشمیر پاکستان کا حصہ بنے گا جبکہ ہندوستان الحاق کی دستاویز کے مطابق کشمیر کو اپنے سا تھ شامل رکھنے پر مصر ہے۔ یہ مسئلہ کشمیر کی ابتدا ء ہے جو72 سالوں سے خطے کو بد امنی اور بے یقینی کا شکار کئے ہوئے ہے۔ دونوں ممالک نے اپنے اپنے حق کے حصول کے لئے اربوں نہیں کھربوں کے وسا ئل اس تنا زعے کی نذ ر کر دیئے ہیں لیکن اس میں ایک انچ کی بہتری پیدا نہیں ہوئی۔پاک بھارت اس حوالے سے پہلے ہی تین جنگیں بھی لڑ چکے ہیں1965,1947اور1999کی کارگل جنگ اس سلسلے کی کڑیاںہیں۔ مسلم دشمنی اور پاکستان کو کمزور کرنے کے لئے ہندوستان کی پالیسیوں کے باعث 1971 کاسا نحہ مشرقی پاکستان رونما ہوا1984 سے سیاچین گلیشئیر پر اپنا تسلط قائم کرنے اور قبضہ جاری رکھنے کی خواہش کے با عث دونوں ممالک کی افواج آپس میں جھڑپوں کا شکار ہیں۔ ہندوستان پورے خطہ میں اپنا حق حکمرانی منوانا چا ہتا ہے۔پا کستان اس کی راہ میں بہت بڑی مو ثر رکاوٹ ہے۔مصدقہ دستیاب اعداد و شمار اور حقائق کے مطابق ہندوستان جموں وادی کشمیر اور لداخ کے علاوہ سیاچین گلیشئیرکے علاقوں کو ملا کر مجموعی طور پر کشمیر کے 43 فیصد خطے پر قا بض ہے جبکہ کشمیر کے 37فیصد خطے بشمول آزاد کشمیر، شمالی علاقہ جات اور گلگت بلتستان پر پاکستان کا قبضہ یا کنٹرول ہے۔1987 کے متنازعہ ریاستی الیکشنوں کے دوران کشمیر میں مسلح جدوجہد کے حامیوں کی عوام تک رسائی میں اضافہ ہوا ہے ۔ کچھ اسمبلی ممبران نے بھی مسلح گروپ تر تیب دیئے ہیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
جولائی1988 میں مظاہروں ہڑتالوں اور ہند سرکار پر حملہ کی ایک سیر یز کے نتیجے میں کشمیریوں کی قابض ہندو افواج کے خلاف بغاوت میں بڑہوتی ہوئی۔ ہندوستان سرکار کی طرف سے سات لاکھ کے قریب مسلح سیکیو رٹی فورسز کی مقبو ضہ کشمیر میں تعینا تی اور بغاوت کو کچلنے کی پالیسی کے باعث اب تک ہزاروں کشمیری ہلاک اور اپاہج کئے جا چکے ہیں۔لیکن کشمیریوں کی آزادی کی خواہش کو کچلا نہیں جا سکا ہے 1989سے مقبوضہ کشمیر کی پارلیمنٹ میں بھی ہندوستانی افواج کی کشمیریوں کے خلاف ظا لمانہ کاروائیوں کے خلاف آواز بلند ہوتی رہی ہے2008 میں ہونے والے ریاستی الیکشنوں کے بھی بارے میں کشمیری مہا جرین کے لئے اقوام ِ متحدہ کے کمشنر کا کہنا ہے کہ یہ منصفانہ تھے جس میں کشمیریوں نے مسلح جدو جہد کر نے والوں کی با ئیکاٹ اپیل کے بر عکس دل کھول کر حصہ لیا اور اس کے نتیجے میں ہند وستان کے حامی جموں کشمیر پیپلز کا نفرنس کی حکومت قا ئم ہوئی جس سے کچھ تجزیہ کاروں نے یہ نتیجہ نکالا ہے کہ کشمیری عوام ہند وستان کے ساتھ ہی رہنا چا ہتے ہیں لیکن تا ریخی حقا ئق کچھ اور کہتے ہیں۔ الیکشنوں کے فوراََ بعد 2009 اور 2010 میں یہاں ایک بار پھر بے اطمینانی اور مظا ہروں کی توانا لہر اُ ٹھی جس نے وادی کو اپنی لپیٹ میں لے لیا اور ہنوز یہ لہر جاری ہے لیکن اس سے کشمیری مسلمانوں کے لئے مطلوبہ نتائج نکلتے نظر نہیں آ رہے ہیں
