پاکستان کے 73ویں یوم آزادی کے موقع پر بھارت کا سائبر حملہ‘ پاک فوج کی بروقت کارروائی سے ناکام
وطن عزیز اسلامی جمہوریہ پاکستان کے 73ویں یوم آزادی کا سورج آج نئے پاکستان کی امنگوں کے ساتھ ابھر رہا ہے۔ پاکستانی قوم آج یوم آزادی منفرد انداز میں منا رہی ہے۔ سال گزشتہ بھارت نے کشمیر کی خصوصی حیثیت اپنے آئین سے آرٹیکل 370 اور اسکی ذیلی شق 35 اے نکال کر ختم کر دی۔ آج پاکستان کے یوم آزادی پر کشمیریوں کے ساتھ اظہار یکجہتی بھی کیا جائیگا جبکہ 15 اگست کو بھارت کے یوم آزادی کو حسب سابق یوم سیاہ کے طور پر منایا جائیگا۔ بھارتی غیرقانونی زیرقبضہ کشمیر کی خصوصی حیثیت کے خاتمے کے بعد ایک سال میں پاکستان بھارت کشیدگی انتہاء پر رہی اور بدستور ہے۔
آج یوم آزادی بابائے قوم قائداعظم محمدعلی جناح کے ویژن کے مطابق مادر وطن کو امن‘ ترقی اور خوشحالی کا گہوارہ بنانے کے پختہ عزم کی تجدید کے ساتھ قومی و ملی جوش و جذبے سے منایا جارہا ہے۔ اس سلسلہ میں آج ملک بھر میں عام تعطیل ہے۔ پرنٹ میڈیا نے آج جشن آزادی کے حوالے سے خصوصی اشاعتوں کا اہتمام کیا ہے۔ سرکاری اور نجی الیکٹرانک میڈیا کی جانب سے آج وطن سے محبت کے جذبے کو اجاگر کرنیوالی خصوصی نشریات کا اہتمام کیا گیاہے۔دن کا آغاز مساجد میں نماز فجر کے بعد ملک و قوم کی سلامتی اور ترقی و خوشحالی کیلئے دعائوں سے ہوگا ،وفاقی دارالحکومت میں31 اور صوبائی دارالحکومتوںمیں 21،21 توپوں کی سلامی دی جائے گی۔ملک بھر میں مختلف مقامات پر پرچم کشائی کی تقریبات منعقد کی جائیں گی تاہم امسال کرونا وائرس کے پھیلائو کے خدشات کے پیش نظر مرتب کئے گئے ایس او پیز کو یقینی بنایا جائے گا۔یوم آزادی کی مناسبت سے ایس او پیز کو پیش نظر رکھتے ہوئے سیمینارز اور دیگر تقریبات کا انعقاد کیا جائے گا جس میں مقررین جدوجہد آزادی کی تحریک میں دی جانے والی قربانیوں پر روشنی ڈالیں گے۔حکومتی ، سرکاری شخصیات اورپاک افواج کے افسران ،بانی پاکستان قائد اعظم محمد علی جناح اور شاعر مشرق علامہ اقبال کے مزار مبارک پر حاضری دیں گے اور پھولوں کی چادریں چڑھانے کے بعد فاتحہ خوانی کریں گے۔ اہم سرکاری و نجی عمارتوں پر قومی پرچم لہرائے جائیں گے اور اس کے ساتھ چراغاں بھی کیا جائے گا۔
