نیلے پانی کی محافظ بیٹیاں

Aug 14, 2020

پاکستان کے معرض وجود میں آنے کے بعد بانی پاکستان قائد اعظم محمد علی جناح نے اس بات پر زور دیا کہ پاکستان کی ترقی کیلئے ہر شعبے میں خواتین کو مردوں کے شانہ بشانہ کام کرنا ہوگا کیونکہ اسی میں پائیدار ترقی کی راہ پنہاں ہے۔دنیا کا کوئی بھی شعبہ ہو، خواتین کی شمولیت کے بغیر ادھورا ہے۔ اکیسویں صدی میں یہ بات ایک مسلمہ حقیقت بن چکی ہے جب ہمیں ایسے شعبوں میں بھی خواتین نظر آتی ہیں جنہیں اس سے قبل صرف مردوں کے لیے ہی مخصوص سمجھا جاتا تھا۔ پاک نیوی کے بارے میں بھی عام تاثر یہی پایا جاتا تھا کہ خواتین نیوی کا حصہ نہیں بن سکتیں لیکن پاکستان نیوی نے اس تاثر کو رد کرتے ہوئے قائد اعظم کے نظریہ وحکومتی پالیسی کا اطلاق کیا اور مختلف کورسز کے ذریعے خواتین کو مواقع فراہم کیئے جس کی بدولت اب خواتین نیوی کے ہر شعبے میں مردوں کے شانہ بشانہ ٹھہری ہیں اور اپنی صلاحیتوں و توانائیوں کے ذریعے سمندری حدود، ساحلی علاقوں کے تحفظ اور ترقی میں پیش پیش ہیں۔ نیوی سے وابستہ خواتین نے حوصلے اور انتھک جدوجہد کی مثال قائم کی اور پاکستانی قوم کا سر فخر سے بلند کیا۔خواتین نیوی کے شارٹ سروس کورس کے بعد انفارمیشن ٹیکنالوجی، میڈیکل، تعلیم، تعلقاتِ عامہ، فوجی انتظام و انصرام، سپلائی چین سمیت کئی شعبہ جات میں اپنا مثبت کردار بخوبی ادا کر رہی ہیں۔ ٹریننگ کے دوران خواتین بھی مردوں کی طرح سخت تربیتی مراحل سے گزرتی ہیں، خواتین کو بھی تیراکی،جہاز رانی اور چھوٹے ہتھیار استعمال کرنے کی تربیت دی جاتی ہے جبکہ وہ عملی سرگرمیوں میں قائدانہ کردار ادا کرتی بھی نظر آتی ہیں۔
  ملک کی بہتری کیلئے بہت سی تبدیلیاں رونما ہو رہی ہیں جن میں سے ایک نیوی میں خواتین کے بڑھتے کردار کی صورت میں وقوع پذیر ہو رہی ہے۔ پاکستان نیوی میں خواتین تعلیم اور صحت کے شعبہ میں سب سے زیادہ خدمات سر انجام دے رہی ہیں۔بلوچستان بالعموم اور بلوچستان کے ساحلی علاقوں کی ترقی میں پاکستان نیوی کا کردار کسی سے ڈھکا چھپا نہیں ہے۔قیامِِ پاکستان کے تناظر میں بات کی جائے تو پاکستان کو آغاز سے ہی بہت سنگین مسائل کا سامنا رہا جن میں سے صحت و تعلیم ایسے سیکٹر تھے کہ جن پر فوری توجہ دینے کی ضرورت تھی۔ خاص طورپر بلوچستان پاکستان کا ایسا صوبہ تھا کہ جو بنیادی سہولیات سے محروم رہا۔ اس صورتحال میں پاکستان نیوی نے حکومتی مشن کو آگے بڑھا کر بلوچستان کو قومی دھارے میں لانے کی کامیاب کاوش کی اور اس کاوش کو عملی جامہ پہنانے میں نیوی سے وابستہ خواتین نے قابلِ ستائش کردار ادا کیا ہے جس سے نہ صرف کسمپرسی کی زندگی بسر کرنیوالے مقامی بلوچوں کو فائدہ ہوا بلکہ مقامی آبادی میں پاکستان نیوی کا مثبت تشخص ابھر کر سامنے آیا۔پاکستان نیوی نے اسپتال،ا سکول، کالج بنانے کے علاوہ روزگار کے مواقع پیدا کیئے جس سے مقامی آبادی کے معیار زندگی میں قدرے بہتری آئی ہے۔