دسمبر 2014 میں افغانستان سے امریکی اتحادی ملٹری آپر یشن کے خا تمے کے اعلان کے بعد خطے کے حالات بھی تبدیل ہونا شروع ہوئے ۔ امریکہ افغانستان چھوڑنے سے پہلے وہاں اپنے مفا دات کی نگران حکومت قائم کر چکا ہے۔ افغانستان کی تعمیر و ترقی کے لئے انڈیا ان کا سب سے بڑا شراکت دار ہے افغان نیشنل آرمی کی تر تیب و تر بیت ہو یا تر قیاتی منصوبے، نظامِ رسل و نقل ہو یا سرمایہ کاری، انڈیا ہر جگہ چھایا نظر آتا ہے۔ انڈیا نے خلیجی جنگ کے دوران بھی اور 9/11 کے بعد کی امریکی جنگ میں بھی کچھ اسطرح کی خارجہ اور داخلہ پالیسیاں اختیار کیں کہ وہ ایک دہائی کے اندر اندر بدلتی علاقائی صورتحال میں طاقتور عالمی طا قتو ں کے اور بھی نزدیک ہو گیا ہے۔
پھر انڈیا کے اسرا ئیل کے ساتھ روابط بھی انتہائی اہم عنصر ہیں۔ ہمیں یہ بات یاد رکھنی چا ہیے کہ 1971کی پا ک بھارت جنگ میں اسرائیلی جنرل جیکب نے بمبئی میں ایسٹرن کمانڈ اینڈ کنٹرول سنٹر میں بیٹھ کر مشرقی پاکستان کی علیحدگی میں ہندوستان مسلح افواج کے مشیرکا فریضہ سر انجام دیا تھا۔مودی سرکار نے کشمیر میں ابھی جو کچھ کیا ہے اور کرنے جا رہا ہے اس میں اسے اسرائیلی حکمرانوں کی فکری اور عملی معاونت بھی حاصل ہے ۔
امریکہ ایک نئی دنیا تشکیل دے رہا ہے، ورلڈ گیم تبدیل ہو چکی ہے خلیج میں ایران اہمیت اختیار کر چکا ہے خطے میں سعودی عرب کی بر تری کم ہو رہی ہے۔پاکستان، افغانستان، چین اور بھارت تعلقات کے ایک نئے دور میں داخل کئے جا رہے ہیں ۔امریکہ اپنے انداز میں بھارت کو شہ دے رہا ہے تا کہ اب اس خطے میں بڑ ھتے ہوئے چینی اثرات کو چیک کیا جائے گا۔ پاکستان کو داخلی طور پر کمزور کر کے ہندوستان کی بر تری تسلیم کرنے پر مجبور کیا جارہا ہے تا کہ اسے چین کے خلاف استعمال کیا جا سکے۔ خلیج کے ساتھ ساتھ بحرِ ہند کی اہمیت بڑھتی جا رہی ہے ۔ایسے حالات میں ہندوستان نے مسئلہ کو یکطرفہ طور پر حل کر کے رکھ دیا ہے سات لاکھ پہلے سے موجود افواج کے ساتھ مزید ایک لاکھ 80 ہزار فوجی تعینات کر کے کشمیر میں اٹھنے والے کسی بھی قسم کی آواز کو کچلنے کی جو پالیسی اختیار کی ہے وہ فلسطینیوں کے خلاف اختیار کردہ اسرائیلی پالیسیوں کے ساتھ مماثلت رکھتی ہے سفارتی طور پر بھی مودی سرکار خاصی بہتر پوزیشن میں نظر آرہی ہے ایسا لگتا ہے کہ اسے عالمی رائے عامہ کی پرواہ نہیں ہے ۔ ایسی صورتحال میں مسئلہ کشمیر کے فوجی حل کے امکانات انتہائی مخدوش ہو چکے ہیں۔