یہ حقیقت تاریخ کے صفحات میں محفوظ ہو چکی ہے کہ متعصب ہندو اکثریت نے مسلم دشمنی کے باعث برصغیر کے مسلمانوں کا عرصۂ حیات تنگ کرکے اور انہیں اپنے سے کمتر انسان کا درجہ دیکر خود دو قومی نظریے کی بنیاد رکھی تھی جو تحریک پاکستان کی بھی بنیاد بنی اور بالآخر قیام پاکستان پر منتج ہوئی‘ جس میں قائداعظمؒ کی بے بدل قیادت میں ایک ایسے جدید اسلامی فلاحی جمہوری معاشرے کی تشکیل اور اس آزاد و خودمختار پاکستان کا تصور متعین ہوا‘ جس میں مسلمانوں کو نہ صرف مکمل مذہبی آزادی حاصل ہو گی بلکہ انہیں اقتصادی غلامی کے شکنجے میں جکڑنے والی ہندو بنیاء ذہنیت اور انگریز کے ٹوڈی جاگیرداروں اور سرمایہ داروں کے استحصال سے بھی نجات ملے گی اور اس خطہ کے مغلوب مسلمانوں کی جمہوری جدوجہد کے نتیجہ میں قائم ہونیوالی اس مملکت خداداد میں خلقِ خدا کے راج کا تصور بھی عملی قالب میں ڈھل جائیگا۔ قیام پاکستان کے مقاصد‘ اسکے نظریہ اور نظام کے حوالے سے قائداعظم کے ذہن میں کوئی ابہام نہیں تھا چنانچہ وہ قیام پاکستان کی جدوجہد کے دوران ہر مرحلے پر مسلمانانِ برصغیر اور دنیا کو قیام پاکستان کے مقاصد سے آگاہ کرتے رہے۔ آج جو دانشور حلقے نظریۂ پاکستان اور قیام پاکستان کے مقاصد کے حوالے سے ایک سوچے سمجھے منصوبے کے تحت حقائق کو مسخ کرکے پیش کر رہے ہیں‘ انہیں اسلامیہ کالج پشاور میں قائداعظم کی 13؍ جنوری 1948ء کی تقریر کے یہ الفاظ ذہن نشین کرلینے چاہئیں کہ ’’ہم نے پاکستان کا مطالبہ ایک زمین کا ٹکڑا حاصل کرنے کیلئے نہیں کیا تھا‘ بلکہ ہم ایک ایسی تجربہ گاہ حاصل کرنا چاہتے تھے‘ جہاں ہم اسلام کے اصولوں کو آزما سکیں۔‘‘
بدقسمتی سے قائد کی رحلت کے بعد ’’کھوٹے سکوں‘‘ نے اپنے مفادات کی بجاآوری میں پاکستان کو اسلام کی تجربہ گاہ بنانے کے بجائے اپنے مفادات اور مسائل کی آماجگاہ بنا دیا۔ سیاست دانوں کی آپس کے اختلافات سے فائدہ اٹھاتے ہوئے فوجی آمریت مسلط ہوتی رہی۔ سیاست دان قائداعظم کے صحیح جا نشین ہوتے تو ملک میں جمہوریت مضبوط ہوتی‘ آمریت کے سائے وطن عزیز پر نہ پڑتے‘ وسائل کو بروئے کار لا کر ملک و قوم ترقی و خوشحالی کی منازل سے ہمکنار ہو چکی ہوتی۔
پاکستان کو طویل عرصہ دہشت گردی کے ناسور کا سامنا رہا جسے پاک فوج نے جڑ سے اکھاڑ پھینکنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی۔ مگر وہ دہشت گرد اب بھی اپنے آقائوں کے احکامات کی بجاآوری میں خال خال دہشت گردی کے واقعات کا ارتکاب کرتے ہیں۔ ان کا پشتیبان بلاشبہ بھارت ہے۔ دشمن کی سازشوں کو ٹھوس حکمت عملی اور دہشت گردوں کے سہولت کاروں کے ساتھ آہنی ہاتھوں سے نمٹ کر ناکام بنایا جا سکتا ہے۔
