تاریخ عالم میں جنگوں اور وباؤں نے ہمیشہ عظیم انسانی المیوں کو جنم دیا ہے۔ 12 ویں اور 13ویں صدی میں جب یورپ میں طاعون کی وبا پھیلی تو اس سے کم و بیش ایک تہائی آبادی موت کا شکار ہو گئی۔ اس زمانے میں یورپ کے تجارتی راستوں سے طاعون کی وبا ایشیا افریقہ اور چائنہ تک جا پہنچی۔ کہنے والے کہتے ہیں کہ یہ وباء اس وجہ سے پھیلی کہ اس زمانے میں عیسائی چرچ کے عقائد کے تحت بلیوں کو شیطان کی علامت کے طور پر دیکھا جاتا تھا۔ شہروں اور دیہاتوں میں بے دریغ انہیں شیطان کہہ کے مارا گیا جس سے چوہوں کی افزائش نسل بے لگام ہو گئی۔ان حالات میں چوہوں کی کثرت نے فطری طور پر طاعون کی وبا کو جنم دیا۔ اس زمانہ کے مورخوں کی تحریریں پڑھنے سے یہ اندازہ ہوتا ہے کہ انہیں یقین تھا کہ اس وبا کی صورت میں دنیا پر خدا کا عذاب نازل ہو چکا ہے اور اب دنیا کے خاتمے کا وقت آن پہنچا ہے۔شہر کے شہر ویران ہوگئے۔ لوگوں نے شہروں سے دیہات کی طرف ہجرت کرنا شروع کی اور یوں انسانی تہذیب و تمدن کی عمارت کم ازکم یورپ کی حد تک انحطاط کا شکار ضرور ہوئی۔ اگر آج کی بات کریں تو ہم سائنس کے عہد میں جی رہے ہیں۔ بیماریوں سے تشخیص اور علاج میں انقلابی تبدیلیاں آ چکی ہیں، لیکن پھر بھی موجودہ عالمی وبا(Covid-19) نے ہمیں شدت سے یہ احساس دلایا ہے کہ انسانی کوششوں کے مقابلے میں ان وباؤں کے پھیلنے کی شرح کہیں زیادہ ہے۔ اس عالمی وبا کے تناظر میں ہمارے ملک میں وبا کے عدم پھیلائو اور بچائو کے لئے وسیع پیمانے پر کوششیں کی گئیں جن میںملکی اداروں نے بھرپور حصہ لیا۔ پاکستان ایٹمی توانائی کمیشن نے بھی اس سلسلے میں اپنا کردار مئوثر طریقے سے ادا کیا۔ پاکستان کے سب سے بڑے سائنسی ادارے کے سامنے ہمیشہ سے یہ سوال اہم رہا ہے کہ اپنے محدود وسائل کے ساتھ ملک و قوم کی بہترین خدمت کیسے کی جاسکتی ہے۔ الحمدللہ، یہ ادارہ اب تک اپنے مقاصد کے حصول میں ہمیشہ کامیاب رہا ہے اور مزید کامیابیوں کے لئے کوشاں ہے۔ پاکستان ہمیشہ سے ہی بین الاقوامی برادری میں اپنا کردارر ادا کرتا رہا ہے۔ جب دنیا میں ایٹمی ٹیکنالوجی کے انسانی فلاح کے لئے استعمال کا آغاز ہوا اور اس سلسلے میں عالمی ادارے کی بنیاد رکھی گئی تو بھی پاکستان صف اول میں تھا۔ پاکستان بین الاقوامی ایٹمی توانائی ایجنسی IAEA کے بانی ارکان میں شامل ہے۔ 1957 میں اس کے قیام سے پاکستان ایٹمی توانائی کمیشن اور بین الاقوامی ایٹمی توانائی ایجنسی کے درمیان تعاون کی ایک تاریخ ہے۔ بین الاقوامی ایٹمی توانائی ایجنسی ممبر ممالک کے درمیان سائنسی اور تکنیکی تعاون کو پروان چڑھاتی ہے۔ اپنے دیرینہ تعلقات کا فائدہ اٹھاتے ہوئے پاکستان ایٹمی توانائی کمیشن نے ایک طرف تو اپنی افرادی قوت میں کرونا سے آگاہی کی کوشش شروع کی تو دوسری طرف یہ کوشش بھی کی کہ بین الاقوامی سائنسی اداروں سے جو بھی تعاون حاصل ہو حاصل کیا جائے اور پاکستان ایٹمی توانائی کمیشن کے زیرانتظام ہسپتالوں میں اس بیماری کی بروقت تشخیص اور اگر ممکن ہو تو علاج کی بہتر سے بہتر سہولیات فراہم کی جاسکیں۔جہاں تک ایٹمی توانائی کمیشن کی افرادی قوت کا تعلق ہے وہ خاصی تعلیم یافتہ ہے جس کی وجہ سے اس مرض سے آگاہی اور حفاظتی تدابیر کا کام قدرے آسانی سے ہوگیا۔ اسی وجہ سے اس ادارے میں کام کرنے والے لوگوں اور ان کے خاندانوں میں اس بیماری کے پھیلنے کی شرح بہت کم رہی اور اس سے نقصان بھی بہت کم رہاہے۔پہلی کاوش کے طور پر ایٹمی توانائی کمیشن کے کیمیکل پلانٹ سے ٹنوں کے حساب سے Santitizer اور سوڈیم ہائپوکلورائیڈ ڈس انفیکٹینٹس کی پیداوار شروع ہوئی اور یہ قومی اداروں کو سپلائی بھی کر دیا گیا تاکہ ملکی سطح پر اس بیماری کے پھیلنے کوروکنے کے لئے ان کیمیکلز کی ضرورت کو پورا کیا جا سکے۔ دوسرے مرحلے میں ایٹمی توانائی کمیشن نے پاکستان میں ایک جدید ترین کرونا لیب بنانے کے لئے کوششیں تیز کردی۔ اس مقصد کے لیے IAEA سے رابطہ کرنے پر بین الاقوامی ایجنسی نے فوری طور پر ایک لاکھ یورو سے زیادہ مالیت کے کرونا کے سائنسی سامان کی فراہمی پر آمادگی ظاہر کردی۔ اس سامان میں Real Time PCR Testing Kits,اور دیگر جدید سامان شامل ہے۔جس کے بعد ایٹمی توانائی کمیشن کی لیب کی ٹیسٹنگ کی صلاحیت دگنی ہو گئی اور یہاں سینکڑوں لوگوں کے ہر روز ٹیسٹ ہونے لگے ہیں۔یہ فوری امداد اس بات کی غمازی کرتا ہے کے پاکستان اٹامک انرجی کمیشن اور آئی اے ای اے کے درمیان باہمی تعاون کا ایسا مثالی تعلق ہے جو وقت کے ساتھ مضبوط سے مضبوط تر ہو رہاہے ۔ خاص طور سے نئے ڈی جی رافیل ماریانو گروسی اس باہمی تعاون میں اضافے کے لئے خواہشمند ہیں اور ان کی اس سلسلے میں سخاوت اور خصوصی توجہ قابل ستائش ہے۔ ملک کے طول و عرض میں موجود ایٹمی توانائی کمیشن کے زیر انتظام 18 کینسر ہسپتال عوامی خدمت کی ایک مثال عمدہ مثال ہیں جہاں کینسر کے علاج معالجہ کے لیے ہر سال دس لاکھ سے زیادہ لوگ رجوع کرتے ہیں ۔ ان ہسپتالوں نے بھی کرونا کے خلاف آگاہی کی مہم میں بھی ایٹمی توانائی کی کمیشن کی دیگر ٹیموں کے ساتھ بڑھ چڑھ کر حصہ لیا۔ اس یاسیت کے زمانے میں انسانیت کی فلاح کے لیے اپنی سی کوشش کرنا ہی اصل انسانیت ہے۔ آئیے، ہم سب اپنے اپنے حصے کی شمع جلائیں تاکہ ہمارے لئے تاریکی میں روشنی ہو سکے۔
(مصنف جناب غلام مصطفٰی ایک
انجینئراور افسانہ نویس ہیں)