اکتوبر1947 میں جب یہ افواہ پھیلی کہ مہاراجہ کشمیر نے ہندوسان کے ساتھ الحاق کا فیصلہ کر لیا ہے تو مغربی کشمیر کے مسلح کشمیریوں اور پاکستان کے قبائلی مسلمانوں نے بارمولا سیکٹر میں پیش رفت شروع کر دی ۔ اس سے پہلے پاکستان اور ہندوستان کے درمیان عدم مداخلت کا معاہدہ ہو چکا تھا۔ ابھی تک یہ بات ثابت نہیں کی جاسکی کہ قبائلی لشکریوں کا پاکستانی حکومت کے ساتھ کوئی تعلق تھایا نہیں۔ اگرچہ وہ پاکستان سرحدوں سے کشمیر میں داخل ہوئے تھے لیکن یہ بات مصدقہ نہیں کہ انہیں پاکستانی حکومت کی تائید بھی حاصل تھی ہندوستان کی حکومت نے ان لشکریوں کی پیش قدمی کے ساتھہ ہی اپنی افواج سری نگر ائیر پورٹ پر اتارنا شروع کر دیں جو اس معاہدے کی صریحا خلاف ورزی تھی۔جو انہوں نے پاکستان کے ساتھ کر رکھا تھا، مہاراجہ کشمیر کے ساتھ کسی معاہدے کی عدم موجودگی میں یکطرفہ طور پر کشمیر میں ہندوستانی افواج کی مداخلت سراسر غیر قانونی تھی۔ تاریخی حقائق کے مطابق جب قبائیلی لشکری سری نگر کے گردو نواح تک پہنچ گئے تو مہاراجہ کو اپنی حکومت بچانے کیلئے ہندوستانی فوج کی مدد درکار تھی۔ اس صورتحال کو دیکھتے ہوئے ہند سرکار نے مہاراجہ کو مجبور کیا کہ وہ فوجی امداد کیلئے پہلے الحاق کشمیر کی دستاویز پر دستخط کرے تا کہ اس کے نتیجے میں بھارتی افواج کو کشمیر میں مداخلت کا قانونی جواز مل سکے۔ اسطرح یہاں خطے میں ایک مسلح کشمکش کی آغاز ہوا ۔ جموں کشمیر نیشنل کانفرنس کے رضا کاروں نے ہندی افواج کے شانہ بشانہ قبائلی لشکر کو یہاں سے نکال باہر کرنے کیلئے بہت کام کیا۔ یہ کشمکش جنگ 1948تک جاری رہی حتی کہ ہندوستان سرکار نے اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کا درواز کھٹکھٹایا تاکہ وہ اس مسئلے میں مداخلت کرے۔نیشنل کانفرنس کے شیخ عبد اللہ اس مسئلے میں اقوام متحدہ کی مداخلت کے خلاف تھے۔ ان کا خیال تھا کہ ہندوستانی فوج کے چاہیے کہ وہ مداخلت کاروں کو یہاں سے نکال باہر کرے لیکن ہند سرکار نے سکیورٹی کونسل کا دروازہ کھٹکھٹایا اور وہاں 21اپریل1948کو قرارداد منظور کی جس کے مطابق حکومت پاکستان کو کہا گیا کہ وہ قبائلیوں اور ایسے پاکستانی شہریوں کو ریاست جموں و کشمیر سے واپس بلائے جو لڑنے کو غرض سے یہاں وادی میں داخل ہوئے تھے۔ دوسری طرف ہند سرکار کو کہا گیا کہ وہ ریاست میں ایسے حالات پیدا کرے جہاں کشمیریوں کو ہندوستان یا پاکستان میں سے کسی ایک کے ساتھ الحاق کرنے کیلئے حق رائے دھندگی کا موقع مل سکے۔ اس مقصد کیلئے (PLEBICITE)استصواب رائے کا انعقاد کیا جائے ۔ اسطرح جنگ بندی کا فوری نفاذ عمل میں لایا گیا کشمیر یوں کی قبا ئلیوں کے ساتھ مل کر کی جانے والی مسلح جدوجہد نے آزاد کشمیر کو جنم دیا لیکن ہندوستان کے زیرِ تسلط کشمیریوں کو استصواب رائے کا حق کبھی نہیں مل سکا ۔ جزئیات پرپاکستان اور ہندوستان کے درمیان اختلاف کے باعث اقوام متحدہ کی قرار داد کے مطابق کشمیروں کو اپنا حق رائے دھندگی استعمال کرنے کا موقع کبھی نہیں مل سکا اور یہ خطہ ابھی تک آگ اور خون میں نہا رہا ہے۔ ہندوستان کا کہنا تھا کہ پہلے پاکستان کشمیر سے اپنے فوجی دستے نکالے تاکہ استصواب رائے کیلئے آزادانہ ماحول پیدا ہو۔ پاکستان کا کہنا تھا کہ کشمیر کانفرنس کے شیخ عبد اللہ اور بھارتی وزیر اعظم جواہر لعل نہرو کے دوستانہ تعلقات کے باعث کشمیر میںآزادانہ استصواب رائے کا انعقاد ممکن نہ ہو گا۔ پاکستان نے ایک اور تجویز بھی دی کہ دونوں ممالک خطے سے اپنی افواج بیک وقت نکالیں اور بین الاقوامی/اقوام متحدہ کی نگرانی میں استصواب رائے کرایا جائے۔ ہند سرکار نے یہ تجویز مسترد کر دی ۔اگلے چند سالوں میں سکیورٹی کونسل نے اس مسئلے کو حل کرنے کیلئے قرار داد نمبر 47کی تشریح کیلئے 4 نئی قراردادیں پاس کیں۔ یہ قراردادیں جنرل اینڈریو میکنائن کی علاقے کو بیک وقت ڈی ملٹرائز کرنے کی تجویز کے حوالے سے پیش کی گئیں۔ قراردادوں کی روشنی میں 11تجاویز پر بھی بحث کی گئی۔ پاکستان نے یہ سب کچھ تسلیم کیا لیکن ہندوستان نے سلامتی کونسل کی یہ تجاویز بھی مسترد کر دیں۔ اسطرح مسلئہ کشمیر پختہ ہوتا چلا گیا۔
1962میں ہندوستان نے علاقائی تنازع پر چین کے ساتھ جنگ کی لیکن چین نے قلیل عرصے میں ہندوستان کو شرمناک شکست سے دوچار کیا اور چین کا علاقہ اپنی سرحدوں میں شامل کر لیا جو ابھی تک چین میں شامل ہے اسکے بعد TRANS - KARAKORAMکا علاقہ پاکستان اور چین کے درمیان لائن آف کنٹرول کے طور پر تسلیم کر لیا گیا ۔ ہندی سرکار چین کی طرف شامل کچھ علاقے کو بھارتی کشمیر کا حصہ سمجھتی ہے ۔ اس خطے میں جو لائن چین اور ہندوستان کو ایک دوسرے سے الگ کر تی ہے وہ لائن آف ایکچوئل کنٹرول کہلاتی ہے۔
1965کی پاک بھارت جنگ مسئلہ کشمیر کو فوجی طاقت کے ذریعے حل کرنے کی پاکستانی سوچ کا نتیجہ تھی۔ جنر ل ایوب کی صدارت اور سربراہی میں پاکستان نے آپریشن جبر الٹر کے ذریعے کشمیر میں بغاوت اٹھانے کی کوشش کی لیکن وہاں کشمیر یوں کو ہندوستان کے خلاف بغا وت پر آمادہ کرنے کی کا وش کا میاب نہ ہو سکی۔ ہندوستان نے پاکستان کی توقعات کے بر عکس بین الاقوامی سرحدوں پر مکمل جنگ چھیڑ دی لیکن یہ سترہ روزہ جنگ بے نتیجہ رہی بعدازاں ہندوستان نے اس جنگ کے نتائج کو دیکھتے ہوئے اپنی کمزوریوں پر قابو پایا اور پاکستان پر کاری ضرب لگانے کی موثر منصوبہ بندی کی۔ ریسرچ اینڈ ایڈمنسٹریٹو ونگ (RAW)کو مشرقی پاکستان میں علیحدگی پسند بنگالیوں کو پاکستان کے خلاف بغاوت پر اکسانے اور علیحدگی کی تحریک شروع کرنے کا ٹارگٹ دیا گیا۔ آپریشن سناربنگلہ کے ذریعے مشرقی پاکستان کو بنگلہ دیش بنانے کے منصوبے پر کام شروع ہوا۔ اس منصوبے کے خالقRAWکے ڈائریکٹر آر این کائو وزیر اعظم ہندوستان مسز اندرا گاندھی کو براہ راست رپورٹ کرتے تھے۔ 1971کی پاک بھارت جنگ اسی منصوبہ سازی کا نتیجہ تھی جس میں پاکستان کو شکست فاش کا سامنا کرنا پڑا۔ 90ہزار جنگی قیدیوں کے ساتھ ساتھ مشرقی پاکستان کی پاکستان سے علیحدگی کی شکل میں پاکستان اپنی تاریخ کے انتہائی بھیانک دور میں داخل ہوا۔ سب سے بڑے اسلامی ملک کی پہلی پوزیشن سے گر کر ساتویں نمبر پر آگیا۔ معاہدہ شملہ کے تحت پاک بھارت نے طے کیا کہ وہ اپنے معاملات باہم گفت و شنید کے ذریعے طے کریں گے ۔ گویاشملہ معاہدے کے ذریعے مسئلہ کشمیر اقوام متحدہ کے چارٹر سے نکل کر دو ممالک کے درمیان باہم گفت و شنید کی سطح پر آگیا۔ اسطرح ہندوستان نے اقوام متحدہ کو مسئلہ کشمیر میں شامل کرنے کے گنا ہ کا کفارہ ادا کیا۔5 اگست 2019 کو جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت ختم کر کے شملہ معاہدہ کرنے کے گناہ کابھی کفارہ ادا کر دیا ہے۔
1987کے ریاستی الیکشنوں کے نتائج کے بارے میں کشمیر یوں کے درمیان اختلافات پیدا ہو ئے تھے اور پھر کچھ مسلح گروہ معرض وجود میں آئے۔ کہا جاتا ہے کہ افغانستان میں سوویت افواج کی مجاہدین افغانستان کے ہاتھوں عسکری شکست کے آثار نمایاں ہوتے ہی جنرل ضیا ء الحق نے کشمیر میں جہاد شروع کرنے کا پروگرام بنا لیا تھا اور 1987کے ریاستی الیکشنوں کے بعد مسلح گروہوں کا منظر پر ابھر نا جنرل ضیا ء الحق کی کشمیر بارے جہادی پالیسی کا نتیجہ تھا۔ بحرحال کشمیر میں 1987میں شروع ہونے والی جہادی تحریک نے ہندوستان کو شدید مشکلات کا شکار کر دیا تھا۔اس جدوجہد میں ایک پوری نسل مزاحمتی تربیت حاصل کر کے جوان ہو چکی ہے 7 لاکھ بھارتی فوجیوں کی سینگنوں کے سائے میں پلنے والی کشمیریوں کی موجودہ نسل مسئلہ کشمیر کو حل کر کے ہی دم لے گی۔
پاکستان اپنے قیام کے روز اول سے ہی کشمیریوں کی جدو جہد آزادی کا امین ہے۔ تقسیم ہند کی دستاویز ہو یا آزادی ہندکا پروانہ ۔ ہر دو کی تفصیلات کے مطابق کشمیر پاکستان اٹوٹ انگ ہے۔ اسلئے پاکستان کی سیاسی حکومتیں ہوں یا فوجی جنتا ہر دو نے کشمیر کو پاکستان کے ساتھ ملانے اور جوڑنے کی کاوشیںکی ہیں۔ افغانستان میں جنرل ضیاء الحق کی جہادی پالیسی کی کامیابی نے پاکستان کو ایک بار پھر کشمیر میں مسلح تحریک شروع کرنے پر اکسایا اور اسطرح 1987کے الیکشنوں کے بعد یہاں مسلح گروہ معرض وجود میں آئے۔ آپریشن جبر الٹر سے سبق سیکھتے ہوئے اس دفعہ کشمیر کے اندر سے تحریک اٹھائی گئی۔ ہندوستان کا خیال ہے کہ کشمیر یوں کی یہ تحریک افغانستان میں لڑنے والے مجاہدین نے شروع کی جسے پا کستان کی آئی ایس آئی کی حما ئت حاصل تھی۔ لیکن یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ جدوجہد کشمیر کے اندر ہو رہی ہے اور کشمیری کر رہے ہیں۔
جموں کشمیر لبریشن فرنٹ کے ایک گروپ کے لیڈر یاسین ملک نے اس دور میں اشفاق ماجد وانی اور فاروق ڈار کے ساتھ ہندوستان کے خلاف آزادی کشمیر کے لئے مسلح جدوجہد کا اعلان کیاتھا لیکن پھر اپنی لیڈر شپ کے ساتھ اختلافات کے باعث 1995میں انہوں نے مسلح جدوجہد ترک کرکے بات چیت اور پرامن ذرائع سے مسئلہ کشمیر حل کرنے کا نظریہ اپنا لیا۔ جموں کشمیر لبریشن فرنٹ ’’آزاد کشمیر‘‘ یعنی نہ بھارت کے ساتھ اور نہ پاکستان کے ساتھ بلکہ بالکل آزاد کشمیر کی حامی ہے۔ہندوستان کی مسلح افواج کی وادی میں کشمیریوں کے خلاف کارروائیوں کو ایمنٹسی انٹر نیشنل نے غیر قانونی قرار دیا ہے۔ پاکستان نے موقف اختیار کیا کہ مسلح جدوجہد کرنے والے جموں و کشمیر کے شہری ہیں اور وہ قابض ہندی فورسز کے خلاف سرگرم عمل ہیں۔ پبلک سیفٹی ایکٹ کے تحت انڈین فورسز کو یہ حق مل گیا تھاکہ وہ کسی کو بھی بغیر کسی قانونی کارروائی کے دو سال تک قید رکھ سکتی ہیں۔ ہندی فورسز نے کشمیر یوں کے خلاف اس ایکٹ کا بے دریغ استعمال کیا اور انسانی حقوق کی پامالی میں کوئی کسر نہیں اٹھا رکھی۔2011میں حقوق انسانی کمیشن کی رپورٹ کے مطابق ـ"گزرے 20سالوں کے دوران انڈین سکیورٹی فورسز نے مقبوضہ کشمیر میں40احتجاجی قبروں میں 2156افراد کو دفن کیا"۔ہندوستان ایسے الزامات کی تردید کرتا ہے نامعلوم مرنے والوںکے بارے میں ہندوستان کا کہنا ہے کہ یہ لوگ پاکستان سے یا ہندوستان کے باہر کہیں سے کشمیر میں آکر مسلح کارروائیاں کر رہے تھے۔ بہت سے لا پتہ کشمیریوں کے بارے میں سرکار کا موقف ہے کہ یہ لوگ پاکستان جا چکے ہیں اور وہاں بیٹھ کر مسلح جدوجہد منظم کر رہے ہیں۔ حقوق انسانی کی رپورٹ کے مطابق معلوم/شناخت شدہ 574افراد وہ کشمیری تھے جنہیں انڈین سکیورٹی فورسز نے قتل کیا۔ ایمنٹسی انٹرنیشنل کی 2013میں شائع کردہ رپورٹ کے مطابق مرنے والے کشمیریوں کی ملنے والی لاشوں کے بارے میںانڈین سکیورٹی فورسز کا کہنا ہے کہ ’’یہ سب دہشت گرد تھے اور انہیں ہلاک کرنے کیلئے انہیں دہشت گرد سمجھنا ہی کافی جواز ہے"۔ ــــایسی تمام کارروائیوں کے باوجود ہندوستان کشمیریوں کے جذبہ حریت کو شکست نہیں دے سکا اور بالآخر اسے آخری قدم اٹھانا پڑا اور مسئلہ کشمیر کو یکطرفہ طور پر غیر آئینی اور فوجی انداز میںحل کرنے کا فیصلہ کر لیا۔