اگر صحت کے شعبے میں فراہم کردہ سہولیات کا جائزہ لیا جائے تو بلوچستان کے ساحلی علاقوںمیں صحت کی سہولیات نہ ہونے کے برابر تھیں۔ مقامی آبادی کو علاج کیلئے کراچی جانا پڑتا تھا جبکہ عوام میں صحت کے حوالے سے شعور نہ ہونے کے برابر تھا اور بیشتر لوگ علاج معالجہ کے اخراجات ادا کرنے کی استعداد بھی نہیں رکھتے تھے۔ اس صورتحال میں پاک نیوی نے اورماڑہ اور تربت میں اسپتال قائم کیئے جس سے اورماڑہ، تربت و دیگر متصل ساحلی علاقوں میں علاج معالجہ کی سہولت ملی۔ اسپتال بننے کے باوجود مسئلہ یہ تھا کہ مقامی لوگ اپنی خواتین کو مرد ڈاکٹر حضرات کے پاس علاج کیلئے بھیجنا معیوب سمجھتے تھے، مقامی خواتین کو اسپتال تک لانے کیلئے نیوی کی خواتین ڈاکٹرز، فارماسسٹ، نیوٹریشنسٹ، ڈینٹسٹ، نرسز نے اپنی صلاحیتیں بروئے کار لائیں۔ مقامی آبادی کو اعتماد دلایا اور یوں خاص طور پرخواتین کو پہلی مرتبہ ساحلی علاقوں میں صحت کی مفت سہولت میسر آئی۔صحت کی سہولت کو مزید فروغ دینے کیلئے پاک نیوی نے خواتین پر مشتمل پیرا میڈیکل اسٹاف کو بھرتی کیا جن میں بڑی تعداد بلوچستان سے تعلق رکھنے والی خواتین کی ہے۔پاکستان نیوی میں میڈیکل سے وابستہ خواتین گوادر، کنڈملیر، پسنی،شاہ بندر،جیوانی، تربت،گڈانی سمیت دیگر ساحلی علاقوں میں فری میڈیکل کیمپ لگا کر مقامی آبادی کو نہ صرف ادویات فراہم کرتی ہیں بلکہ لوگوں کو صحت کے حوالے سے رہنمائی فراہم کرتی ہیں۔ ساحلی علاقوں میں زچہ بچہ کے مراکز بھی نہیں ہیں تو ڈیلیوری، ماں اور بچے کی صحت کے حوالے سے سہولیات بھی نیوی کا یہی فی میل اسٹاف فراہم کر رہا ہے جو ایک قابل ستائش امر ہے۔ساحلی پٹی پر بنی آبادیوں کو اکثر قدرتی آفات اور وبائی امراض کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ اس مخدوش صورتحال میں بھی خواتین پر مشتمل میڈیکل و پیرا میڈیکل اسٹاف لوگوں کی مسیحائی کیلئے تمام آفت زدہ علاقوں میں جا کر تمام طبی سہولیات بہم پہنچاتی ہیں۔بحریہ کے میڈیکل شعبے سے وابستہ یہ خواتین پوری قوم کا افتخار ہیں جو محدود وسائل، علاقائی کٹھنائیوں کے باجود دور دراز ساحلی علاقوں میں جا کر خدمت خلق کیلئے کوشاں ہیں۔قوم کی تعمیر میں تعلیم وتربیت اولین درجہ کی حیثیت رکھتی ہے۔پاک بحریہ نے دیگر پیشہ ورانہ ذمہ داریوں کے ساتھ ساتھ علم کی اہمیت کا ادراک رکھتے ہوئے ساحلی علاقوں میں مفت تعلیم فراہم کرنے کا بیڑا اٹھایا اور ساحلی علاقوں میں چار معیاری اسکولز اور کالجز کی بنیاد رکھی جہاں1300سے زائد بلوچ طلبہ علم کی روشنی سے منور ہو رہے ہیں۔ ان ا سکولوں اور کالجز میں بھی خواتین ٹیچرز کافی تعداد میں فریضہ تدریس نبھاتے ہوئے علم کی شمعیں روشن کر رہی ہیں۔ پاک نیوی نے اس بات کو یقینی بنایا ہے کہ طلبہ کو پڑھانے والا اسٹاف مقامی ہو تاکہ لوگوں کے اعتماد میں اضافہ ہو اور وہ بچے بچیوں کو اسکول و کالج سے تعلیم دلانے میں ہچکچاہٹ کا مظاہرہ نہ کریں۔ حال ہی میں پاک نیوی نے بحریہ ماڈل کالج گوادرکے نئے ا سٹیٹ آف دی آرٹ کیمپس کا افتتاح کیا ہے جس میں523سے زائد بلوچ بچے اور بچیاں زیر تعلیم ہیں جو اس بات کا بین ثبوت ہے کہ مقامی لوگ اداروں پر مکمل اعتماد کرتے ہیں اور بچوں کے ساتھ ساتھ بچیوں کو بھی  اسکول بھیج رہے ہیں۔اعتماد قائم کرنے کے اس سفر میںپاکستان نیوی کے خواتین ا سٹاف اور نیوی سے وابستہ سول  اسٹاف کی شبانہ روز محنت و لگن نے مرکزی کردار ادا کیا ہے۔ نیوی سے وابستہ فی میل اسٹاف نئے ریکروٹس کو نیوی کے مختلف مضامین بھی پڑھاتی ہیں۔پاک بحریہ کے مزید شعبہ جات میں خواتین کے کردار پر نظر دوڑائیں تو وہ نیول لاجسٹک سپورٹ کے شعبے میں عملی طور پر فعال ہیں۔یہ نیوی کا اہم اور حساس ترین شعبہ ہے کہ جہاں قابلیت و مہارت کا ہونا بہت اہمیت کا حامل ہوتا ہے۔اس شعبے میں خواتین ایئر کرافٹ سے لیکر دیگر اہم مشینری کو سنبھالنے، حساس سامان کو سازگار ماحول میں رکھنے سمیت کئی اہم امور کو سر انجام دیکر ثابت کر رہی ہیں کہ خواتین کسی سے کم نہیں۔ اسی طرح آئی ٹی برانچ میں بھی خواتین کی بڑی تعداد کام کر رہی ہے اور سافٹ ویئر بنانے اور نیوی کے نظام کو ڈیجیٹلائز کرنے کیلئے مصروف عمل ہیں۔نیوی کی لا ء برانچ میں بھی خواتین بطور وکیل نیوی کی نمائندگی کر رہی ہیں۔ وہ بحریہ کے قانونی معاملات دیکھنے کے علاوہ اس بات کو بھی یقینی بناتی ہیں کہ نیوی کی پالیسی حکومتی پالیسی کے مطابق بنائی جائے۔ نیوی کے شعبہ تعلقات عامہ پر نظر دوڑائی جائے تو وہاں بھی خواتین نیوی سے متعلق رائے عام کو مضبوط کرنے کیلئے بر سر پیکار ہیں۔ نیوی کے بارے میں لوگ نہیں جانتے کہ ملکی دفاع اور معاشی استحکام کیلئے نیوی کتنا اہم کردار ادا کر رہی ہے تاہم اب دیگر اسٹاف کے ساتھ مل کر خواتین پبلک ریلیشنز آفیسر ز بھی بحریہ کے بارے میں رائے عامہ تشکیل کر رہی ہیں۔پاک بحریہ کا معاشی شعبہ ہو یا تعلیمی ہر جگہ خواتین کارکردگی کے ذریعے اپنی موجودگی کا احساس دلا رہی ہیں۔ ترقی یافتہ شہروں سے لے کر پسماندہ اور روایت پسند علاقوں تک پاکستان نیوی سے وابستہ نڈر، حوصلہ مند، محنتی اور کام سے لگن رکھنے والی خواتین اپنے عزم و حوصلے کے سبب دنیا کی نظروں کا مرکز بنیں اور یہ پیغام دیا کہ وقت بدل رہا ہے، خواتین کی اہمیت کو تسلیم نہ کرنے والوں کو اب اپنا ذہن بدلنا ہوگا۔ بلاشبہ یہ ہونہار خواتین پاک نیوی کے ساتھ مل کر ملک و قوم کی ترقی میں قابل رشک حصہ ڈال رہی ہیں اور ساحلی پٹی کے پسماندہ درماندہ عوام کی خدمت کر کے ان کو قومی دھارے میں لانے کا باعث ہیں۔ بلا شبہ نیوی کا سفید یونیفارم پہننے والی یہ خواتین پوری قوم کا سر فخر سے بلند کر رہی ہیں۔ ہمیں فخر ہے قوم کی ان بیٹیوں پر کہ جو نیلے پانی کی معاشی اہمیت، ساحلوں سے جڑے لوگوں کی اہمیت کا ادارک رکھتی ہیں اور ملک و قوم کیلئے ان کا بہتر استعمال یقینی بنانے کیلئے تندہی سے کوشاں ہیں۔ اے نیلے پانی کی محافظ بیٹیوں آپ قوم کا مان ہو۔
 

مزیدخبریں