گزشتہ سال بھارت نے اپنے آئین کے آرٹیکل 370 اور اسکی شق 35 اے کو نکالا اور کشمیر کی خصوصی حیثیت ختم کرکے کشمیر پر شب خون مارا ۔ کشمیر کی خصوصی حیثیت کے خاتمے کے بعد کشمیری شعلہ جوالہ بن گئے‘ ان کو گھروں میں بند رکھنے کیلئے وادی میں کرفیو لگا دیا گیا۔ آج کرفیو کو ایک سال سے زائد عرصہ ہو چکا ہے‘ جنگ کے دوران بھی مریضوں کو ادویات اور عام شہریوں کو خوراک کے حصول کی اجازت ہوتی ہے مگر بھارتی ساڑھے سات لاکھ سفاک سپاہ نے کشمیریوں کے تمام انسانی حقوق کی بری طرح پائمالی کی۔ مواصلات کا نظام مکمل طور پر بند ہے‘ انٹرنیٹ اور فون سروس بند ہونے سے کشمیری دنیا سے کٹ کر رہ گئے۔ وادی میں بھارت کی سفاکیت سے انسانی المیہ بدترین شکل اختیار کر چکا ہے۔ عالمی برادری اس پر تشویش کا اظہار تو کرتی ہے مگر بھارت کے ظلم کا ہاتھ روکنے میں تساہل سے کام لیتی ہے۔ اسے آخری کشمیری کی موت کا انتظار کیونکر ہے؟
پلوامہ کا ڈرامہ رچا کر بھارت نے جنگی صورتحال پیدا کردی۔ اسکی طرف سے جارحانہ اقدامات کا بھی ارتکاب کیا جاتا رہا جس کا پاکستان نے منہ توڑ جواب دیا۔ ایک سال میں اسکے پاکستانی حدود میں گھسنے والے دس ڈرون مار گرائے گئے۔ کراچی سٹاک ایکسچینج پر ہولناک دہشت گردی کی بھارتی کوشش ناکام بنادی گئی۔ اب بھارت کی طرف سے سائبر پر حملے کے شواہد سامنے آئے ہیں۔ پاکستانی انٹیلی جنس ایجنسیوں نے بھارتی انٹیلی جنس اداروں کے پاکستان پر ایک سائبر حملے کا سراغ لگا کر اسے ناکام بنا دیا۔ آئی ایس پی آر کے مطابق بھارتی انٹیلی جنس کے ہیکروں نے پاکستان کے دفاعی اداروں سے تعلق رکھنے والے فوجی افسروں اور سویلین حکام کے ذاتی موبائل فونز اور ٹیکنیکل آلات سے معلومات ہیک کرنے کی کوششیں کیں تاہم پاک فوج نے اس قسم کی کوششوں کو ناکام بنانے کیلئے فوری اقدامات کرلئے ہیں۔ بھارت کیلئے پاکستان کا وجود ناقابل برداشت ہے۔ اس نے ہمیشہ پاکستان کی بربادی کے منصوبے بنائے جو بدستور جاری ہیں۔ بھارتی شرارتوں سے نمٹنے کیلئے ہمیں اس وقت قائداعظم کے وژن پر عمل کرنے کی سخت ضرورت ہے۔ مقبوضہ وادی میں اسکے مظالم میں اضافہ در اضافہ ہورہا ہے۔ کشمیر کے بغیر پاکستان کا وجود مکمل نہیں ہوسکتا لہٰذا استصواب پر بہرصورت عمل کی ضرورت ہے۔ اس حوالے سے قوم کا وسیع تر اتحاد و اتفاق کی ناگزیر ہے۔ اپوزیشن کو فروعی اختلافات سے بالاتر رکھ کر کشمیر کاز کے یک نکاتی ایجنڈے پر حکومت کا ساتھ دینا ہوگا۔ قوم کو 73 واں یوم آزادی مبارک ‘ اللہ کریم پاکستان کا حامی و ناصر ہو۔
بھارتی شرارتوں سے نمٹنے کیلئے قائداعظم کے وژن پر عمل کرنے کی ضرورت ہے
Aug 14, 2020