انڈین سرکار کا کہنا ہے کہ یہ سب مسلح گروہ اسلامک دہشت گرد ہیں جو پاکستان اور افغانستان کے علاوہ پاکستانی مقبوضہ کشمیر سے یہاں کشمیر میں داخل ہو کر مسلح دہشت گردی کرتے ہیں۔ پاکستان ان دہشت گردوں کو تربیت بھی فراہم کرتا ہے اور اسلحہ بھی دیتا ہے۔ یہ کشمیر کا پاکستان کے ساتھ الحاق چاہتے ہیں۔ ہندوستانی حکومت کا کہنا ہے کہ یہ مسلح دہشت گرد یہاں لوگوں کو ہلاک کر تے ہیں اور اسطرح انسانی حقوق کی خلاف ورزی ہوتی ہے۔ یہ سب کچھ پا کستان کے ایما اور مدد سے ہوتا ہے۔لیکن زمینی حقائق اس کے برعکس ہیں کشمیر میں ہندوستان کی 9 لاکھ فوجی تعینات ہیں اور کشمیری ہیں کہ قابو میں نہیں آرہے ہیں۔
2006میں پاکستان کے دورے کے موقع پر وزیر اعلی کشمیر عمر عبد اللہ نے کہا کہ مسلح جہادی کشمیر میں انسانوں کے قتل عام میں ملوث ہیں۔ مذہب کے نام پر خون خرابا قابل مذمت ہے۔ پاکستان کا موقف ہے کہ پاکستان کشمیریوں کو سیاسی اور سفارتی مدد فراہم کرتا ہے جبکہ انڈیا کا موقف ہے کہ پاکستان کے زیر انتظام کشمیر سے مسلح افراد ہندوستانی کشمیر میں آکر کارروائیاں کرتے ہیں۔
کشمیریوں کی جدو جہدآزادی 9/11کے بعد ایک نئے دور میں داخل ہو ئی۔
القاعدہ اور دہشت گردی کے خلاف امریکہ اور اقوامِ مغرب کی اس جنگ میں پاکستان ہر طرح سے فرنٹ لائن ریاست تھا لیکن طالبان اور القاعدہ بارے ہماری پالیسیوں کے باعث ہم امریکہ اور اس کے اتحادیوں کیلئے مشکوک اور دوغلے ہی رہے۔ 2002میں ’’امریکی عوام کے نام‘‘ اسامہ بن لادن کے ایک مبینہ خط نے کشمیریوں کی جدوجہد ایک نئی صورتحال سے دوچار کر دی ہو گئی۔ خط میں اسامہ بن لادن نے کہا کہ’’امریکہ کے خلاف انکی جدوجہد کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ امریکہ مسئلہ کشمیر پر انڈیا کا حمایتی ہے ۔"اس خط کاکشمیری اب تک خمیازہ بھگت رہے ہیں۔
کرسچین سائنس مانیٹر کی 2002میں چھپنے والی ایک تحقیقاتی رپورٹ کے مندرجات کے مطابق کشمیر میں القاعدہ اوراس کی حمایتی تنظیموں کی مدد سے طاقت ور ہو رہے ہیںــ۔ اسی سال امریکی سپیشل ائرسروس اور ڈیلٹا فورس ہندوستان کے زیرقبضہ کشمیر میںاسامہ بن لادن کو پکڑنے کیلئے گئیں۔ انہوں نے ہندوستانی ایجنسیوں کی اطلاعات پر ایک خفیہ آپریشن کیا دستیاب معلومات کے مطابق کشمیری مسلح گروپ حرکت المجاہدین نے اسامہ بن لادن کو پنا ہ دے رکھی تھیـ‘‘ امریکی پالیسی سازوں کے مطابق القاعدہ کشمیر میں مسلح تحریک مضبوط کرنے کی کاوشیں کر رہی ہے تاکہ پاک بھارت کے درمیان چپقلش بڑھے اور پاکستانی فوج کا دبائو کم ہو اور القاعدہ کے جنگجوئوں کو پاکستان کے قبائلی علاقوں میں بلا روک ٹوک کام کرنے کی آزادی حاصل ہو۔ امریکی رپورٹوں کے مطابق افغانستان اور پاکستان میں القاعدہ کے متعلقیں، پاکستان کے زیر انتظام کشمیر لو گوں کو تر بیت دیکر اور منظم کر کے وادی میں مسلح کارروائیوں کیلئے داخل کر تے ہیں۔ حرکت المجاہدین کے فضل الرحمان خلیل نے 1998میں القاعدہ کے ساتھ متبرک جنگ کے ڈیکلریشن پر دستخط بھی کئے جس کے مطابق مسلمانوں کو دعوت دی گئی انکی حوصلہ افزائی کی گئی کہ وہ امریکی مفادات پر حملے کریں۔ 2006میں القاعدہ نے کشمیر میں اپنی شاخ قائم کرنے کا باقاعدہ اعلان کر کے ہندوستانی حکومت کو پریشان کر دیا۔ ناردرن کمانڈ کے جنرل آفیسر کمانڈنگ ان چیف جنرل ایچ ایس پناگ نے مقبوضہ کشمیر میں القاعدہ کی موجودگی کی نفی کی۔ انہوں نے القاعدہ کے کسی بھی کشمیری گروپ، لشکر طیبہ یا جیش محمد کے ساتھ روابط کی بھی تردید کی لیکن 2010میں امریکی وزیر دفاع نے پاکستان کے دورے کے موقع پر بیان دیتے ہوئے کہا کہ القاعدہ پاک و ہند کے درمیان ایٹمی جنگ کے امکانات کو بڑھا وا دے کر علاقائی استحکام کو برباد کرنے کی کاوشوں میں مصروف ہے۔ مودی سرکار نے فوجی ایکشن کر کے خود جنگی امکانات کو بڑھادیا ہے ۔
امریکیوں نے 2011میں ڈرون حملے میں حرکت المجاہدین الاسلامی کے رہنما الیاس کاشمیری کو ہلاک کیا یہ گروپ القاعدہ کے ساتھ وابستہ تھا۔ بروس ریڈلی نے اس کشمیری لیڈر کو القاعدہ کا اہم اور نمایاں لیڈر قراردیا تھا جبکہ تجزیہ نگار اسے القاعدہ کا کشمیر
2012میں کشمیری حرکت المجاہدین اور حرکت الجہاد الاسلامی کے ایک سابق ممبر فرمان علی شنواری کو القاعدہ پاکستان کا سربراہ مقرر کیا گیا تھا۔اس سے پہلے کارگل کے مسئلے نے پاک و ہندکے درمیان جنگ کا ماحول پیدا کیا۔ معرکہ کارگل بھی مسئلہ کشمیر سے وابستہ ہے۔ کارگل کے ذریعے پاکستان کی رسائی ہندوستان کے زیر قبضہ کشمیر کی اس سڑک /ہائے ویز تک ہوگئی تھی جو سری نگر اور لیہ کو جوڑتی تھیں ۔ اس ہائی وے کو بند کر کے پاکستان ہندوستان کے زیر تسلط وادی کشمیر اور لداخ کے درمیان رابطوں کو ختم کر سکتا تھا۔ پاک بھارت ایٹمی جنگ کے خطرات کے بھانپتے ہوئے امریکی صڈر بل کلنٹن نے پاکستان کو کارگل پہاڑوں سے واپس آنے پر مجبور کیا۔ پاک فوج کی کارگل سے واپسی کے بعد یہ تنازعہ ختم ہوا اور ہندوستانی افواج نے چوٹیوں کا کنٹرول سنبھال لیا اور ہنوز کارگل پر بھارتی افواج کا کنٹرول ہے۔
پاکستان کے ساتھ دشمنی اور کشمیر کو اٹوٹ انگ قرار دینے کی بھارتی پالیسی میں گزرے72 سالوں میں کوئی تبدیلی نہیں آئی پاکستان کے لئے اب ممکن نہیںکہ وہ کشمیریوں کی اسطرح مدد کرے جسطرح وہ پہلے کرتا رہا ہے کیونکہ سفارتی کاوش،بھارت کو متاثر نہیںکرتیں اور فوجی حل اب پاکستان کے لئے آپشن نہیں رہا۔